Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پان شاپ

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    کہانی میں اپنی محبوب اشیا کو گروی رکھ کر قرض لینے والوں کے استحصال کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ بیگم بازار میں فوٹو اسٹوڈیو، جاپانی گفٹ شاپ اور پان شاپ پاس پاس ہیں۔ پہلی دو دکانوں پر نام کے مطابق ہی کام ہوتا ہے اور تیسری دوکان پر پان بیچنے کے ساتھ ہی قیمتی چیزوں کو رہن رکھ کر پیسے بھی ادھار دیے جاتے ہیں۔ اس کام کے لیے فوٹو اسٹودیو کا مالک اور جاپانی گفٹ شاپ والا پان والے کی ہمیشہ برائی کرتے ہیں۔ جب ایک روز انھیں خود پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ دونوں ایک دوسرے سے چھپ کر پان والے کے ہاں اپنی قیمتی چیزیں گروی رکھتے ہیں۔

    بیگم بازار کی منحوس دکان میں ایک دفعہ پھر بیل دارد و سُوتی کے بھاری بھاری پردے لٹکنے لگے۔

    موجد ’دافع چنبل و واد‘ اور جاپانی کھلونوں کی دکان، اوساکا فیئر (جاپان سے متعلق) کے ملازم استعجاب سے تھارو لال فوٹوگرافر کو اوک پلائی کا ڈارک روم بناتے دیکھ کر اس کے تاریک مستقبل پر آنسو بہانے لگے۔

    ’’ایک ماہ سے زیادہ چوٹ نہ سہے گا۔ بیچارہ!‘‘

    ’’دکان کیا ہو گی۔ بازار سے کچھ ہٹ کر ہے نا۔ نظر اسے سامنے نہیں پاتی اور بس۔‘‘

    ایک ماہ، دو اور چار۔ تھارو لال وہیں تھا۔ موجد ’دافع چنبل و داد‘ اور اوساکا فیئر کے ملازموں نے حیرت سے انگلیاں منھ میں ڈال لیں۔ جب کہ 11 اگست کی صبح کو انھوں نے ایک جہازی سائز کا سائن بورڈ اس منحوس دکان پر آویزاں ہوتے ہوئے دیکھا۔ 12×6 فٹ سائز کے سائن بورڈ پر دیو صورت حروف خالص صنعتی انداز سے ناچتے ہوئے انٹرنیشنل فوٹو سٹوڈیو کی شکل اختیار کر رہے تھے۔

    اوساکا فیئر کے منتظم صمیم (خان زادہ) نے سیلولائیڈ کی ایک بڑی سی گڑیا کے اندرونی فیتے کو اس کے اندرونی قلابوں سے احتیاط کے ساتھ باندھ دیا (تاکہ گاہک کو شکایت کا موقع نہ ملے) اور پھر تھارو کی دکان پر آویزاں سائن بورڈ کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔

    ’’انٹرنیشنل فوٹو اسٹوڈیو!‘‘

    تھارو کا کام بیگم بازار، اس کے نواح کے تین محلوں، سامنے کے نشیبی چوک یا چھاؤنی کے ہائی اسکول تک محدود ہوگا، مگر وہ اپنی دکان کو ایک بین الاقوامی کاروبار سے کم نہیں دیکھنا چاہتا۔ کیا عجب جو اسے کسی دن پیٹروگراڈ، ٹمبکٹو، یا ہونولولُو سے فوٹو کا مال مہیّا کرنے کے آرڈر ملنے لگیں۔ بہرحال بین الاقوامی نام رکھنے میں حرج بھی تو کوئی نہیں۔ اس نام سے دکاندار کی فطری رجائیت ٹپکتی ہے۔

    مگر افسوس! سودے کی بدعت، ترقی پسند ہندستانی دکاندار کو بیگم بازار کے نواحی تین محلوں، سامنے کے نشیبی چوک اور چھاؤنی کے ہائی اسکول سے دور کیا جانے دے گی۔ وہ ہر جائز و ناجائز طریقہ سے گاہک کو پھنسانے کی کوشش میں کسبِ کمال کی تو دھجیاں اڑا دیتا ہے۔ گویا اپنے پاؤں میں آپ بیڑیاں ڈالتا ہے اور یوں زیادہ آمدنی کی توقع میں طبعی آمدنی بھی معدوم!

