نیند نہیں آتی
’’ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو غریبی، بے بسی، بھٹکاؤ اور نیم خوابیدگی کے شعور کا شکار ہے۔ وہ اپنی معاشی اور معاشرتی حالت سدھارنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتا۔ رات میں چارپائی پر لیٹے ہوئے مچھروں کی بھنبھناہٹ اور کتوں کے بھونکنے کی آواز سنتا ہوا وہ اپنی بیتی زندگی کے کئی واقعات یاد کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس نے اس زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کتنی جد و جہد کی ہے۔‘‘
سجاد ظہیر
دلی کی سیر
یہ فریدآباد سے دہلی کی سیر کو آئی ایک عورت کے ساتھ ہوے واقعات کا قصہ ہے۔ ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ دہلی کی سیر کے لیے آتی ہے۔ دہلی میں اس کے ساتھ جوکچھ واقع ہوتا ہے واپس جاکر انہیں وہ اپنی سہیلیوں کو سناتی ہے۔ اس کے ساتھ ہوئے سبھی واقعات اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ اس کی سہیلیاں جب بھی اس کے گھر جمع ہوتی ہیں، ہر بار اس سے دہلی کی سیر کا قصہ سنانے کے لیے کہتی ہیں۔
رشید جہاں
جنت کی بشارت
’’کہانی ایک مولانا کے ذریعے مذہبی روایات اور مولویوں کے ڈھونگ اور فریب کے اخلاق پر تلخ حملہ کرتی ہے۔ رمضان کے مہینے میں خدا کی عبادت میں ڈوبے مولانا صبح کی نماز پڑھتے ہوئے ایک خواب دیکھتے ہیں۔ خواب میں انہیں ایک عالیشان کمرا دکھائی دیتا ہے اور اس کمرے کی ہر کھلی کھڑکی میں ایک حور نظر آتی ہے۔‘‘
سجاد ظہیر
جواں مردی
یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جو خود کو اپنے نو زائیدہ کی موت کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ اس کی جب شادی ہوئی تھی تو اسے اپنی بیوی پسند نہیں آئی تھی۔ وہ اسے چھوڑکر ودیش چلا گیا تھا۔ وہاں ایک عرصہ تک رہنے کے بعد جب اسے بیوی کی یاد ستانے لگی تو وہ واپس چلا آیا۔ ان دنوں وہ بیمار تھی اور اس کی بیماری میں ہی اس نے اپنی جوانمردی کو ثابت کرنے کے لیے اس کے ساتھ سونے کا فیصلہ کیا۔
محمود الظفر
دلاری
’’یہ ایک غیر مساوی معاشعرتی نظام میں خواتین کے جنسی استحصال کی ایک دردناک کہانی ہے۔ دلاری بچپن سے ہی اس گھر میں پلی بڑھی تھی۔ اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔ چھٹیوں میں گھر آئے مالکن کے بیٹے کے ساتھ اس کی آنکھ لڑ جاتی ہے اور وہ محبت کے نام پر اس کا استحصال کرتا ہے۔ وہ اس سے شادی کا وعدہ تو کرتا ہے مگر شادی ماں باپ کی پسند کی ہوئی لڑکی سے کر لیتا ہے۔ اس شادی کے بعد ہی دلاری گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔‘‘
سجاد ظہیر
پھر یہ ہنگامہ۔۔۔
یہ کہانی کئی آزاد افسانوں کا مجموعہ ہے، جن کے ذریعے مذہبی روایتوں اور اس کے تضادات، رئیسوں کی رئیسانہ حرکتوں، متوسط طبقہ کے مسلم خاندانوں کے تضاد سے بھرپور رشتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ کہانی سماج اور اس میں موجود مذہبی جنونیت پر شدید وار کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ جب سب کچھ پہلے سے طے ہے تو پھر یہ ہنگامہ کیوں برپا ہے؟