پیشاب گھر آگے ہے
ایک باقاعدہ بنے ہوئے شہر کی شاہراہ، ایک اجنبی، پیشاب کی اذیت ناک شدت اور پیشاب گھر کی تلاش۔
جب سب کچھ بنتا ہے تو پیشاب گھر نہیں بنتے۔
جب پیشاب گھر بنتے ہیں تو لوگ وہاں پاخانہ کر دیتے ہیں۔
پتلون کی فلائی پر بار بار ہاتھ جاتا ہے۔ ایک کشادہ سی صاف ستھری دیوار پر لکھا ہے یہاں پیشاب کرنا منع ہے، وہاں دیوار سے لگ کر کہ سایہ ہے لاتعداد خوانچے والے بیٹھے ہیں۔ سامنے سیدھی بھاگتی ہوئی شاہراہ ہے۔ دائیں بائیں دکانیں ہیں۔ مال سے لدی ہوئی۔ چوراہے اور فوارے ہیں۔ چاٹ کی دکانیں، آئس کریم، بھنے ہوئے چنے، ٹی اسٹال، چوڑے چوڑے فٹ پاتھ، کہیں کہیں، کنارے کنارے لوہے کی خوبصورت ریلنگز اور آدمیوں کی بھیڑ۔ صاف ستھرے، تیز تیز چلتے اپنے آپ سے باتیں کرتے چھوٹے بڑے آدمی۔
پیشاب کے مقام پر جلن ہو رہی ہے۔
نسوں کو پوری قوت سے اوپر کی طرف کھینچنے کا عمل نہ جانے کب سے جاری ہے۔
یہ شاہراہ کسی ویران علاقے سے کیوں نہیں مل جاتی۔ یا پھر کوئی زیر تعمیر عمارت ہی فٹ پاتھ کے کنارے مل جائے جہاں آس پاس جھاڑیاں ہوں۔
بہت دیر کا رکا ہوا پیشاب جب یک بارگی بہہ نکلتا ہے تو جسم کے ایک ایک عضو کا تناؤ جس مسرت انگیز لذت کے ساتھ کم ہوتا جاتا ہے وہ لطف و طمانیت قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے۔
ایک باقاعدہ بنے ہوئے شہر کی شاہراہ، ایک اجنبی، اذیت ناک شدت اور پیشاب گھر کی تلاش!!
زندگی میں سب سے مبارک عمل کیا ہے؟
Way out کی تلاش۔ ہمارے اندربہت کچھ گڑتا رہتا ہے، ستایا کرتا ہے او ربے چین کر دیتا ہے ہم کو۔ جی چاہتا ہے کہ ہم اسے نوچ کر نکال دیں۔
بائیں طرف ایک سنیما ہال ہے۔
بکنگ ونڈو پر سناٹا ہے۔ ہر سنیما ہال میں پیشاب گھر ہوتا ہے۔
یک بارگی سارے جسم میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
اور اس کے ساتھ پیشاب کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔ لیکن ہال کے پھاٹک پر تالا لگا ہے۔ شایدا بھی شو کا وقت نہیں ہوا۔
چوڑی چکلی سڑک اپنے پورے طمطراق سے جاری ہے۔
فٹ پاتھ کے دونوں طرف سونے چاندی کی دکانیں ہیں۔ سوال یہ کہ یہ سارے کے سارے لوگ کیا دن میں ایک بار بھی پیشاب نہیں کرتے؟
دکانو ں پر کپڑا خریدتے ہوئے لوگ Coke پی رہے ہیں۔
ایک درخت کے نیچے گنے کا رس کچلا جا رہا ہے۔
ایک طرف ٹھنڈے پانی کا ٹھیلہ کھڑا ہے۔ جگہ جگہ چائے کی بھٹیاں ہیں۔
پینے کا اتنا سامان لوگوں کے پیٹوں میں جا رہا ہے اور لوگ بغیر پیشاب کیے گھوم رہے ہیں۔
کیا وہ دنیا کا واحد فرد ہے جو پیشاب کی شدت میں مبتلا ہے۔
شاید ایسا نہیں ہے۔
بات صرف اتنی ہے کہ وہ اجنبی ہے۔ یہ سارے کے سارے دکاندار،سڑک کی یہ بھیڑ، فٹ پاتھ کے یہ تماشائی سب ہی ان چور جگہو ں کو جانتے ہوں گے جہاں پیشاب کیا جا سکتا ہے۔
چہرہ تکلیف سے بار بار رنگ بدلتا ہے۔ آدمی میں برداشت کی قوت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
جب پیشاب اپنی پوری قوت سے لگا ہو، نہ کھڑے رہنے میں آرام ملتا ہو اور نہ چلتے رہنے میں جب بار بار آنکھیں آس پاس کہیں فلائی کے بٹن کھول کر کھڑے ہو جانے کا سوال کرتی ہوں تو زندگی کا نقطہ نظر بدل جاتا ہے۔
باہر کی خوبصورت ترین شے ’’تیز سے تیز دھماکہ‘‘ ہیبت ناک سے ہیبت ناک واقعہ، خالی خالی سا گزر جاتا ہے۔
یہ جلن مارے ڈال رہی ہے۔