    تھارو کی دکان پر اس جہازی قد کے سائن بورڈ کے نیچے ایک اور ٹین کی پلیٹ پر جدید عینک ساز بھی لکھا تھا۔ ترقی پسند مگر بھولے تھارو نے جدید عینک سازی محض سودے کی بدعت یا نقل میں شروع کی تھی، کیونکہ اس کا پڑوسی دکاندار جرابوں کے کارخانہ کے ساتھ ’’ٹیٹا گھر‘‘ کاغذ بھی فروخت کرتا تھا۔

    11؍ اگست کی شام کو اوساکا فیئر کا منتظم صمیم (خان زادہ) اور تھارو، کچھ اداس خاطر ہو کر ملے۔ دونوں کی آمدنی کا بیشتر حصہ تعطیلاتِ گرما یا سرکاری دفاتر کے شملہ کی طرف کوچ کی نذر ہو چکا تھا۔ ان دنوں میں سٹوڈیو کے سامنے پان شاپ پر بہت رونق رہتی تھی۔

    پان شاپ کے پہیّے دار تختوں میں کھڑیا مٹی سے صاف کیے ہوئے شیشے بہت ہی خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔ ایک ہلکی اور سبز جھلک رکھنے والے شیشے کے پیچھے ایک ہُک کے ساتھ ایک نفیس طلائی سیکنڈس گھڑی لٹک رہی تھی۔ اس کے نیچے قانون و فقہ کی کتابیں بے ترتیبی سے پڑی تھیں۔ شاید کوئی قانون کا بے قانون اور فضول خرچ طالب علم اتنی قیمتی کتابیں کوڑیوں کے مول گروی رکھ کر پیسے لے گیا تھا۔ کتابوں کے پیچھے ایک پُرانی سنگر مشین پڑی تھی۔ اسے گروی رکھنے والے کو اتنی ضرورت یا اتنی جلدی تھی کہ اس نے مشین پر سے دھاگہ کی گولی بھی نہ اٹھائی تھی۔

    پان شاپ کے ایک کونے میں کانسی اور پیتل کے فلسطینی پیالوں کی شکل کے گلدستے اور لمبی لمبی ٹانگوں والے کلنگ پڑے تھے۔ فرنیچر کی دو قطاروں میں اخروٹ کی لکڑی میں کشمیری تراش کا ایک بڑا سا گنیش بھی پڑا تھا اور دیوار کے ساتھ پان شاپ کا مالک ایک آہنی صندوقچی پر اپنی کہنیاں رکھے ہوئے اپنے کسی گاہک سے باتیں کر رہا تھا۔

    دو بلاّ وردی سپاہی پان شاپ کے مالک سے اجازت پاکر برآمدے میں پڑے ہوئے سائیکلوں کے نمبر دیکھ رہے تھے۔

