شیر آیا شیر آیا دوڑنا
بچپن میں اسکول میں پڑھائی جانی والی جھوٹے گڑریے کی کہانی کو ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں گڑریے کے شیر کے نہ آنے کے باوجود چلاّنے کے مقصد کو بتایا گیا ہے۔ گڑریا شیر نہ ہونے کے باوجود چلاتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ شیر کے آنے سے پہلے ہی خود کو تیار رکھیں۔ اگر اچانک شیر آ گیا تو کسی کو بھی بچنے کا موقع نہیں ملے گا۔
سعادت حسن منٹو
شاداں
امیر گھروں میں کام کرنے والی غریب، مظلوم اور کمسن لڑکیوں کی اس گھر کے مردوں کے ذریعہ ہونے والی جنسی استحصال کی کہانی ہے۔ خان بہادر محمد اسلم خان بہت مطمئن اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے تین بچے تھے، جو اسکول کے بعد سارا دن گھر میں شور غل مچاتے رہتے تھے۔ انہیں دنوں ایک عیسائی لڑکی شاداں ان کے گھر میں کام کرنے آنے لگی۔ وہ بھی بچی تھی، لیکن اچانک ہی اس میں جوانی کے رنگ ڈھنگ دکھنے لگے۔ ایک روز خان صاحب کو شاداں کے زنا کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ شاداں تو اسی روز مر گئی تھی اور خان صاحب بھی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری ہو گئے تھے۔
سعادت حسن منٹو
شیدا
’’یہ امرتسر کے ایک مشہور غنڈے کی اپنی غیرت کے لیے ایک پولیس والے کا قتل کر دینے کی کہانی ہے۔ شیدا کا اصول تھا کہ جب بھی لڑو دشمن کے علاقے میں جاکر لڑو۔ وہ لڑائی بھی اس نے پٹرنگوں کے محلے میں جاکر کی تھی، جس کے لیے اسے دو سال کی سزا ہوئی تھی۔ اس لڑائی میں پٹرنگوں کی ایک لڑکی اس پر فدا ہو گئی تھی۔ جیل سے چھوٹنے پر جب وہ اس سے شادی کی تیاری کر رہا تھا تو ایک پولس والے نے اس لڑکی کا ریپ کرکے اس کا خون کر دیا۔ بدلے میں شیدا نے اس پولیس والے کا سر کلہاڑی سے کاٹ کر دھڑ سے الگ کر دیا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
استاد شمو خاں
یہ کہانی استاد شمو خاں کی ہے۔ کسی زمانے میں وہ پہلوان ہوا کرتا تھا۔ پہلوانی سے اس نے کافی شہرت پائی اور اب زندگی کے باقی دن کبوتر بازی کا شوق پورا کرکے گزار رہا ہے۔ پاس ہی رہنے والے شیخ جی بھی کبوتر بازی کا شوق رکھتے تھے۔ کبوتر بازی کے مشترکہ شوق میں دونوں کے درمیان کس کس طرح کے داوں پینچ ہوتے ہیں، جاننے کے لیے یہ کہانی پڑھیں۔