نسیں جیسے اب ٹوٹ جائیں گی۔ کہیں کوئی بوند باہر نہ آ جائے۔ اجنبی ہونا تو ایک بہانہ ہے۔ آدمی کہیں اجنبی نہیں ہوتا۔ صرف Way out کی بات ہے۔ کسی سے بھی پوچھا جا سکتا ہے۔
’’اے چھوکرے! یہاں پیشاب کرنے کی کوئی جگہ ہے آس پاس؟‘‘
’’آگے ہے آگے۔‘‘ جواب ملتا ہے۔
پیشاب کی اذیت ناک شدت او رپیشاب گھر کی تلاش۔
’’کیوں سیٹھ جی؟ یہاں پیشاب کرنے کی کوئی جگہ ہے۔‘‘
’’آس پاس؟‘‘
’’آگے ہے آگے۔۔۔‘‘
نیچے انڈر ویر بھی نہیں ہے۔ لوگ انڈرویر پہن کر عقلمندی کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے نیچے کے کپڑے کبھی کبھی اوپر کے کپڑوں سے مہنگے ہوتے ہیں۔
’’کیوں بابو جی؟ یہاں پیشاب کرنے کے لئے کوئی جگہ ہے آس پاس؟‘‘
’’آگےہے آگے۔۔۔‘‘
ہونٹ دانتوں کے نیچے دبائے دبائے، دردکو سہتے سہتے۔ بار بار ابھرنے والی بے معنی جھنجھلاہٹ کو جھٹکتے کتنی دیر ہو گئی اور کتنا سفر کٹ گیا۔ نہ راستہ کہیں مڑانہ کوئی نالہ ملا او رنہ کسی دکان کا پچھواڑا۔ لکڑی کی بند دکانوں کے پیچھے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کھڑے ہو جاؤ۔
’’کیوں بھیا پوسٹ مین ادھر کہیں پیشاب کرنے کی۔۔۔‘‘
’’آگے ہے آگے۔۔۔‘‘
فٹ پاتھ پر پرانی کتابیں لگی ہیں۔ کبھی کبھی پرانی کتابوں میں نایاب کتابیں بھی مل جاتی ہیں۔ لیکن ٹھہرنے کا یارا نہیں۔ ہر بات کا وقت ہوتا ہے، اتنی مہلت کہاں؟
’’کیوں مہاشے جی۔۔۔ ادھر کہیں پیشاب۔۔۔‘‘
’’آگے ہے آگے۔۔۔‘‘
یہ اسمبلی بھون ہے۔ ٹھیک اس کے سامنے خیمے لگے ہیں جہاں بھوک ہڑتالی پڑے ہیں۔ سیاست زندگی کا ایک حصہ ہے۔ ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنا ہی ہوں گی۔
’’دادا۔۔۔ یہاں پیشاب کے لیے۔۔۔‘‘
’’آگے ہے آگے۔۔۔‘‘
نہرو کا سب سے بڑا حریف ہندوستان کا پروگریسوموومنٹ تھا۔ اس لیے انہوں نے سوشلسٹ ہندوستان کا چکر چلاکر سب کو بہکا دیا۔ ربط و تسلسل جب نہ ہو اور تبدیلی کی جلدی ہو تو سماجی ادارے Transfer تو کیے جا سکتے ہیں Transformنہیں کیے جا سکتے۔ سماج آگے ہو گیا فرد پیچھے۔ علاء الدین کا چراغ تو محض ایک کہانی ہے۔
’’بھیا یہاں پیشاب۔۔۔‘‘
’’آگے ہے آگے۔‘‘
اردو کے ساتھ ۲۶ سال بڑی بےانصافی ہوئی۔
علی سردار جعفری کا چیک دیر میں کیش ہوا۔
کتنی دیر لائن میں ابھی اور کھڑا رہنا پڑے گا بھئی۔
’’پیشاب۔۔۔‘‘
’’آگے ہے آگے۔‘‘
آپا جان۔ میں ودیا کی کسم کھاکر کہتی ہوں کہ میں ستے بول رہی ہوں سارے جملے میں صرف آپا جان بچا ہے۔
’’لیکن وہ پیشاب گھر؟‘‘
’’آگے ہے آگے۔‘‘
جہاں ہو وہیں کھڑے رہو۔ جسم کے تناؤ اور اندر کے درد کو سہتے رہو۔ ایسی حالت میں چلنے سے مثانہ اور بھی Irritate ہوتا ہے۔ سفر بند کر دو۔ مٹھیاں بھنچی ہیں۔ بار بار رگ پٹھے اوپر کی طرف سکڑ رہے ہیں۔ کتنا درد ہو رہا ہے۔جب پیشاب کی شدت ناقابل برداشت ہو تو اس کے بارے میں سوچتے نہیں رہنا چاہئے، نہیں تو Irritation اور بڑھتا ہے، لیکن ہر بات کی حد ہوتی ہے۔ چٹکی سے کھال کو بار بار مسلنا، کوئی سیدھا سوال کرے تو الٹا جواب دینا، پیشاب کی شدت ذہن کو دیوالیہ او رروح کو مفلوج کر دیتی ہے۔
’’یہاں پیشاب گھر کہاں ہے؟‘‘
’’آگے ہے آگے۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ یہاں پر اسی جگہ پیشاب گھر کہاں ہے؟‘‘
’’آگے ہے آگے۔‘‘
’’نہیں ابھی ا بھی، ٹھیک اسی مقام پر پیشاب گھر کہاں ہے؟‘‘
’’آگے ہے آگے۔‘‘
’’نہیں نہیں میری فلائی کے بٹنوں سے بالکل جڑا ہوا پیشاب گھر کہاں ہے؟‘‘
’’آگے ہے آگے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.