ہڈیاں اور پھول
کہانی کی کہانی
حاصل کی ناقدری اور لاحاصل کے لئے گلہ شکوہ کی انسانی فطرت کو اس کہانی میں اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں میاں بیوی کے درمیان شک و شبہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تلخی کا بیان ہے۔ ملم ایک چڑچڑا موچی ہے، گوری اس کی خوبصورت بیوی ہے، ملم کے ظلم و زیادتی سے عاجز آ کر گوری اپنے مائکے چلی جاتی ہے تو ملم کو اپنی زیادتیوں کا احساس ہوتا ہے اور وہ بے خودی کے عالم میں عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے لیکن جب وہی گوری واپس آتی ہے تو اسیشن پر بھیڑ کی وجہ سے ایک اجنبی سے ٹکرا جاتی ہے اور ملم غصے سے ہکلاتے ہوئے کہتا ہے, یہ نئے ڈھنگ سیکھ آئی ہو۔۔۔ پھر آ گئیں میری جان کو دکھ دینے۔
آٹھ، نو مہینے کے متواتر استعمال سے میرے بوٹوں کے تلے گھس گئے تھے اور ان میں دو ایک ایسے چھوٹے چھوٹے سوراخ پیدا ہو گئے جن میں سے کیچڑ داخل ہو کر انھیں گیلا کرنے کے علاوہ میری طبیعت کی عیاشی کے ثبوت، یعنی ریشمی جرابوں کو خراب کر دیا کرتی۔ ایک قسم کی لچلچاہٹ کی کیفیت میں میرے حواس خمسہ، اپنے پاؤں اور ان میں لتھڑے ہوئے کیچڑ میں سمٹ آتے۔ میرے دماغ میں کوئی نازک خیال جگہ ہی نہ پا سکتا گویا میرا دماغ ایک ناقابل گزر دلدل بن گیا ہو۔
اس وقت میں ڈرتا ڈرتا ملم کے پاس گیا۔ ملم ، جیسا کہ میں اسے بطور ایک پڑوسی کے جانتا تھا، ایک تنہائی پسند، غصیلا موچی تھا۔ وہ کئی بار اپنی بیوی کو پیٹا کرتا، شاید اسی لیے وہ بیمار ہو کر بچوں سمیت میکے بھاگ گئی تھی اور وہاں سے اس نے آج تک رسید کا خط بھی نہ بھیجا تھا۔۔۔ ملم کی ایک چھوٹی سی فیکٹری تھی، جس میں دو تین کاریگر، ایک مٹی کے تیل کے پرانے لیمپ کے نیچے پتنگوں اور پروانوں کی بارش کے باوجود بہت رات گئے تک بیٹھے کام کیا کرتے تھے اور مجھے اپنے چوبارے پر سے فیکٹری کے ٹوٹے ہوئے روشن دانوں میں سے نظر آیا کرتے۔
ملم کے علاوہ اس وسیع کالی باڑی میں کوئی اور موچی تھا بھی نہیں اور ملم بھی عام موچیوں کی طرح کالی باڑی میں سے گزرنے والے ہر راہ رو کے پاؤں کی طرف دیکھا کرتا اور بوٹ کی پالش کے حساب سے بوٹ والے کی مالی حیثیت کا اندازہ لگاتا۔ حالاں کہ وہ عام موچیوں کی طرح ناسمجھ آدمی تھا اور جہاں تک مجھے علم تھا، وہ کچھ لکھ پڑھ بھی لیتا تھا، اس کے باوجود اسے بھی بوٹ ہاتھ میں لیتے ہی بیس کے قریب مرمت طلب جگہوں کی طرف اشارہ کرنے کی عادت تھی۔۔۔ یہاں سلائی ہو گی۔ یہاں بھی سلائی ہو گی۔ اس جگہ اسٹار لگیں گے اور یہ سب کچھ ہو چکنے کے بعد ایڑیوں میں لپا لگے گا اور اس لپا کے لفظ سے مجھ بہت چڑ تھی۔
کالی باڑی کے بازار میں ڈونگر محلہ کے سب کتے اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کی دم سونگھ رہے تھے اور ملم اپنی آر کو ایک کھردرے، خام چمڑے میں دیے، نہایت دلچسپی سے ان آوارہ کتوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس سے ایک رازدارانہ لہجے میں صرف اس لیے کلام کیا کہ شاید وہ اس طرح مزدوری کم طلب کرے گا اور کیا معلوم جو وہ لپے کا ذکر ہی نہ کرے۔
