دلوں سے درد دعا سے اثر نکلتا ہے
دلوں سے درد دعا سے اثر نکلتا ہے
یہ کس بہشت کی جانب بشر نکلتا ہے
پڑا ہے شہر میں چاندی کے برتنوں کا رواج
سو اس عذاب سے اب کوزہ گر نکلتا ہے
میاں یہ چادر شہرت تم اپنے پاس رکھو
کہ اس سے پاؤں جو ڈھانپیں تو سر نکلتا ہے
خیال گردش دوراں ہو کیا اسے کہ جو شخص
گرہ میں ماں کی دعا باندھ کر نکلتا ہے
میں سنگ میل ہوں پتھر نہیں ہوں رستے کا
سو کیوں زمانہ مجھے روند کر نکلتا ہے
مرے سخن پہ تو داد سخن نہیں دیتا
تری طرف مرا قرض ہنر نکلتا ہے
سخنوران قد آور میں تیرا قد مختارؔ
عجب نہیں ہے جو بالشت بھر نکلتا ہے
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 09.11.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.