آرٹسٹ لوگ
اس افسانہ میں آرٹسٹ کی زندگی کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ اور محمود اپنے فن کی بقا کے لئے مختلف طرح کے جتن کرتے ہیں لیکن باذوق لوگوں کی قلت کی وجہ سے فن کی آبیاری مشکل امر محسوس ہونے لگتا ہے۔ حالات سے پریشان ہو کر معاشی آسودگی کے لیے وہ ایک فیکٹری میں کام کرنے لگتے ہیں۔ لیکن دونوں کو یہ کام آرٹسٹ کے رتبہ کے شایان شان محسوس نہیں ہوتا اسی لیے دونوں ایک دوسرے سے اپنی اس مجبوری اور کام کو چھپاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
عورت ذات
’’ایک ایسے شخص کی کہانی جس کی گھوڑوں کی ریس کے دوران ایک مہاراجہ سے دوستی ہو جاتی ہے۔ مہاراجہ ایک دن اسے اپنے یہاں پروجیکٹر پر کچھ شہوت انگیز فلمیں دکھاتا ہے۔ ان فلموں کو مانگ کر وہ شخص اپنے گھر لے جاتا ہے اور اپنی بیوی کو دکھاتا ہے۔ اس سے اس کی بیوی ناراض ہو جاتی ہے۔ بیوی کی ناراضگی سے وہ بہت شرمندہ ہوتا ہے۔ اگلے دن جب وہ دوپہر کے کھانے کے بعد آفس سے گھر آتا ہے تواسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیوی اپنی بہنوں اور سہیلیوں کے ساتھ پروجیکٹر پر وہی فلمیں دیکھ رہی ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
بیگو
’’کشمیر کی سیر کے لیے گئے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جسے وہاں ایک مقامی لڑکی بیگو سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ بیگو پر پوری طرح مر مٹتا ہے کہ تبھی اس نوجوان کا دوست بیگو کے کردار کے بارے میں کئی طرح کی باتیں اسے بتاتا ہے۔ ویسی ہی باتیں وہ دوسرے لوگوں سے بھی سنتا ہے۔ یہ سب باتیں سننے کے بعد اسے بیگو سے نفرت ہو جاتی ہے، مگر بیگو اس کی جدائی میں اپنی جان دے دیتی ہے۔ بیگو کی موت کے بعد وہ نوجوان بھی عشق کی لگی آگ میں جل کر مر جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
چودھویں کا چاند
فطری مناظر کے پرستار ولسن کی کہانی ہے جو ایک بینک منیجر تھا۔ ولسن ایک مرتبہ جزیرے پر آیا تو چودھویں کے چاند نے اسے اس قدر مسحور و مبہوت کیا کہ اس نے ساری زندگی وہیں بسر کرنے کا ارادہ کر لیا اور بینک کی ملازمت چھوڑ کر گھر بیچ کر مستقل وہیں رہنے لگا۔ لیکن جب قرض خواہوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا تو اس نے ایک دن اپنے جھونپڑے میں آگ لگا لی، جس کی وجہ سے اس کا ذہن ماؤف ہو گیا اور کچھ دن بعد چودہویں کا چاند دیکھ کر ہی وہ مر گیا۔
سعادت حسن منٹو
دس روپے
ایک ایسی کم سن لڑکی کی کہانی ہے جو اپنے امڈتے ہوئے شباب سے بے خبر تھی۔ اس کی ماں اس سے پیشہ کراتی تھی اور وہ سمجھتی تھی کہ ہر لڑکی کو یہی کرنا ہوتا ہے۔ اسے دنیا دیکھنے اور کھلی فضاؤں میں اڑنے کا بے حد شوق تھا۔ ایک دن جب وہ تین نوجوانوں کے ساتھ موٹر میں جاتی ہے اور اپنی مرضی کے مطابق خوب تفریح کر لیتی ہے تو اس کا دل خوشی سے اس قدر سرشار ہوتا ہے کہ وہ ان کے دیے ہوئے دس روپے لوٹا دیتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ روپے میں کس لیے لوں؟
سعادت حسن منٹو
بلونت سنگھ مجیٹھیا
