عارضی آسائشوں کی چاہ کرنا چھوڑ دے
عارضی آسائشوں کی چاہ کرنا چھوڑ دے
فکر عقبیٰ ذہن میں رکھ فکر دنیا چھوڑ دے
کچھ عمل کا ذکر کر کچھ بات کر کردار کی
قیصر و کسریٰ کا اب تو خواب بننا چھوڑ دے
کشتیاں بھی بادبانوں کی نہیں محتاج اب
عارضی ہو جو سہارا وہ سہارا چھوڑ دے
زندگی اندوہ غم میں گھٹ کے رہ جائے اگر
جذبۂ غم آنسوؤں کی شکل بہنا چھوڑ دے
وصل کا وعدہ کیا ہے تو اسے پورا بھی کر
یہ نیا ہر روز کا حیلہ بہانا چھوڑ دے
ایک دن تو دل کو بھی ترجیح دے کر دیکھ لوں
عقل سے کہہ دو کہ مجھ کو آج تنہا چھوڑ دے
کاش آ جائے پلٹ کر وہ سنہرا دور پھر
بھائی بھائی کے لئے منہ کا نوالا چھوڑ دے
اپنے ہاتھوں سے کمانے کی لگن دل میں نہیں
چاہتا ہے آج بیٹا باپ ورثا چھوڑ دے
دیکھ کھا جائیں نہ آہیں بیکس و مظلوم کی
اے امیر شہر اب بھی ظلم ڈھانا چھوڑ دے
ملک کی گلیاں لہو پینے کی عادی ہو نہ جائیں
یہ تعصب زہر کا ذہنوں میں بھرنا چھوڑ دے
مذہبی جذبات کے سارے پٹارے بند کر
اے سیاست کے مداری یہ تماشا چھوڑ دے
چاند کو چھونے کی کوشش احمقانہ فعل ہے
جو نہ حاصل ہو سکے اس کی تمنا چھوڑ دے
تا قیامت یاد رکھے تجھ کو یہ دنیا سلیمؔ
اپنے کردار و عمل کا نقش ایسا چھوڑ دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.