اب اور چلنے کا اس دل میں حوصلہ ہی نہ تھا
اب اور چلنے کا اس دل میں حوصلہ ہی نہ تھا
کہ شہر شب میں اجالے کا شائبہ ہی نہ تھا
میں اس گلی میں گیا لے کے زعم رسوائی
مگر مجھے تو وہاں کوئی جانتا ہی نہ تھا
گداز جاں سے لیا میں نے پھر غزل کا سراغ
کہ یہ چراغ تو جیسے کبھی بجھا ہی نہ تھا
کوئی پکارے کسی کو تو خود ہی کھو جائے
ہوا تو ہے مگر ایسا کبھی سنا ہی نہ تھا
کسے کہیں کہ رفاقت کا داغ ہے دل پر
بچھڑنے والا تو کھل کر کبھی ملا ہی نہ تھا
مسافروں کو کئی واہمے ستاتے ہیں
ٹھہرتے کیا کہ دریچوں میں تو دیا ہی نہ تھا
دمک اٹھا تھا وہ چہرہ حیا کی چادر میں
کہ جیسے جرم وفا اس کا مدعا ہی نہ تھا
ہمارے ہاتھ فقط ریت کے صدف آئے
کہ ساحلوں پہ ستارہ کوئی رہا ہی نہ تھا
- کتاب : Funoon (Monthly) (Pg. 437)
- Author : Ahmad Nadeem Qasmi
- مطبع : 4 Maklood Road, Lahore (25Edition Nov. Dec. 1986)
- اشاعت : 25Edition Nov. Dec. 1986
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.