یہ ایک رومانی کہانی ہے۔ شاہ صاحب کابل میں ایک بڑے تاجر تھے، وہ ایک لڑکی پر فریفتہ ہو گیے، اپنے دوست بلونت سنگھ مجیٹھیا کے مشورے سے منتر پڑھے ہوئے پھول سونگھا کر اسے رام کیا لیکن حجلۂ عروسی میں داخل ہوتے ہی وہ مر گئی اور اس کے ہاتھ میں مختلف رنگ کے وہی سات پھول تھے جنہیں شاہ صاحب نے منتر پڑھ کر سونگھایا تھا۔
سعادت حسن منٹو
ستاروں سے آگے
کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ طلبا کے ایک گروپ کی کہانی جو رات کی تاریکی میں گاؤں کے لیے سفر کر رہا ہوتا ہے۔ سبھی ایک بیل گاڑی میں سوار ہیں اور گروپ کا ایک ساتھی ماہیا گا رہا ہے دوسرے اسے غور سے سن رہے ہیں۔ بیچ بیچ میں کوئی ٹوک دیتا ہے اور تیسرا اس کا جواب دینے لگتا ہے۔ دیا گیا جواب فقط ایک جواب نہیں ہے بلکہ انکے احساسات بھی اس میں شامل ہیں۔
قرۃالعین حیدر
سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
ایک ایسے شخص کی کہانی جو محبت تو کرتا ہے لیکن اس کے اظہار کی ہمت نہیں کر پاتا۔ پڑوسی ہونے کے باوجود وہ اس گھر کے ایک فرد کی طرح رہتا تھا، اس کے والد کی پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہونے کے باوجود وہ ان لوگوں سے ملنے آتا رہا۔ گھر والے سوچتے رہے کہ وہ ان کی چھوٹی بیٹی سے محبت کرتا ہے مگر وہ تو بڑی بیٹی سے محبت کرتا تھا، اس کی خواہش تھی کہ وہ اسے ایک بار ڈارلنگ کہہ سکے۔
قرۃالعین حیدر
پھاہا
عنفوان شباب میں ہونے والی جسمانی تبدیلیوں سے بے خبر ایک لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ آم کھانے سے گوپال کے پھوڑا نکل آتا ہے تو وہ اپنے والدین سے چھپ کر اپنی بہن نرملا کی مدد سے پھوڑے پر پھاہا رکھتا ہے۔ نرملا اس پورے عمل کو بہت غور اور دلچسپی سے دیکھتی ہے اور گوپال کے جانے کے بعد اپنے سینے پر پھاہا رکھتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
آدھے چہرے
کہانی ایک ایسے نوجوان کے گرد گھومتی ہے جو مس آئیڈینٹٹی کا شکار ہے۔ ایک دن وہ ایک ڈاکٹر کے پاس آتا ہے اور اسے اپنی حالت بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ جب وہ محلے میں ہوتا ہے تو حمید ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کالج میں جاتا ہے تو اختر ہو جاتا ہے۔ اپنی یہ کیفیت اسے کبھی پتہ نہ چلتی اگر بیتے دنوں ایک حادثہ نہ ہوتا۔ تبھی سے اس کی سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کون ہے؟ وہ ڈاکٹر سے سوال کرتا ہے کہ وہ اسے بتائے کہ وہ حقیقت میں کیا ہے؟
ممتاز مفتی
شگوفہ
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو جوانی میں سیاحی کے شوق میں امرناتھ کی یاترا پر نکل پڑا تھا۔ وہاں راستہ بھٹک جانے کی وجہ سے وہ ایک کشمیری گاؤں میں جا پہنچا۔ اس گاؤں میں اس نے اس خوبصورت لڑکی کو دیکھا جس کا نام شگوفہ تھا۔ شگوفہ کو گاؤں والے چڑیل سمجھتے تھے اور اس سے ڈرتے تھے۔ گاؤں والوں کے منع کرنے کے باوجود وہ شگوفہ کے پاس گیا، کیونکہ وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ لیکن اس کی محبت کا جواب دینے سے قبل شگوفہ نے اسے اپنی وہ داستان سنائی، جس کے اختتام میں اسے اپنی جان دینی پڑی۔