آنکھوں میں اس کی میں نے آخر ملال دیکھا
آنکھوں میں اس کی میں نے آخر ملال دیکھا
کن کن بلندیوں پر اپنا زوال دیکھا
ساز فلک نے چھیڑا معنی کا راگ جس دم
فرش زمیں پہ رقصاں پائے خیال دیکھا
وہ کودتے اچھلتے رنگین پیرہن تھے
معصوم قہقہوں میں اڑتا گلال دیکھا
یہ کون ہے جو مجھ میں مجھ سے الجھ رہا ہے
سو بار میں نے خود کو خود سے نکال دیکھا
کیا جانے کون ہیں وہ جن کے لئے جدا ہیں
میں نے تو ایک صورت ہجر و وصال دیکھا
کچھ زخم کاوشوں کے کچھ حسرتوں کے لاشے
باہر سے کچھ زیادہ اندر قتال دیکھا
ناکام حسرتوں کی روداد مختصر ہے
بھائے وہ کام جی کو جن کو محال دیکھ
اے دل خبیث اب تو کس کس پہ جان دے گا
میں نے تو ہر قدم پر اک بے مثال دیکھا
تاریخ ہے کہ خود کو دہرائے جا رہی ہے
باسی کڑھی میں ہم نے یوں بھی ابال دیکھا
دل سے اتر گئیں اب پاس وفا کی باتیں
میں نے بھی ایک مدت تک یہ روگ پال دیکھا
بس تھا کہ اس سے پوچھوں یہ خوش گمانیاں کیوں
اتنے میں اس کے منہ پر اپنا سوال دیکھا
کچھ صاف اس کا چہرہ مطلب نہیں بتاتا
یوں تھا کہ جیسے میں نے قرآں میں فال دیکھا
مجھ کو غرض نہیں کچھ کیسا ہے اور کیا ہے
جو بھی خیال آیا شعروں میں ڈھال دیکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.