اپنے رستے ہوئے زخموں کی قبا لایا ہوں
اپنے رستے ہوئے زخموں کی قبا لایا ہوں
زندگی میری طرف دیکھ کہ میں آیا ہوں
کسی سنسان جزیرے سے پکارو مجھ کو
میں صداؤں کے سمندر میں نکل آیا ہوں
کام آئی ہے وہی چھاؤں گھنی بھی جو نہ تھی
وقت کی دھوپ میں جس وقت میں کمھلایا ہوں
خیریت پوچھتے ہیں لوگ بڑے طنز کے ساتھ
جرم بس یہ ہے کہ اک شوخ کا ہمسایہ ہوں
صبح ہو جائے تو اس پھول کو دیکھوں کہ جسے
میں شبستان بہاراں سے اٹھا لایا ہوں
عصر نو مجھ کو نگاہوں میں چھپا کر رکھ لے
ایک مٹتی ہوئی تہذیب کا سرمایہ ہوں
- کتاب : paalkii kahkashaa.n (Pg. 135)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.