    ’’A-11785۔ نہیں۔‘‘

    ’’A- 222312۔ یہ بھی نہیں۔‘‘

    ’’H- 97401۔یہ بھی نہیں ۔ کوئی بھی نہیں۔ چلو۔‘‘

    ایک عیسائی لڑکی دو دفعہ بیگم بازار میں پان شاپ سے نشیبی چوک اور نشیبی چوک سے پان شاپ کی طرف واپس آئی۔ وہ بار بار غور سے پان شاپ کے اندر دیکھتی۔ اس وقت اس کے دبے ہوئے شانے پھرکنے لگتے۔ شاید وہ چاہتی تھی کہ پان شاپ کے اندر بیٹھے ہوئے دو ایک آدمی چلے جائیں اور سپاہی اپنا کام کر کے رخصت ہوں تاکہ وہ تخلیہ میں آزادانہ اپنا کاروبار کرسکے، یا شاید وہ اپنا مال گروی رکھتے ہوئے جھجکتی تھی، اگرچہ اس کے پاس گروی رکھنے کے لیے کوئی چیز دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس کے قدرے عمدگی سے تراشے ہوئے کسمئی لب پھرکتے دکھائی دیتے تھے اور اس کی بے خواب اور بھاری آنکھیں بے قراری سے پپوٹوں میں حرکت کر رہی تھیں۔ پسینہ سے سفید ململ کا فراک اس کی پشت پر چمٹ گیا تھا اور پشت کی جانب سے اس کی انگیا کے تناؤ کے ریشمی فیتے شانوں پر گول چکر کاٹتے ہوئے صاف دکھائی دے رہے تھے۔

    ’’آج بہت گرمی ہے۔ توبہ! شام کو ضرور بارش ہو گی۔‘‘ اوساکا فیئر کے منتظم نے کانوں کو چھوتے ہوئے کہا۔

    تھارو نے یہ بات نہ سنی اور بہت انہماک سے پان شاپ کے اندر دیکھتا رہا۔ پھر یکایک کانپتے ہوئے اٹھا اور بولا، ’’اس سے تو میں بھوکا مر جانا پسند کرتا ہوں۔‘‘

    صمیم نے غور سے پان شاپ کے اندر دیکھا اور بولا، ’’ضرورت مجبور کرتی ہے میرے بھائی، وگرنہ کوئی خوشی سے تھوڑا ہی۔۔۔‘‘

    لڑکی پان شاپ سے باہر آئی۔ اس کے بشرہ سے صاف عیاں تھا کہ گروی مال پر اس کے اندازے اور ضرورت سے اسے بہت ہی کم روپیہ ملا تھا۔ نہیں تو اطمینان اور خوشی کی تحریر اس کے چہرے پر ضرور دکھائی دیتی۔ وہ اپنے بیمار خاوند پر اپنا سب کچھ لٹا چکی تھی۔ اب اس کے پاس سنہری بالوں کے سوا گروی رکھنے کے لیے رہا بھی کیا تھا۔ کاش ان حلقہ دار لمبی لمبی سنہری زلفوں کی ہندوستان میں کچھ قیمت ہوتی۔

    لڑکی نے اپنا دایاں ہاتھ اوپر اٹھا کر ایک انگلی کو جڑ سے مسلنا شروع کیا۔ انگلی پر ایک زرد سا حلقہ نظر آ رہا تھا۔ نامعلوم کتنی ضرورت سے مجبور ہو کر اس نے اپنی عزیز ترین چیز، اپنی رومانوی حیات معاشقہ کی آخری نشانی پان شاپ میں گروی رکھ دی تھی۔ اس نے اپنے رنڈوے ہاتھ سے اپنی سنہری زلفوں کو نفرت سے پیچھے ہٹا دیا، کیونکہ ان کی کوئی قیمت نہ تھی اور پان شاپ کے پہیّے دار تختوں میں کھڑیا مٹی سے صاف کیے ہوئے خوبصورت شیشوں میں اس نے اپنے حسین چہرے کے دھندلے عکس کو دیکھا اور رونے لگی۔ کیونکہ وہ حسن فروش نہ تھی۔

    لوہے کی ایک خوردبین نما نال میں تھارو کرکس کے چند ہلکے سے محدّب شیشے ڈال کر نصف گھنٹہ کے قریب ایک بوڑھے کی آنکھوں کا معائنہ کرتا رہا۔ بوڑھے کے سامنے کچھ دور ایک طاق کے ساتھ اردو کے حروفِ تہجی آویزاں تھے۔ تھارو بار بار اس نال کی درز میں کسی نئے اور ہلکے سے محدب شیشے کو رکھ دیتا۔ بوڑھا کہتا، ’’ا، ب، م، تمھارے کوٹ سے بھی بڑی دکھائی دیتی ہے۔‘‘ ’’ا، ب، ظ، سے شعاعیں نکل رہی ہیں۔‘‘ ’’ا، ب، ع، دھندلی دھندلی اور پرچھائیں دار نظر آتی ہے۔‘‘ ’’ا، ب، سب حروف دکھائی تو ٹھیک دیتے ہیں مگر بہت ہی چھوٹے چھوٹے۔ تمھارے کوٹ کے بٹن سے بھی چھوٹے۔‘‘