’’ان کتوں کا آپس میں متعارف ہونے کا ڈھنگ بھی عجیب ہے۔‘‘ میں نے ضرورت سے زیادہ ہنستے ہوئے کہا۔ ملم نے بھی اپنے دانت دکھا دیے اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگا۔ گویا وہ کاروباری طور پر مجھ سے افضل ہے اور میری اس رمز کو اچھی طرح پہچانتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ صندوقچی میں سے کیلی، ستلی اور موم تلاش کرنے لگا۔ اس وقت دوپہر کا وقت تھا اور کاریگر روٹی کھانے کے لیے کہیں گئے ہوئے تھے۔ پرانے اور خام چمڑے کے سینکڑوں ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔ ملم نے آر اٹھائی، اسے پتھر پر رگڑ ا اور میرے بوٹوں کی سلائی شروع کر دی۔
ملم کی خاموشی کی وجہ سے میں سلسلۂ گفتگو دراز نہ کرسکا۔ کچھ دیر بعد اپنی روئی دار بنڈی کے سوتی بٹن بند کرتے ہوئے وہ خود ہی بولا۔
’’ان کتوں کو دیکھ کر مجھے اپنے گھر کی بات یاد آ گئی، بابوجی۔‘‘
میں تجسس کی وجہ سے خود ہی ملم کی بھاگی ہوئی بیوی کے متعلق گفتگو کرنا چاہتا تھا، لیکن جب ملم نے ہی وہ سلسلہ چھیڑا تو میں نے رسمی طور پر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کتوں سے؟۔۔۔ گھر کی بات؟‘‘
ملم کچھ جھینپ سا گیا اور دوسرے بوٹ کے لیے تلا تلاش کرنے کو صندوقچی پر ضرورت سے زیادہ جھک گیا۔ میں نے یہ ظاہر کیا، جیسے میں اس کی بات بہت دلچسپی سے نہیں سن رہا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس صورت میں وہ غصیلا موچی اپنے من کی بات کہہ دے گا۔ چنانچہ اس نے ستلی پر موم رگڑنے سے پہلے احتیاطا ایک بار میری طرف دیکھا اور مجھے اپنی دیا سیلائی اور سگرٹ میں نیم متوجہ پاکر بولا، ’’انھیں کتوں کو دیکھ کر گوری نے ایسی بات کی جو ان دنوں مجھے بہت ستاتی ہے۔ میں اس سے عموما جلا کٹا ہی رہتا تھا۔ اسے ذرا ذرا سی بات پر پیٹا کرتا اور کہتا، ہڈیاں توڑ دوں گا تیری۔ حالاں کہ وہ ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی تو رہ گئی تھی اور اس کے منھ پر سرسوں کی سی زردی چھائی ہوئی تھی۔ اس دن بھی ڈونگر محلہ کے سب کتے کالی باڑی کے اس بازار میں چلے آئے تھے اور ایک بڑا سا کتا ایک کھجلی ماری کتیا کے سامنے اپنی دم ہلا رہا تھا، جیسے بڑا پیار رجتا رہا ہو اور گوری تو جانے کاگ بھاشا ہی سمجھتی تھی۔ وہ یہاں، اسی جگہ، اسی دہلیز، اسی دروازے کا سہارا لیے کھڑی مسکراتی رہی۔ پھر سامنے کتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی، ’’دیکھو تو وہ کیسے دم ہلا رہا ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک تنومند کتا بھی کتیا کے بدصورت ہو جانے پر اس کی محبت کا دم بھرے جاتا ہے، تو کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرسکتے؟ تم جو ایک شرابی اور بدصورت آدمی ہو۔ روگ تو جی کا ساتھ لگا ہی ہوا ہے اور پہلے میں کتنی تندرست ہوا کرتی تھی۔
