یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
یہ کہانی مغربی جرمنی میں جا رہی ایک ٹرین سے شروع ہوتی ہے۔ ٹرین میں پانچ لوگ سفر کر رہے ہیں جن میں ایک پروفیسر اور اس کی بیٹی، ایک کناڈا کی لڑکی اور ایک ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی ہیں۔ شروع میں سب خاموش بیٹھے رہتے ہیں پھر رفتہ رفتہ آپس میں بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔ دوران گفتگو کینیڈین لڑکی ایرانی پروفیسر سے متاثر ہوتی ہے اور اسے پسند کرنے لگتی ہے۔ ٹرین کا سفر ختم ہونے کے بعد بھی وہ آپس میں ملتے رہتے ہیں اور ایک ایسے رشتے میں بندھ جاتے ہیں جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ چاروں طرف جنگ کا ماحول ہے، ایران میں تحریکیں زوروں پر ہیں کہ ایرپورٹ پر دھماکہ ہوتا ہے۔ اس بم دھماکے میں ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی مارے جاتے ہیں۔ اس حادثے کا کینیڈین لڑکی کے ذہن پر جو اثر پڑتا ہے، کہانی کا انجام ہے۔
قرۃالعین حیدر
خاندانی کرسی
ایک ایسے شخص کی کہانی جو انیس برس بعد اپنے گھر لوٹتا ہے۔ اتنے عرصے میں اس کا گاؤں ایک قصبہ میں بدل گیا ہے اور جو لوگ اس کے کھیتوں میں کام کرتے تھے اب انکی بھی زندگی بدل گئی ہے اور وہ خوشحال ہیں۔ حویلی میں گھومتا ہوا وہ اپنے پرانے کمرے میں گیا تو وہاں اسے ایک کرسی ملی جو کسی زمانے میں خاندان کی شان ہوا کرتی تھی،اب کباڑ کے ڈھیر میں پڑی تھی۔ کرسی کی یہ حالت اور خاندان کی پرانی یادیں اسے اس حال میں لے آتی ہیں کہ وہ کرسی سے لپٹا ہوا اپنی آخری سانسیں لیتا ہے۔
مرزا ادیب
فاصلے
ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں تنہا رہتے ہوئے بور ہو گیا ہے اور سکون کی تلاش میں ہے۔ ایک دن وہ گھر سے باہر نکلا تو گلی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر اور سامان بیچتے دوکاندار سے بات کرنا اسے اچھا لگا۔ اس طرح وہ وہاں روز آنے لگا اور اپنا وقت گزارنے لگا۔ ایک دن انگلینڈ سے واپس آیا بیٹا اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ کافی وقت کے بعد جب وہ واپس آتا ہے اور پھر سے اپنی گلی میں نکلتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے لیے لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آگئی ہے، شاید وہ ان کے لیے ایک اجنبی بن چکا تھا۔