آخری سلیوٹ
آزادی ہند کے بعد کشمیر کے لیے دونوں ملکوں میں ہونے والی پہلی جنگ کے مناظر کو پیش کیا گیا ہے۔ کہ کس طرح دونوں ملک کے فوجی جذباتی طور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں لیکن اپنے اپنے ملک کے آئین اور قانون کے پابند ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ کرنے پر مجبور ہیں۔ وہی لوگ جو جنگ عظیم میں متحد ہو کر لڑے تھے وہ اس وقت الگ الگ ملک میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔
سعادت حسن منٹو
ٹیٹوال کا کتا
کہانی میں بنیادی طور سے مذہبی منافرت اور ہندوستانی و پاکستانی افراد کے مابین تعصب کی عکاسی ہے۔ کتا جو کہ ایک بے جان جانور ہے ہندوستانی فوج کے سپاہی محض تفریح طبع کے لیے اس کتے کا کوئی نام رکھتے ہیں اور وہ نام لکھ کر اس کے گلے میں لٹکا دیتے ہیں۔ جب وہ کتا پاکستان کی سرحد کی طرف آتا ہے تو پاکستانی فوج کے سپاہی اسے کوئی کوڈ ورڈ سمجھ کر چوکنا ہو جاتے ہیں۔ دونوں طرف کے سپاہی غلط فہمی کے باعث اس کتے پر گولی چلا دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
یزید
کریم داد ایک ٹھنڈے دماغ کا آدمی ہے جس نے تقسیم کے وقت کے فساد کی ہولناکیوں کو دیکھا تھا۔ ہندوستان پاکستان جنگ کے تناظر میں یہ افواہ اڑتی ہے کہ ہندوستان والے پاکستان کی طرف آنے والے دریا کا پانی بند کر رہے ہیں۔ اسی دوران اس کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے جس کا نام وہ یزید رکھتا ہے اور کہتا ہے اس یزید نے دریا بند کیا تھا، یہ کھولے گا۔
سعادت حسن منٹو
آوارہ گرد
دنیا کی سیر پر نکلے ایک جرمن لڑکے کی کہانی۔ وہ پاکستان سے ہندوستان آتا ہے اور بمبئی میں ایک سفارشی میزبان کے یہاں قیام کرتا ہے۔ رات کو کھانے کی میز پر وہ اپنے میزبان سے جرمنی، دوسری عالمی جنگ، نازی اور اپنے ماضی کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ ہندوستان سے وہ شری لنکا جاتا ہے، دوران سفر ایک سنگھلی بودھ اس کا دوست بن جاتا ہے۔ وہ دوست اسے ندی میں نہانے کی دعوت دیتا ہے اور خود ڈوب کر مر جاتا ہے۔ لنکا سے ہوتا ہوا وہ سیلانی لڑکا ویتنام جاتا ہے۔ ویتنام میں جنگ جاری ہے اور جنگ کی ایک گولی اس یوروپی آوارہ گرد نوجوان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔
قرۃالعین حیدر
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
یہ کہانی مغربی جرمنی میں جا رہی ایک ٹرین سے شروع ہوتی ہے۔ ٹرین میں پانچ لوگ سفر کر رہے ہیں جن میں ایک پروفیسر اور اس کی بیٹی، ایک کناڈا کی لڑکی اور ایک ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی ہیں۔ شروع میں سب خاموش بیٹھے رہتے ہیں پھر رفتہ رفتہ آپس میں بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔ دوران گفتگو کینیڈین لڑکی ایرانی پروفیسر سے متاثر ہوتی ہے اور اسے پسند کرنے لگتی ہے۔ ٹرین کا سفر ختم ہونے کے بعد بھی وہ آپس میں ملتے رہتے ہیں اور ایک ایسے رشتے میں بندھ جاتے ہیں جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ چاروں طرف جنگ کا ماحول ہے، ایران میں تحریکیں زوروں پر ہیں کہ ایرپورٹ پر دھماکہ ہوتا ہے۔ اس بم دھماکے میں ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی مارے جاتے ہیں۔ اس حادثے کا کینیڈین لڑکی کے ذہن پر جو اثر پڑتا ہے، کہانی کا انجام ہے۔
قرۃالعین حیدر
ماتمی جلسہ
’’ترکی کے مصطفی کمال پاشا کی موت کے سوگ میں بمبئی کے مزدوروں کی ہڑتال کے اعلان کے گرد گھومتی کہانی ہے۔ ہندوستان میں جب پاشا کے مرنے کی خبر پہنچی تو مزدوروں نے ایک دوسرے کے ذریعہ سنی سنائی باتوں میں آکر شہر میں ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ ہڑتال بھی ایسی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر بند ہو گیا۔ شام کو جب مزدوروں کی یہ بھیڑ جلسہ گاہ پرپہنچی تو وہاں تقریر کے دوران اسٹیج پر کھڑے ایک شخص نے کچھ ایسا کہہ دیا کہ اس ہڑتال نے فساد کی شکل اختیار کر لی۔‘‘
سعادت حسن منٹو
ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی
یہ ایک تجرباتی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سینٹرل ایشیا کی روایات، رسم و رواج اور مذہبی عقائد کو مرکزی خیال بنایا گیا ہے۔ کہانی بیک وقت حال سے ماضی میں اور ماضی سے حال میں چلتی ہے۔ یہ دور عثمانیہ کے کئی واقعات کو بیان کرتی ہے، جن میں پیر و مرشد ہیں اور ان کے مرید ہیں، فقیر ہیں اور ان کا خدا اور رسول سے روحانی رشتہ ہے۔ ایک اہم خاتون کردار جس کا شوہر لاپتہ ہو گیا ہے، اس کی تلاش کے لیے ایک ایسے ہی بابا سے ملنے ایک عورت کا خط لے کر جاتی ہے۔ وہ اس بابا کی روحانی کرشموں سے روبرو ہوتی ہے جنہیں عام طور پر انسان نظر انداز کر دیتا ہے۔
قرۃالعین حیدر
دو سارس کی اوڈیسی
یہ انسداد جنگ اور ہجرت پر ایک طنز ہے۔ دنیا پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے جب جھیل کی سطح پر کھڑے دو سارس نے وقت سے قبل سائبیریا لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں نے اپنے پر پھیلائے، ٹانگیں سمیٹیں اور آسمان کی طرف پرواز کر گئے اور اس کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے شہروں شہر پرواز کی وہ داستان۔ جب وہ بدبودار دھوؤں میں اڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ کس طرح گھر جلائے جا رہے ہیں، لوگوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے، نہتے مارے جا رہے ہیں اور اس نر سارس کا کہنا تھا کہ، یہ سب اس لئے تھا کیونکہ دنیا میں جنگ کے اسلحے بہت زیادہ بیچے جا چکے ہیں اور اب ایک بڑی جنگ کا ہونا لازمی ہے تاکہ یہ اسلحے ختم ہوں ورنہ سمندر پار ہتھیار بنانے کے سارے کارخانے بند ہو جائیں گے۔