اُلو کا پٹھا
قاسم ایک دن صبح سو کر اٹھتا ہے تو اس کے اندر یہ شدید خواہش جاگتی ہے کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہے۔ بہت سے طریقے اور مواقع سوچنے کے بعد بھی وہ کسی کو الو کا پٹھا نہیں کہہ پاتا اور پھر دفتر کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ راستے میں ایک لڑکی کی ساڑی سائکل کے پہیے میں پھنس جاتی ہے، جسے وہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن لڑکی کو ناگوار گزرتا ہے اور وہ اسے ’’الو کا پٹھا‘‘ کہہ کر چلی چاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
ترقی پسند
طنز و مزاح کے پیرایہ میں لکھا گیا یہ افسانہ ترقی پسند افسانہ نگاروں پر بھی چوٹ کرتا ہے۔ جوگندر سنگھ ایک ترقی پسند افسانہ نگار ہے جس کے یہاں ہریندر سنگھ آکر پڑاؤ ڈال دیتا ہے اور مسلسل اپنے افسانے سنا کر بو رکرتا رہتا ہے۔ ایک دن اچانک جوگندر سنگھ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی حق تلفی کر رہا ہے۔ اسی خیال کے تحت وہ ہریندر سے باہر جانے کا بہانہ کرکے بیوی سے رات بارہ بجے آنے کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن جب رات میں جوگندر اپنے گھر کے دروازہ پر دستک دیتا ہے تو اس کی بیوی کے بجائے ہریندر دروزہ کھولتا ہے اور کہتا ہے جلدی آ گئے، آو، ابھی ایک افسانہ مکمل کیا ہے، اسے سنو۔
سعادت حسن منٹو
خودکشی کا اقدام
افسانہ ملک کی معاشی اور قانونی صورتحال کی ابتری پر مبنی ہے۔ اقبال فاقہ کشی اور غربت سے تنگ آکر خود کشی کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے قید با مشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔ عدالت میں وہ طنزیہ انداز میں دریافت کرتا ہے کہ صرف اتنی سزا؟ مجھے تو زندگی سے نجات چاہیے۔ اس ملک نے غربت ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں نکالا تو تعذیرات میں میرے لیے کیا قانون ہوگا؟
سعادت حسن منٹو
دیوالی کے دیے
اس کہانی میں انسان کی امیدیں اور آرزویں پوری نہ ہونے کا بیان ہے۔ چھت کی منڈیر پر دیے جل رہے ہیں۔ ایک چھوٹی بچی، ایک جوان، ایک کمہار، ایک مزدور اور ایک فوجی یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔ سب اپنی اپنی فکروں میں غلطاں ہیں، دیے سب کو چپ چاپ دیکھتے ہیں اور پھر ایک ایک کرکے بجھ جاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
رشوت
’’ایک نوجوان کی زندگی کے تلخ تجربوں کی کہانی ہے۔ نوجوان نے جب بی۔ اے پاس کیا تو اس کے باپ کا ارادہ تھا کہ وہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجیں گے۔ اس درمیان اس کے باپ کو جوا کھیلنے کی عادت پڑ گئی اور وہ اپنا سب کچھ جوئے میں ہار کر مر گیا۔ نوجوان خالی ہاتھ جد و جہد کرنے لگا۔ وہ جہاں بھی نوکری کے لیے جاتا، سب جگہ اس سے رشوت مانگی جاتی۔ آخر میں پریشان ہو کر اس نے اللہ کو ایک خط لکھا اور اس خط کے ساتھ رشوت کے طور پر وہ تیس روپیے بھی ڈال دیے، جو اس نے مزدوری کر کے کمائے تھے۔ اس کا یہ خط ایک اخبار کے ایڈیٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اسے دو سو روپیے ماہوار کی تنخواہ پر نوکری کے لیے بلاوا آ جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
نیا سال
یہ زندگی سے جدوجہد کرتے ایک اخبار کے ایڈٹر کی کہانی ہے۔ حالانکہ اسے اس اخبار سے دولت مل رہی تھی اور نہ ہی شہرت۔ پھر بھی وہ اپنے کام سے خوش تھا۔ اس کے مخالف اس کے خلاف کیا کہتے ہیں؟ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ یا پھر دنیا اس کی راہ میں کتنی مشکلیں پیدا کر رہی ہے، اس سے اسے کوئی مطلب نہیں تھا۔ اسے تو بس مطلب ہے اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے سے۔ یہی کام وہ گزشتہ چار سال سے کرتا آ رہا تھا اور اب جب نئے سال کا آغاز ہونے والا ہے تو وہ اس سے بھی مقابلے کے لیے تیار ہے۔