ہزاروں پرندے
ہزاروں پرندے
میرے ذہن کے قیدی
سنتا ہوں دن رات میں
دیتے ہیں دہائی
رہائی
رہائی
ہم چاہے جا کر
کہیں چھلنی ہو جائیں
ہماری کایا سے بہنے لگیں گے
خون کے فوارے
ہم چاہے جا کر
کہیں جھلس جائیں
جل اٹھیں گے ہمارے پروں کے
ریشمی کنارے
تو بس جانے دے اب
کہیں بھی ہمیں
تیری قید سے تو
بہتر ہیں ہمارے لیے
شکاری اور گوشت خور قصائی
جب پیڑ تھا تو
جب اترے تھے ہم
تیری شاخوں پر
تب تو نے کہا تھا
اڑو آکاش میں
جب تھک جاؤ
میرے پاس آؤ
تو پھر تولو
اور ہواؤں کے نام خط لکھتے جاؤ
تو ہمارے ہمیشہ کے لیے
پرواز کرنے سے
پتوں کے سوکھنے
جھڑنے سے ڈرتا تھا
تو اب پیڑ سے
پنجرا بن گیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.