    وہ بوڑھا کیا جانے کہ اگر کسی محدّب شیشے میں سے تمام حروف تہجّی اپنے قدو قامت کے دکھائی دینے بھی لگیں تو بھی وہ تھارو لال۔ ’جدید عینک ساز‘ اور فوٹوگرافر سے ایک دیدہ زیب سیلولائیڈ کا فریم کیا ہوا چشمہ لگوا کر ہمیشہ کے لیے اندھا ہو جائے گا۔ ڈیڑھ گھنٹہ کی ’سائنٹیفک‘ دیکھ بھال کے بعد تھارو نے شیشے کا نمبر ایک کاغذ پر لکھا، اور عینک بوڑھے کو دے دی۔

    بوڑھا ان امیر گاہکوں میں سے نہیں تھا، جو تھوڑے پیسوں کی ادائیگی کے لیے بھی یکم کا وعدہ کیا کرتے ہیں۔ پیسے اس کی مٹھی میں تھے۔ تھارو لال کے مانگنے پر اس نے چند پسینہ سے شرابور سکّے کونٹر پر بکھیر دیے۔ ان سکّوں کے دیکھنے سے گھِن آتی تھی۔ تھارو نے ایک حریصانہ انداز سے سکّے اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیے اور اپنا ہاتھ پتلون سے پونچھنے لگا۔

    تھارو نے ایک مغرورانہ انداز سے پان شاپ کی طرف دیکھا۔ ایک ادھیڑ عمر کا شریف آدمی جس کا منھ کان تک تمتما رہا تھا، آہستہ آہستہ پان شاپ کے سامنے کی تین سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا۔ نیچے اترتے ہوئے اس نے پان شاپ کے پہیّے دار تختوں میں کھڑیا مٹی سے صاف کیے ہوئے خوبصورت شیشوں میں سے اپنے پُر شرافت چہرے کے دھندلے عکس کو دیکھا اور غمزدہ ہو گیا۔ کیونکہ وہ بدمعاش نہیں تھا۔

    ’’پان شاپ کا مالک چار دن میں بھی اتنا سود جمع نہیں کرسکتا۔‘‘ تھارو نے اپنی جیب میں سکّوں کی کھنکار پیدا کرتے ہوئے کہا۔ پھر تھارو ایک بے سود، بے حاصل غرور کے جذبہ کے ساتھ آس پاس کے دکانداروں کی آمدنی کا اندازہ لگانے لگا۔ اس لاحاصل جمع خرچ میں بیگم بازار کے بساطیوں کا کوئی دخل نہ تھا۔ ان کی آمدنی لامحدود تھی اور تھارو کے محدود تخیّل سے بہت ہی پرے۔

    ’’ہاں! موجد ’دافع چنبل و واد‘ کے نسخہ کی قیمت زیادہ سے زیادہ دو آنے ہو گی۔ گندھک رال، سہاگہ، پھٹکڑی کا ایک حصہ اور نیلا تھوتھا 1/8 حصہ اور ایک مخفی چیز، جو اس نسخہ کی کامیابی کی کلید ہے اور جس نے اس عطار کو موجد کا خطاب دیا ہے، وہ بھی ایک آدھ پیسہ میں آ جاتی ہو گی۔اس میں وہ کماتا کیا ہے۔ اوساکا فیئر کے منتظم کو کمیشن بٹہ کی بنا پر ملتا ہی کیا ہو گا۔ ہیئر کٹنگ سیلون والے فی حجامت چار آنے۔ پانچ آنے کما لیتے ہوں گے۔‘‘ تھارو نے ایک دفعہ پھر چمکتی ہوئی آنکھوں سے پان شاپ کی طرف دیکھا۔