اس کے بعد وہ کتا غرانے لگا اور اپنے اگلے پنجوں سے مٹی کرید کر پیچھے کی جانب پھینکنے لگا۔ شاید وہ اپنے رقیبوں کو مقابلے کے لیے اکساتا تھا۔ لیکن میں نے گوری سے کہا، ’’دیکھو تو وہ کتنی نفرت کا اظہار کر رہا ہے۔۔۔ اسے بھی یہ کھجلی ماری، مریل مادہ پسند نہیں۔‘‘
اس کے بعد وہ چپ ہو گئی۔ پھر جیسے کہ اس کی عادت تھی، سامنے چارپائی پر لیٹ گئی۔ اس چارپائی پر جس کے نیچے شراب کے خالی پوے اور ادھیے اور ان کے چھوٹے چھوٹے کترے ہوئے یا ادھ ٹوٹے کاگ پڑے ہیں۔ وہ ایک گیت گنگنانے لگی، جس میں ایک آدمی اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تو میرے لیے بلائے جان ہو گئی ہے۔ ایک دفعہ تو مر جا، مجھے رنڈوا ہونے کا شوق ہے۔ بابوجی، اس گیت کا مجھے ایک ایک لفظ یاد ہے۔ میں اس وقت گا کر نہیں سنا سکتا اور مجھے ابھی دوسرا تلا بھی لگانا ہے۔۔۔ اور ہاں شاید آپ کو بھی ڈاک خانے جانا ہو گا۔
میں نے بوٹ کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔ یہ خاموش طبیعت موچی آج کتنا باتونی ہو گیا ہے اور باتونی مزدور کام اچھا نہیں کرتے۔ پھر بھی میں نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’نہیں تو ملم۔۔۔ مجھے آج چھٹی ہے۔‘‘
ملم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ تو وہ آدمی کہتا ہے، تو اپنے میکے جا کر مرنا۔ پھر میں وہاں تیرے پھول چننے اور تیری موت پر افسوس کرنے کے لیے آؤں گا۔ وہ جواب دیتی ہے تم ہرگز ہرگز وہاں نہ آنا۔ میں مر گئی۔۔۔ ماں باپ کی چندن کی شہتیری بہ گئی۔ تمھارا کیا گیا اور اس کے بعد قضا کار وہ مر جاتی ہے۔ تو وہ اس کی سمادھ پر جا کر کہتا ہے۔۔۔
گوری، ایک دفعہ تو بول، دیکھ میں کتنی دھوپ میں، کتنی دور سے پاپیادہ تیری سمادھ پر آیا ہوں۔ جنڈ کی چتکبری چھاؤں موت کی آواز بن کر کہتی ہے، میں مرے ہوؤں سے انسان کا سا عارضی پیار نہیں کرتی۔ ملم کہتا ہے گوری ایک دفعہ تو جی لے۔ میں نے رنڈوے ہو کر بہت دکھ پایا ہے۔
اس کے بعد ملم نے میرے جوتوں کی سلائی چھوڑ دی۔ اپنی پگڑی سے پَلو اتارا اور اس سے اپنی آنکھیں پونچھنے لگا۔ جذبات کی رَو میں میری آنکھیں بھی نم ناک ہو گئی تھیں۔ اس وقت میں گیت کی افسانوی قیمت پر غور کر رہا تھا۔ ملم نے ایک ایسی بات بتائی جو انسانی فطرت پر ایک طنز تھی، وہ یہ کہ جب اس کی بیوی دلہن بن کر آئی تو ملم اس کی جوانی اور خوبصورتی کی بے طرح پاسبانی کرنے لگا۔ وہ اسے دروازے میں بھی کھڑی دیکھتا تو پیٹنے لگتا۔ یہ شک و شبہ کی عادت ابھی تک باقی تھی۔ اس وقت جب کہ گوری کا جسم توانا اور بھرا ہوا تھا، وہ اسے کہتا رہا۔ مجھے ایک پتلی، نازک عورت پسند ہے اور جب وہ دبلی ہو گئی تو کہنے لگا، مجھے تم سی مریل عورتوں سے سخت نفرت ہے۔ یہ ان ہی دنوں کی بات تھی۔ جب وہ کتوں والا واقعہ پیش آیا تھا۔
