کئی برس باد اچانک ایک ملاقات
اور دونوں کی ہستی اک نظم کی طرح کانپی
سامنے پوری رات تھی
مگر آدھی نظم ایک گوشہ میں آویزاں رہی
صبح ہوئی تو ہم پھٹے ہوئے کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح ملے
میں نے اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھاما
اس نے اپنی بانہہ میں میری بانہہ ڈالی
پھر ہم دونوں سنسر کی طرح ہنسے
اور کاغذ کو ٹھنڈی میز پر رکھ کر
ساری نظم پر ایک لکیر پھیر دی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.