    اس کی پتلون کی جیب میں پسینہ سے شرابور سکّے، اس کی رانوں کو گیلے گیلے لگنے لگے۔ اس وقت اوساکا فیئر کا منتظم آیا۔ ہفتہ بھر اس کی دکان پر سوائے پرچون کے چند گاہکوں کے اور کوئی نہ آیا تھا۔ دسہرہ، شب برات، یا دیوالی میں ابھی اڑھائی تین ماہ باقی تھے۔ کیا اوساکا کا بڑا آفس اکتوبر تک انتظار کرے گا؟ صمیم (خان زادہ) کا چہرہ قدرے سیاہ ہو گیا تھا اور اس کے گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتہ میں اتنے معمر دکھائی دینے کی کوئی خاص وجہ تھی۔

    صمیم نے اپنے آپ کو آرام کرسی پر گرا دیا۔ تھارو بولا، ’’یہ پان شاپ کا کام ہمارے کاموں سے بیک وقت اچھا بھی ہے اور برا بھی۔‘‘

    ’’اچھا کیسے؟‘‘

    ’’آمدنی۔ ہم کرکس کے چشمے اور فریم خریدتے ہیں۔ عکس لینے کے لیے منفی پلیٹیں اور مثبت کاغذ لاتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمارا نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ پان شاپ میں پلّے سے کیا خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی میعاد کے بعد لی ہوئی رقم سے تگنی رقم کی چیز چھڑانے نہ آسکے، تو سب کچھ اپنا۔ اور ایک بڑا سا ڈکار۔‘‘

    ’’ برا کیسے؟‘‘

    ’’برا؟ برا۔ اس میں دھوکے کا خطرہ ہے۔ یہ لوگ دوسرے کا مال اپنے پاس گروی رکھتے ہوئے اور بغیر محسوس کیے ہوئے اپنا ضمیر اپنے گاہک کے سامنے گروی رکھ دیتے ہیں اور یہاں سے کبھی کبھی کوئی حسین لڑکی اپنی رومانوی حیاتِ معاشقہ کی عزیز ترین اور آخری نشانی دے کر حسرت کے عالم میں اپنے رنڈوے ہاتھ کو مسلتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں سنہری زلفوں کی کوئی قیمت ہو، تو یہ حریص آدمی ان کو بھی گروی رکھ لیا کریں۔ اگر کسی شریف ادھیڑ عمر کے آدمی کی شرافت بکاؤ ہو۔تو یہ لوگ اسے بھی گروی رکھنے سے گریز نہ کریں۔‘‘ اور تھارو مسکرا کر غرور سے سکّے اپنی جیب میں اچھالنے لگا۔

    دو گھنٹہ سے تھارو نے چند منفی پلیٹیں برفیلے پانی میں ڈال رکھی تھیں۔ اب وہ ان سے مثبت کاغذ پر عکس اتارنا چاہتا تھا۔ اس نے پانی میں ہاتھ ڈال کر دیکھا۔ پانی گرم ہو چکا تھا اور منفی پلیٹوں پر مصالحہ پگھل کر لاوا کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ تھارو کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ کچھ نہ بولا۔ وہ کچھ بول ہی نہ سکا۔ یہ اسے چھ روپئے کا نقصان تھا۔ ایک عینک کی بچت سے تین گنا زیادہ نقصان۔