موچی کی ان سب باتوں سے میں نے یہی اخذ کیا کہ گوری آخر میکے جا کر مر گئی ہو گی۔ آخر ملم کے اتنا جذباتی ہو جانے کا کیا سبب؟ اس وقت مجھے وہ کہانی نامکمل سی دکھائی دی اور میں نے چونکتے ہوئے کہا۔ ’’پھر اس کے بعد کیا ہوا۔۔۔؟ تم نے بات تو ختم ہی نہیں کی۔‘‘
ملم بولا۔ اس تین چار ماہ کے عرصے میں ادھر سے کوئی خط نہیں آیا۔ وہ پہلے ہی بہت بیمار تھی، مرگئی ہو گی۔ سنتان پور یہاں سے تین چار سو کوس دور پورب دیس میں ہے۔ ایتا تھوک ڈاکخانہ لگتا ہے۔ میں وہاں کیسے پہنچ سکتا ہوں؟ میرے پاس کرایہ تک نہیں ہے۔ میرے غصیلے پن سے سبھی نالاں ہیں۔ کوئی مجھے مانگے کی ایک کوڑی بھی تو نہیں دے ہے۔ یہاں شراب کی کچھ بوتلیں پڑی ہیں اور بس۔ بابوجی میری خواہش ہے، میں ایک دفعہ وہاں افسوس کرنے کے لیے تو چلا جاؤں۔
لیکن ملم کا وہ خیال خام تھا۔ اس چمڑے کی طرح خام ،جو اس نے باتوں باتوں میں میرے بوٹ کے نیچے لگا دیا تھا اور جو ایک ہی مہینے میں گھس گیا۔
اس ایک مہینے کے اندر ملم ایک دن میرے پاس بھاگتا ہوا آیا۔ میں اس وقت چوبارے کے چھجے پر بیٹھا کاٹھ کے جنگلے پر ٹانگیں لٹکائے، پڑھنے کی بجائے کتاب کے ورق الٹ رہا تھا۔ ملم نے ایک ہاتھ اونچا کیا۔ ’’خط ہے۔۔۔ بابوجی ایک خط ہے۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔
میں نے جلدی سے چوبارے پر سے اتر کر خط پڑھا۔ سنتان پور سے آیا تھا۔ ملم کو ایک دو لفظوں کی سمجھ نہ آتی تھی۔ اس خط میں گوری کے متعلق لکھا تھا ۔ وہ محض چھاچھ کے استعمال سے تندرست ہو گئی تھی اور چترتی کے بعد واپس آ رہی تھی۔ گنیش چترتی کا چاند دیکھنے سے کوئی الزام لگ جاتا ہے۔ خود کرشن مہاراج، جنھوں نے کسی جانور کے کھرسے بنے ہوئے گڑھے میں بھرے ہوئے پانی کے اندر چاند کا عکس دیکھ لیا تھا، تہمت سے نہ بچے۔ اس چترتی کو گزار کر آنا ضروری تھا۔
خدا بیکار آدمی کو کام دے! میں ان دنوں اپنے چوبارے میں بیٹھا ملم کی فیکٹری کے ٹوٹے ہوئے روشن دانوں میں سے ملم کی سب حرکات دیکھا کرتا۔ جب اس کے ساتھ کام کرنے والے کاریگر چلے جاتے تو ملم ایک کھونٹی پر لٹکے ہوئے چٹلے کو اتار لیتا اور بڑے اجڈ اور وحشیانہ انداز سے اسے پیار کرنے لگتا۔ جیسے کوئی ننھی منی سی لڑکی گڑیا سے کھیل رہی ہو اور اپنے گرد و پیش سے بے خبر اس بے جان گڑیا سے ہزاروں بے معنی باتیں کر لیتی ہو۔ چٹلے کے علاوہ گوری کوئی میلا کچیلا دوپٹہ الگنی پر بھول گئی تھی۔ ملم اسے اتار کر اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچنے لگتا۔ بیوی اور اس کے بعد اس کا چٹلا اور پھر دوپٹہ اور چند پوے ملم کی محدود کائنات تھی۔ غصیلا اور لڑاکا ہونے کی وجہ سے کوئی اس کے پاس تک نہیں پھٹکتا تھا۔ گوری نے میکے جا کر اسے خوب ہی سزا دی اور اپنی بیماری کا کیا سہل علاج دریافت کر لیا۔ چھاچھ!
میں سوچنے لگا۔ اب ملم نے گوری کی قدر پہچانی ہو گی اور جب وہ چترتی کے بعد واپس آ جائے گی،تو وہ اس کی پوجا کیا کرے گا۔ اس وقت دھوپ کی معتدل حرارت میں مجھے کچھ نیند سی آنے لگی اور میں گوری کے گیت کے متعلق سوچتا ہوا اونگھنے لگا۔ اس وقت ایک خیال میرے دماغ میں آیا۔۔۔ جیتے جی انسان کی ہڈیاں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد پھول ہو جاتے ہیں۔
چترتی کے تیسرے روز ملم کی بیوی کو آنا تھا۔ اس دن ملم نے فیکٹری کے تمام مزدوروں کو چھٹی دے کر اپنے احمقانہ پن اور جلد بازی کا ثبوت دیا۔ وہ خود تمام دن گاڑی کے وقت کا انتظار کرتا رہا۔ اس دن ملم نے روز کے نشے میں سے آدھ سیر جلیبیوں کی گنجائش نکالی اور ایک آب خورے میں آدھ سیر دودھ لا کر چارپائی کے نیچے رکھ دیا اور بلی کے ڈر سے موری کے منھ پر چھوٹی چھوٹی اینٹیں لگا دیں۔
گذشتہ دنوں میں، ڈونگر محلہ کے چھوکروں اور کالی باڑی کے چیٹرجیوں، مکرجیوں اور باسوؤں کے لڑکوں کی گلیاں اور گیند ٹوٹے ہوئے روشن دان سے ملم کی فیکٹری جا پڑے تھے۔ چھوکروں نے ڈر سے انھیں مانگنے کی جرأت ہی نہ کی تھی۔ اکیلا ملم ہی اپنی گوری کے آنے کا منتظر نہیں تھا، وہ بچے بھی اس کا انتظار کر رہے تھے اور آج ملم کے گھر کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔ کب وہ آئے گی اور گلی دے گی۔ پڑوس کے نابینا استاد کی لڑکی ثریا کئی دفعہ پوچھ چکی تھی۔ ’’خالہ کب آئے گی؟‘‘ گوری کا پڑوس کی سب عورتوں سے میل جول تھا۔ وہ ثریا کا سر دیکھ دیا کرتی تھی جس میں پار سال لیکھیں پڑ گئی تھیں۔ فیکٹری کی پشت کی جانب جوالا پرشاد کا گھر تھا۔ وہ ایک بار ایک دن کے نوٹس پر تبدیل ہوا تھا، تو ملم کی بیوی نے ایک دن میں اس کے تین درجن کے قریب کپڑے دھو ڈالے تھے۔ یہ سب کے سب چترتی سے، تیسرے روز کا انتظار کر رہے تھے۔ جب وہ بار بار گوری کے متعلق پوچھتے تو ملم کو اپنی نا مقبولیت کے مقابلے پر گوری کی مقبولیت کا احساس ہوتا۔ کبھی کبھی وہ سوچتا، شاید یہ سب کچھ گوری کی خوب صورتی کی وجہ سے ہو گا۔ عورتیں بھی تو عورتوں پر عاشق ہو جاتی ہیں۔ اس کی سہیلیاں بن جاتی ہیں اور اس کے اردگرد منڈلاتی ہیں۔ پھر اس میں حسد و رقابت کا جذبہ پیدا ہو جاتا اور جب کبھی کوئی نوجوان پڑوسی اس کے گھر کے متعلق بات کرتا تو ملم نہایت شک و شبہ کی نگاہ سے اس کی طرف دیکھتا۔ اسی لیے میں نے گوری کے متعلق کسی قسم کی گفتگو کو یادداشت سے احتیاطا خارج کر دیا تھا۔ حالاں کہ مجھے بھی خواہش تھی کہ میرے چوبارے کے سامنے تھوڑی سی رونق ہو جائے اور اس سونی فیکٹری کے اندر سے ایک پتلی سی خوب صورت آواز آیا کرے۔ ایک دم سے پھول سا چہرہ دکھا دے اور چھپ جائے۔ گوری کے چلے جانے کے بعد مدت تک میں اس خلا کو محسوس کرتا رہا تھا۔ اس حالت میں یہ کمی ملم کو کیسے نہ اکھرتی ہو گی۔ ملم کو، جس کی گوری اپنی ملکیت تھی اور جسے اس پر بجا غرور تھا۔ اس کی مقبولیت کو دیکھ کر آج شاید پہلی دفعہ ملم میں چڑچڑا پن چھوڑ دینے اور ہر کسی سے میل ملاپ رکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے بچوں کی گلیاں اور گیند اٹھائے اور میدان میں کھیلتے ہوئے بچوں کو دے دیے۔ پھر اس نے ثریا کو بلایا۔ اس کے ساتھ دو تین اور چھوٹی چھوٹی لڑکیاں بھی تھیں۔ ملم نے جیب میں سے اکنی نکالی اور اسے ثریا کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے بزرگانہ شفقت سے بولا، ’’یہ خرچ کر لو، لیکن دیکھو بیٹا! تیل کی چیز مت کھانا۔‘‘
اس ’’تیل کی چیز مت کھانا‘‘ میں زندگی ، اچھی زندگی اور اس کی متعلقہ رجائیت سے ایک غیر مشروط صلح کا جذبہ ظاہر تھا۔ اس دن ملم اسٹیشن پر بیوی کو لینے گیا اور جب شام کو واپس آیا تو اس کے ساتھ کوئی عورت نہ تھی۔ وہ یوں ہی مغموم اداس واپس چلا آ رہا تھا۔ سنتان پور سے آنے والی گاڑی میں اس کی بیوی نہیں آئی تھی۔
اس دن ملم نے بچے ہوئے پیسوں سے شراب منگوائی اور خوب پی اور پگڑی کے کھلتے ہوئے پیچوں کو لپیٹ لپیٹ کر گندی گندی گالیاں دیتا رہا۔ شام کے قریب اس نے دوپٹے کو اتارا اور اسے آنکھوں سے لگا کر رونے لگا۔ پھر خودبخود اس کی ڈھارس سی بندھی، اس کے باوجود کہ وہ نشے میں تھا اور وہ دیوانے کتے کی طرح منھ میں کف پیدا کیے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر گھومنے لگا۔ کبھی کبھی چٹلے کو اتار کر چوم بھی لیتا ۔مجھے ان روشن دانوں میں سب کچھ نظر آ رہا تھا۔ میں نے اپنے کمرے کے ساتھ رہنے والے یٰسین کو بھی ملم کی حرکات دکھائیں۔
رات کے نو، ساڑھے نو بجے کا وقت تھا۔ میں اور یٰسین چھجے پر کھڑے ملم کو دیکھ رہے تھے۔ مٹی کے تیل کے لیمپ کی روشنی میں ملم نے ہمارے دیکھتے دیکھتے سب کپڑے اتار دیے اور ننگا کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے کہیں سے اپنی بیوی کی سرخ صدری برآمد کی اور اس چارپائی پر جس کے نیچے شراب کی خالی بوتلیں اور ڈھکنے پڑے رہتے تھے، وہ اکیلی صدری پہن کر سو گیا۔
اس کے بعد ایک اور خط آیا جس میں ملم کی بیوی نے اپنے نہ پہنچنے کی وجہ بتائی تھی۔ کہیں چترتی کے روز بھولے سے اس وہمی عورت کی نظر چاند پر پڑ گئی تھی اور اب وہ اپائے کروا رہی تھی۔خط میں اور باتوں کے علاوہ سنتان پور سے واپسی کی مقررہ تاریخ بھی لکھی تھی۔ اس دن حسب دستور ثریا اور دوسرے بچے پوچھنے کے لیے آئے اور ہم نے قصدا اس بات کا تذکرہ نہ کیا۔ اس دن مغل پور کے اسٹیشن پر سے کسی لیڈر کو گزرنا تھا، اس لیے میں اور یٰسین نے بھی اسٹیشن جانے کا ارادہ کر لیا۔
