مزاح پر اشعار
مزاحیہ شاعری بیک وقت
کئی ڈائمنشن رکھتی ہے ، اس میں ہنسنے ہنسانے اور زندگی کی تلخیوں کو قہقہے میں اڑانے کی سکت بھی ہوتی ہے اور مزاح کے پہلو میں زندگی کی ناہمواریوں اورانسانوں کے غلط رویوں پر طنز کرنے کا موقع بھی ۔ طنز اور مزاح کے پیرائے میں ایک تخلیق کار وہ سب کہہ جاتا ہے جس کے اظہار کی عام زندگی میں توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ شاعری پڑھئے اور زندگی کے ان دلچسپ علاقوں کی سیر کیجئے۔
اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے
نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے
غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے
میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
دھمکا کے بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا
چندا وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے
جب غم ہوا چڑھا لیں دو بوتلیں اکٹھی
ملا کی دوڑ مسجد اکبرؔ کی دوڑ بھٹی
ہم نے کتنے دھوکے میں سب جیون کی بربادی کی
گال پہ اک تل دیکھ کے ان کے سارے جسم سے شادی کی
جب بھی والد کی جفا یاد آئی
اپنے دادا کی خطا یاد آئی
-
موضوعات : جفااور 1 مزید
آم تیری یہ خوش نصیبی ہے
ورنہ لنگڑوں پہ کون مرتا ہے
اردو سے ہو کیوں بیزار انگلش سے کیوں اتنا پیار
چھوڑو بھی یہ رٹا یار ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار
تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا تھا
مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر
صرف محنت کیا ہے انورؔ کامیابی کے لئے
کوئی اوپر سے بھی ٹیلیفون ہونا چاہئے
ہے کامیابیٔ مرداں میں ہاتھ عورت کا
مگر تو ایک ہی عورت پہ انحصار نہ کر
بیگم بھی ہیں کھڑی ہوئی میدان حشر میں
مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
اس کی بیٹی نے اٹھا رکھی ہے دنیا سر پر
خیریت گزری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا
ہر ملک اس کے آگے جھکتا ہے احتراماً
ہر ملک کا ہے فادر ہندوستاں ہمارا
بتوں کے پہلے بندے تھے مسوں کے اب ہوئے خادم
ہمیں ہر عہد میں مشکل رہا ہے با خدا ہونا
ہونٹ کی شیرینیاں کالج میں جب بٹنے لگیں
چار دن کے چھوکرے کرنے لگے فرہادیاں
لانڈری کھولی تھی اس کے عشق میں
پر وہ کپڑے ہم سے دھلواتا نہیں
کیا پوچھتے ہو اکبرؔ شوریدہ سر کا حال
خفیہ پولس سے پوچھ رہا ہے کمر کا حال