    تھارو ایک انگڑائی لے کر صمیم کے پاس بیٹھ گیا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے ایک لمحہ میں اس کی سکت اس کے جسم سے کھینچ لی گئی ہو۔ تھارو ٹکٹکی باندھ کر پان شاپ کی طرف دیکھنے لگا۔ شیشے کے پیچھے طلائی سیکنڈس قانون و فقہ کی کتابوں پر لٹک رہی تھی۔ ایک کونے میں کانسی اور پیتل کے فلسطینی پیالوں کی شکل کے گلدستے اور لمبی لمبی ٹانگوں والے کلنگ پڑے تھے۔ فرنیچر کی دو قطاروں میں اخروٹ کی لکڑی میں کشمیری تراش کا ایک بڑا سا گنیش بھی دکھائی دے رہا تھا اور ایک دیوار کے ساتھ پان شاپ کا مالک ایک آہنی سیف پر اپنی کہنیاں رکھے۔۔۔

    اوک پلائی کے ڈارک روم میں دم گھٹ جانے پر تھارو نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر مثبت کاغذ پر نقش کو مستقل کرنے والے مرکب کو ہلاتا رہا۔ اس وقت پسینہ اس کی کمر سے ہو کر گھٹنوں کی پشت پر قطرہ بہ قطرہ ٹپک رہا تھا۔ شاید تھارو اوک پلائی کے ڈارک روم میں پگھل کر اپنی جان دے دیتا، اگر صمیم اوسکا فیئر کو بند کرتے ہوئے ادھر نہ آ نکلتا۔ تھارو نے صمیم کی آواز پر باہر آتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنی قمیص اتاری۔ اس میں سے پسینہ نچوڑا اور قمیص کو پانی کے ایک ٹپ میں چھوڑ دیا اور ہانپتے ہوئے بولا، ’’آج کل ایمانداری کے کام میں پڑا ہی کیا ہے؟‘‘

    اور بین الاقوامی کاروبار کے شائق تھارو نے ایک پھٹی ہوئی بنیان آہستہ آہستہ سر سے نیچے اتار لی۔ پانی کے ٹب میں تھارو کی قمیص کی جیب میں سے کاغذ کا ایک پرزہ نکل کر پانی پر تیرنے لگا۔ اس پر لکھّا تھا،

    ’تین آنے کا مرکب، دو آنے یونین کا چندہ، ایک پیسہ کی گنڈیریاں۔ کل سوا پانچ آنے۔‘

    تھارو بولا، ’’یہ میری تمام دن کی آمدنی اور خرچ ہے۔ تم کنوارا دیکھ کر مذاق کرتے ہو۔ بیاہ، محبت کتنی میٹھی چیز ہے۔ مگر خالی معدہ میں تو پانی کی سی نعمت بھی جا کر تڑپا دیتی ہے۔‘‘

    اوساکافیئر کا منتظم مبہوت بنا تھارو کے غم زدہ چہرے کے ٹیڑھے میڑھے شکنوں کی طرف دیکھتا رہا۔ اور بولا، ’’تم ٹھیک کہتے ہو بھائی۔ ایمانداری کے کام میں پڑا ہی کیا ہے۔ اوساکا سے چٹھی آئی ہے۔ اگر چھ ماہ کے اندر نقشہ کیفیت میں آمدنی کی مد بھاری یا کم از کم خاطر خواہ دکھائی نہ دی، تو یہ دکان دہلی کے دفتر سے ملحق کر دی جائے گی۔‘‘

    چند لمحات کے لیے دونوں خاموش رہے۔ پھر تھارو بولا، ’’پان شاپ کا مالک دس سے لے کر 12-½ فیصدی تک فرنیچر پر دیے ہوئے روپوں میں سے کاٹ لیتا ہے۔ عام طور پر نیشنل بنک اور پانسے کے سونے پر ایک پیسہ فی روپیہ سود لیتے ہیں۔ مگر ادھر دیکھو صمیم۔ تصویر کی طرف مت دیکھو۔ تمھیں وہ لڑکی یاد ہے نا جس نے مجبوری اور حسرت کے عالم میں اپنی عزیز ترین چیز پان شاپ کے مالک کو دے دی تھی۔ اس کی انگشتری کی قیمت اسّی روپئے تھی۔‘‘

