ٹاپ 10 ریختہ پر افسانے
ہمیں آپ کو یہ بتاتے
ہوئے بیحد خوشی ہو رہی ہے کہ ریختہ فاؤنڈیشن نے دس سالوں کا سفر طے کر لیا ہے۔ اور اس منزل تک پہنچنے میں آپ سب کا قیمتی اور محبّت بھرا ساتھ بہت اہم تھا۔ ہم نے ان دس سالوں میں سب زیادہ پسند کی گئیں غزلوں، شعروں، نظموں اور کہانیوں کا انتخاب کیا ہے۔ پڑھیے اور جانئے کہ اس انتخاب میں کیا کیا شامل ہے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ
اس افسانہ میں نقل مکانی کے کرب کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جہاں ہر چیز کا تبادلہ ہو رہا تھا وہیں قیدیوں اور پاگلوں کو بھی منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ فضل دین پاگل کو صرف اس بات سے سروکار ہے کہ اسے اس کی جگہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ سے جدا نہ کیا جائے۔ وہ جگہ خواہ ہندوستان میں ہو یا پاکستان میں۔ جب اسے جبراً وہاں سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک ایسی جگہ جم کر کھڑا ہو جاتا ہے جو نہ ہندوستان کا حصہ ہے اور نہ پاکستان کا اور اسی جگہ پر ایک فلک شگاف چیخ کے ساتھ اوندھے منھ گر کر مر جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
بو
یہ ایک گھاٹن لڑکی کے جسم سے پیدا ہونے والی بو کی کہانی ہے۔ رندھیر سنگھ ایک وجیہ اور خوبصورت نوجوان عورتوں کے معاملے میں منجھا ہوا کھلاڑی ہے لیکن اسے جو لذت گھاٹن لڑکی کے جسم سے محسوس ہوتی ہے وہ اس نے آج تک کسی اور عورت میں محسوس نہیں کی تھی۔ رندھیر کو پسینے بو سے سخت نفرت ہے پھر بھی وہ اس گھاٹن لڑکی کے جسم کی بو کو اپنی رگ رگ میں بسالینے کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
1919 کی ایک بات
جدوجہد آزادی میں انگریز کی گولی سے شہید ہونے والے ایک طوائف زادے کی کہانی ہے۔ طفیل عرف تھیلا کنجر کی دوبہنیں بھی طوائف تھیں۔ طفیل ایک انگریز کو موت کے گھاٹ اتار کر خود شہید ہو گیا تھا۔ انگریزوں نے بدلہ لینے کی غرض سے دونوں بہنوں کو بلا کر مجرا کرایا اور ان کی عزت کو تار تار کیا۔
سعادت حسن منٹو
آنکھیں
تشنہ جذبات کی کہانی ہے۔ بینائی سے محروم حنیفہ کو وہ اسپتال میں دیکھتا ہے تو اس کی پرکشش آنکھوں پر فدا ہو جاتا ہے۔ حنیفہ کے رویے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسپتال اس کے لیے بالکل نئی جگہ ہے اس لیے وہ اس کی مدد کے لیے آگے آتا ہے۔ اس کی پرکشش آنکھوں کی گہرائی میں غوطہ زن رہنے کے لیے جھوٹ بول کر کہ اس کا گھر بھی حنیفہ کے گھر کے راستے میں ہے، وہ اس کے ساتھ گھر تک جاتا ہے۔ پہنچنے کے بعد جب وہ تانگہ سے اترنے کے لیے بدرو کا سہارا لیتی ہے تب پتہ چلتا ہے کہ یہ بینائی سے محروم ہے اور پھر۔۔۔
سعادت حسن منٹو
آخری سلیوٹ
آزادی ہند کے بعد کشمیر کے لیے دونوں ملکوں میں ہونے والی پہلی جنگ کے مناظر کو پیش کیا گیا ہے۔ کہ کس طرح دونوں ملک کے فوجی جذباتی طور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں لیکن اپنے اپنے ملک کے آئین اور قانون کے پابند ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ کرنے پر مجبور ہیں۔ وہی لوگ جو جنگ عظیم میں متحد ہو کر لڑے تھے وہ اس وقت الگ الگ ملک میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔
سعادت حسن منٹو
آرٹسٹ لوگ
اس افسانہ میں آرٹسٹ کی زندگی کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ اور محمود اپنے فن کی بقا کے لئے مختلف طرح کے جتن کرتے ہیں لیکن باذوق لوگوں کی قلت کی وجہ سے فن کی آبیاری مشکل امر محسوس ہونے لگتا ہے۔ حالات سے پریشان ہو کر معاشی آسودگی کے لیے وہ ایک فیکٹری میں کام کرنے لگتے ہیں۔ لیکن دونوں کو یہ کام آرٹسٹ کے رتبہ کے شایان شان محسوس نہیں ہوتا اسی لیے دونوں ایک دوسرے سے اپنی اس مجبوری اور کام کو چھپاتے ہیں۔