ملم نے اس دن بھی حسب معمول فیکٹری کے کاریگروں کو چھٹی دے دی اور آبخورے میں دودھ منگوا رکھا۔ کاریگر بھی ملم کے اس اضطراب اور اس کی بیوی کے آنے پر، نہ آنے کا تذکرہ کرتے ہوئے ہنستے تھے اور ایک دوسرے کو آنکھیں مارتے تھے۔
شام کے چھٹ پٹے میں ملم اسٹیشن کی طرف روانہ ہوا۔ ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ اسٹیشن قصبے سے پون میل کے قریب تھا اور ابھی اتنی روشنی تھی کہ راستے میں شاہ جی کے باغ کے سنگترے اور ان کا نارنجی رنگ دکھائی دے رہا تھا۔ تین چار آوارہ جانور باڑھ کو توڑ کر باغ کے اندر داخل ہو رہے تھے اور ہمارے سامنے کوئی سو گز کے فاصلے پر ملم سر راہ سنگریزوں کو ٹھوکریں مارتا ہوا اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا۔ اس نے سر پر ایک سرخ بنارسی صافہ باندھ رکھا تھا۔ کبھی ملم گرد و غبار میں ہماری نظروں سے غائب ہو جاتا اور کبھی پھر اس کا بنارسی صافہ دھندلکے کو چیرتا ہوا ہماری نظروں میں کھبنے لگتا۔
اس دن اسٹیشن پر بھیڑ تھی۔ کوئی آدھ گھنٹہ انتظار کے بعد گاڑی آئی۔ اس کے وسط میں ایک زنانہ ڈبہ تھا اور عورتوں کے ہجوم میں دو متجسس، سہمی ہوئی آنکھیں فکر مندی کے احساس سے پلیٹ فارم پر گھومنے والے خوب صورت سے خوب صورت، متمول آدمیوں کے گروہ میں ایک بدصورت، قلاش اور چڑچڑے آدمی کی جویاں تھیں۔
ملم آہستہ آہستہ بھیڑ کو چیرتا ہوا آگے بڑھا۔ اس نے دیکھا گوری کی صحت پہلے کی نسبت بہت اچھی ہو گئی تھی اور اس کا چہرہ شگفتہ پھول کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ لمبے سفر کی وجہ سے تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے۔ آنکھیں چار ہونے پر وہ بے صبری کی کیفیت نہ رہی، یا شاید وہ اپنی کمزوری کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا۔
ملم نے دو ایک میلے کچیلے کپڑوں کی گٹھڑیاں، گنوں کی ایک پولی اور چند اور چیزیں اتاریں اور اس کے بعد گوری بھی نیچے اتر آئی۔ چلتے چلتے بھیڑ میں گوری کسی کے ساتھ بھڑ گئی۔ ملم نے اس واقعے کو دیکھا۔ اس کے علاوہ پل کی سیڑھیوں پر چند ایک بے کار نوجوان کھڑے گوری کو دیکھ رہے تھے، جو ایک خاص قسم کی کیفیت میں امڈی سی چلی جا رہی تھی۔ ملم نے غصے سے پیچھے دیکھا اور بولا، ’’گوری۔۔۔‘‘ گوری نے کانپ کر ادھر ادھر دیکھا اور گھونگٹ سر پر ڈال لیا۔
اب اسے راستہ نہیں دکھائی دیتا تھا۔ ملم کے دھوکے میں اس نے اپنا ہاتھ کسی اور شخص کے ہاتھ میں دے دیا۔ یا شاید یہ چترتی کے چاند دیکھ لینے کی وجہ سے تھا کہ ملم نے غصے سے ہکلاتے ہوئے کہا، ’’یہ نئے ڈھنگ سیکھ آئی ہو۔۔۔ پھر آ گئیں میری جان کو دکھ دینے۔‘‘ اس وقت پل کے پاس، ایک مریل سا کتا ایک خوبصورت کتیا کے سامنے اظہار محبت میں دم ہلا رہا تھا۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.