    خان زادہ اچھل پڑا۔ تھارو بولا، ’’پان شاپ کے مالک نے خود مجھے بتلایا ہے۔ اس کی قیمت اس نے تیس روپئے ڈالی۔ صرف تیس۔میں سچ کہتا ہوں تیس روپئے اور ایک آنہ فی روپیہ سود لگایا۔ میعاد 31؍اگست تک ہے، یکم بھی نہیں۔ اس کے بعد وہ انگوٹھی اسی لٹیرے اور درندے کی ہو گی۔‘‘

    ایک چیتھڑے سے کسی تصویر کی پشت کو کبوتروں کی بیٹ سے صاف کرتے ہوئے تھارو بولا، ’’میری جیب میں کچی کوڑی بھی نہیں۔ دکان میں نہ منفی پلیٹیں ہیں نہ مثبت کاغذ۔ 200 بتی کی طاقت کا ایک بلب فیوز ہو گیا ہے۔ میں کام کیسے کرسکتا ہوں؟‘‘

    خان زادہ نے اوساکا سے آئی ہوئی چٹھی جیب سے نکالی اور شاید دسویں بار اسے پڑھنے لگا۔ کچھ دیر غور و فکر میں غرق رہنے کے بعد تھارو نے تصویر اور چیتھڑے کو میز پر رکھ دیا اور بولا، ’’بیگم بازار کی منحوس دکان پھر اپنی دکھ بھری کہانی کو دہرائے گی۔ عنقریب ہی خالی ہو جائے گی۔ انٹرنیشنل فوٹو سٹوڈیو کا کام پیٹروگراڈ، ٹمبکٹو یا ہونولولُو تک وسیع ہونا تو ایک طرف رہا، وہ بیگم بازار سے نشیبی چوک تک بھی پہنچنے سے قاصر رہا۔ اور کیا بھائی۔ آج کل ایمانداری کے کام میں رکھا ہی کیا ہے۔‘‘

    صمیم نے سر اٹھا کر دیکھا۔ سامنے تھارو کھڑا تھا۔ تھارو جس کا جسم و روح دونوں ارتقا پذیر ہو چکے تھے۔

    پان شاپ کا مالک اور تھارو مقامی کاٹن مِل کے ہڑتالی مزدوروں کا مظاہرہ دیکھ رہے تھے۔ یکایک پان شاپ کے مالک نے تھارو کو اندر لے جا کر ایک چھوٹا سا کاغذ سامنے رکھ دیا۔ تھارو کا چہرہ کان تک تمتما اٹھا۔ اس کی آنکھوں میں خون کے آنسو اتر آئے۔ ہکلاتے ہوئے اس نے کہا، ’’دس فیصدی؟ دس فیصدی تو بہت ہے۔‘‘

    ’’تمھیں یہ خاص رعایت ہے۔ ورنہ بارہ سے کم نہیں۔‘‘

    ’’تم کیمرہ کو فرنیچر میں کیوں گنتے ہو؟‘‘

    ’’اور وہ زیورات میں بھی تو شمار نہیں ہو سکتا۔‘‘ تھارو لال نے پھر ایک دفعہ کاغذ پر نظر ڈالی، اور اپنی شعلہ فگن آنکھوں کو اوپر اٹھاتے ہوئے کہا، ’’31 ؍ اگست کو نہیں۔ تم مجھے لوٹنا چاہتے ہو۔ یکم کی شام تک۔ بابو لوگ یکم کو ہی پیسے دیتے ہیں۔‘‘

    بات صرف یہ ہے، 31؍اگست کی رات کو میں شملہ جا رہا ہوں۔ ورنہ یکم ہو جاتی تو کیا پروا تھی۔ عموماً اس معاملہ میں گاہکوں کی رضامندی ہمیں مطلوب ہوتی ہے، مگر۔‘‘

    مقامی کاٹن مِل کے ہڑتالی مزدوروں کے ہجوم کو چیرتے ہوئے ایک شخص باہر نکلا۔ انگلی سے پیشانی پر سے پسینہ پونچھتے ہوئے اس نے پان ٹکٹ نکالا۔ بیالیس روپئے پان شاپ کے مالک کی میز پر رکھ دیے اور سنگر مشین چھڑا کر اس تیزی سے بھاگا کہ دھاگہ کی گولی دکان کے اندر گِر کر اس کے پیچھے پیچھے گھسٹتی ہوئی دروازے کی ایک درز میں ٹوٹ گئی۔

    تھارو نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کاغذ پر دستخط کر دیے۔ پان شاپ کے مالک نے ایک ڈبیہ کو کھولتے اور بند کرتے ہوئے کہا، ’’ایک گواہی بھی ڈلوا دونا۔ خی خی۔ رسمیہ طور پر ضرورت ہوتی ہی ہے نا۔ خی خی۔‘‘

    اوساکافیئر کے منتظم کو لے آؤ۔

    تھارو کے ہاتھ زیادہ کانپنے لگے۔ وہ بھی صمیم کی طرح معمر نظر آنے لگا۔ تھارو کھانستے ہوئے بولا، ’’مگر میں صمیم کے سامنے روپیہ لینا نہیں چاہتا۔‘‘

    پان شاپ کا مالک ڈرامائی انداز سے ہنسنے لگا۔ ہنستے ہوئے اس نے سامنے لٹکتے ہوئے جھومروں کی طرف اشارہ کیا اور بولا، ’’وہ صمیم کی بیوی کے ہیں۔‘‘

    اب تھارو نے جانا کہ کیوں صمیم ایک ہفتہ میں ہی معمّر دکھائی دینے لگا تھا۔ اس نے چپکے سے سند پر بھی دستخط کر دیے۔ پان ٹکٹ ہاتھ میں لیا اور کسی دوسرے دکاندار کی گواہی ڈلوا دی۔

    پھر وہ پان شاپ کے پہیّے دار تختوں میں کھڑیا مٹی سے صاف کیے ہوئے خوبصورت شیشوں میں اپنے معمّر اور دیانت دار چہرے کے دھندلے عکس کو دیکھتے ہوئے پان شاپ کی سیڑھیوں پر سے اترا۔ اس کی آنکھیں پر نم ہو گئیں۔ کیونکہ وہ ایمان فروش اور بدقماش نہیں تھا۔

    31؍اگست تک تھارو سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ وہ اسی رسّی کی مانند ہو گیا تھا جو جل جانے کے بعد بھی ویسی صورت رکھتی ہے۔ اسے کسی طرف سے آمدنی کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ اس پر سکرات کی سی کیفیت طاری ہو گئی، جب کہ آدمی مایوس ہو کر آسمان کی طرف سر اٹھا دیتا ہے۔ ایمان دار کی خدا مدد کرتا ہے۔ ایمان کی کمائی۔ ایمان کی کمائی میں برکت۔ ایمان۔ لعنت!

    اوساکافیئر کا منتظم تھارو کے پاس آیا۔ مایوسی کے انداز سے اس نے اپنے آپ کو ایک کرسی پر گرا دیا اور بولا، ’’پان شاپ۔ میں ایک کیمرہ دکھائی دیتا ہے۔‘‘ تھارو لال نے شرمندہ ہو کر سر اٹھایا اور ایک گہری نظر سے پان شاپ میں دیکھتے ہوئے بولا، ’’ہاں۔ دکھائی دیتا ہے۔ اور جھومروں کی ایک جوڑی بھی۔‘‘ خان زادے نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔ ’’کتنی میعاد ہے؟‘‘

    ’’31 ؍اگست۔اور تمھاری؟‘‘

    ’’31؍اگست۔‘‘

    ’’کوئی سبیل؟‘‘

    ’’کوئی نہیں۔ اور تمھاری؟‘‘

    ’’اوں ہوں۔‘‘

    اور دونوں نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے سر گرا دیا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے