بڑھاپا
کہانی کی کہانی
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو ایک ویشیا سے محبت کے باعث اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔ اس کے اس طلاق میں مسجد کا مولوی دونوں فریقین کو خوب لوٹتا ہے۔ پچاس سال بعد جب وہ دوبارہ اس گاؤں میں آتا ہے تو مولوی اسے ساری باتیں سچ سچ بتا دیتا ہے۔ مولوی کا بیان سن کر وہ اپنی بیوی کی قبر پر جاتا ہے، لیکن چاہ کر بھی رو نہیں پاتا۔
احمد عرصہ کی غریب الوطنی کے بعد اپنے گاؤں پریم نگر میں پرانی اور ٹوٹی پھوٹی مسجد کی مرمت کے لیے بلایا گیا۔ وہ اسی گاؤں میں پیدا ہوا تھا اور اسی گاؤں میں اس کی شادی بھی ہوئی تھی باوجود اس کے جب وہ گاڑی سے اسٹیشن پر اترا تو اپنے گاؤں کے مناظر کو مشکل سے پہچان سکا۔ ہر چیز اپنی ہیئت بدل چکی تھی۔ سب سے پہلے جو چیز اس کی بدلی ہوئی نظر آئی وہ اس کی اپنی عمر تھی۔ جس وقت اس نے اپنے گاؤں کو قبصہ میں بسنے کے لیے چھوڑا تھا اس وقت اس کی عمر اٹھارہ سال لی تھی اور آج وہ پچاس سال کا تھا۔ اس کو پریم نگر کا اسٹیشن اس طرح نیا معلوم ہوا گویا اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ اسٹیشن کے کنارے کی جھاڑیاں اور آس پاس کے درخت اس کو اجنبی اور غیرمانوس نظر آ رہے تھے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اب یہی چیزیں پہلے سے بہت زیادہ بدصورت اور بدنما نظر آ رہی تھیں۔ کچھ اور آگے بڑھنے کے بعد احمد کو معلوم ہوا کہ غیر ذی شعور چیزوں سے کہیں زیادہ اس جوار کے انسان بدل گئے ہیں۔ درختوں اور جھاڑیوں میں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ موانست اور ہمدردی باقی تھی۔ لیکن یہاں کے لوگ تو اس کو پہچاننے کی صلاحیت بھی کھوچکے تھے۔
احمد کو یہ جاننے میں دیر نہیں ہوئی کہ اس کے اکثر جاننے والے یا تو مر چکے ہیں یا زمین و آسمان کی ایک گردش میں امیر سے فقیر ہو چکے ہیں، یا جو لوگ اپنی پچھلی حالت پر ہیں وہ اس کو یک قلم بھول چکے ہیں۔ اس نے اپنے مزدور سے پوچھا ’’کیوں نارائن تم کو اس گاؤں کا وہ ٹہوئی بھی یاد ہے جس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ تم اس کو بھولے نہ ہوگے اس کا نام احمد تھا۔‘‘
’’نہیں! مجھے اس نام کا کوئی آدمی یاد نہیں ہے‘‘ نرائن نے جواب دیا۔
’’تعجب ہے اس واقعہ پر تو ہلچل سی مچ گئی تھی۔ گھر گھر اس کا چرچا تھا اور در در اس کی رسوائی، اس طلاق کے معاملہ کو مولوی طفیل احمد نے طے کیا تھا جس سے بڑھ کر ریاکار مولوی اس دنیا میں نہ ہوگا، وہ اب زندہ ہے یا نہیں؟‘‘
’’خدا کا شکر ہے کہ وہ ابھی بقیدِ حیات ہیں۔ وہ تو بڑے مشہور بزرگ ہیں اور بڑی دوات اور اقبال والے ہیں۔ دو موضعوں میں حصہ دار ہیں اور ابھی حال میں بڑی دھوم دھام سے بیٹی کی شادی رچائی ہے۔‘‘
مولوی طفیل احمد قرب و جوار میں بڑی تعظیم و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کو لوگ اللہ والا سمجھتے تھے اور وہ ’’دل بہار و دست بکار‘‘ کی ایک جیتی جاگتی مثال تھے۔ انہوں نے اپنی تمام ثروت پرستی کے باوجود اپنے ٹوٹے پھوٹے خدا کے گھر کو کبھی نہیں چھوڑا تھا اور اسی مسجد میں شب و روز کا بیشتر حصہ ذکر و فکر میں گزارتے تھے جس کی مرمت کے لیے احمد دو منزل سے بلایا گیا تھا۔
تھوڑی دیر کے لیے تو مولوی طفیل احمد، احمد کو دیکھ کر سکتے میں پڑ گئے۔ وہ اس کو پہچان تو فوراً گئے لیکن اپنے تیور اور اپنے لہجہ سےاس کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے کہ وہ احمد کو پہچاننے میں تامل کر رہے ہیں۔
آخرکار انھوں نے تسلیم کیا ’’اس کا میرے فرشتوں کو بھی گمان نہ تھا۔ کبھی اس کی مجھے خواب میں بھی امید نہ تھی۔ کہو کچھ ناشتہ پانی لاؤں اور تو کچھ وقت پر خاطر نہیں کر سکتا۔ انڈے روٹی آسانی سے مہا کر سکتا ہوں۔ تمہاری بدولت مجھے کیا نہیں ملا۔ یہ سب کچھ تمہارا دیا ہوا ہے۔ میں تمہارے احسان سے کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتا۔‘‘ مولوی طفیل احمد کو اعتراف کرنا پڑا۔
’’آپ زیادہ زحمت نہ گوارا کریں۔ میں یہاں ایک کام پر مامور ہوکر آیا ہوں اور مجھے مسجد کا معاملہ کرنا ہے۔‘‘ احمد نے سنجیدگی اور کسی قدر سردمہری کے ساتھ جواب دیا۔
’’بہتر ہے‘‘ مولوی طفیل احمد اس سے زیادہ نہ کہہ سکے۔
تھوری دیر بعد انہوں نے اپنے حواس کو مجتمع کیا اور اتنا کہنے کی جرأت کی ’’لیکن دوست تم مجھ سے پہلو تو نہیں بچا رہے ہو؟ اب سارے معاملہ کو رفت گزشت سمجھو۔ اب مجھ سے بھڑکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کسی زمانہ میں، میں بدذات اور بداعمال ضرور تھا۔ لیکن اب مجھ کو پانی کی غیر متحرک سطح سے زیادہ ساکت اور صامت سمجھو۔ میری عمر کافی گزر چکی ہے۔ میں بڈھا ہو چلاہوں، مجھے گھاس کے پتوں سے بھی زیادہ عاجز اور بیچارہ سمجھو۔ اب میں گھر والا ہوں اور بال بچے رکھتا ہوں۔ مرنے کے دن قریب آ رہے ہیں۔ ہاں وہ بھی کیا زمانہ تھا مجھے خوب یاد ہے۔ لیکن مجھے کسی طرح یقین نہیں تھا۔ تم کو یاد ہے کہ تم نے اپنی بیوی کو کس طرح طلاق دی تھی؟ اس کو تقریباً تینتیس برس ہوگئے اور بہت ممکن ہے تم ساری روداد کو بھول چکے ہو مگر میرے لیے سارا واقعہ کل کی بات ہے۔ اس زمانہ میں میں بھی خاصہ شیطان تھا اور دنیاداری کے فن کا پورا ماہر تھا۔ دنیوی دولت و ثروت اس وقت میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ وہ دن گئے، وہ سن گئے، نہ طبیعت میں وہ جولانی ہے نہ ہاتھ پاؤں میں وہ سکت۔ اب آغاز و انجام کا صحیح احساس شدت کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور ضمیر پر غالب آ رہا ہے۔ مختصر یہ کہ اب موت کی اٹل گھڑی کا انتظار ہے۔‘‘
جو کچھ مہیا ہو سکا دونوں نے کھایا اور مسجد کی طرف چلے۔ جو مولوی طفیل احمد کے مکان سے مشکل سے ایک فرلانگ کے فاصلہ پر تھی۔
’’ہاں! وہ بھی کیا زمانہ تھا؟ لیکن یہ سب باتیں اب کسی طرح میری سمجھ میں نہیں آتیں‘‘۔ مولوی طفیل احمد نے راستہ میں کہنا شروع کیا، ’’کچھ تم کو بھی یاد ہے کس طرح بیوی کو طلاق دیا تھا اور میں نے کس طرح اپنے تمام علم و فضل کا زور تمہاری حمایت میں صرف کر دیا تھا اور کس حسن و خوبی کے ساتھ قرآن و حدیث کو تمہارے گاؤں کی چیز بنا دی تھی، لیکن وہ زمانہ اور تھا۔ دولت دنیا کو اس وقت میں ہوالاول، ہوالاٰخر سمجھے ہوئے تھا اور جو رقم تم نے مجھے دی تھی وہ بڑے سے بڑے دیانت دار اور حق پرست کو بھی ثابت قدم نہ رہنے دیتی۔ پانچ نہیں۔ توبہ۔ چھ سو کی رقم معمولی رقم نہیں ہوتی۔ تم اپنے سارے معاملہ کو میرے ہاتھ میں دے کر بستی چلے گئے اور مجھ کو اختیار دے دیا کہ جو بہتر سمجھوں کروں۔ تمہاری بیوی سکینہ اگرچہ ایک متمول بیوپاری کے خاندان کی لڑکی تھی تاہم بے انتہا مغرور اور خودغرض تھی۔ اس کو رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کرنا کہ سارا الزام اپنے سر لے لے دشوار تھا، بےانتہا دشوار۔ میں بار بار اس کے پاس جاتا تھا کہ کسی طرح معاملہ طے کروں۔ لیکن وہ مجھے دور سے دیکھتے ہی مجھ سے کہلا بھیجتی تھی، ’’میں آپ سے ملاقات نہیں کر سکتی‘‘ میں نے اپنی طرف سے کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ اس سے ملاقات کرنے کی کوشش کے خط لکھے۔ لیکن سب بےکار۔ عرصہ تک میں اس کو راہ پر نہ لگا سکا۔ آخرکار جب تم نے اس کو پانچ سو روپے نقد دینے کا وعدہ کیا تو وہ راضی ہو گئی۔‘‘
’’پانچ سو! مجھے جہاں تک یاد ہے میں نے تو ہزار دیے تھے۔‘‘ احمد نے حسرت سے پوچھا۔
’’ہاں ٹھیک ہے۔ منھ سے پانچ سو نکل گیا‘‘ مولوی طفیل احمد نے گھبراکر جلدی سے کہا۔
’’بہرحال یہ سب تو اب گئی گزری باتیں ہیں۔ اب چھپانے سے کیا فائدہ۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ پانچ سو میں نے لیے اور پانچ سو پر تمہارا معاملہ طے کیا۔ میں نے تم دونوں کو دھوکا دیا اور شاید کچھ ایسا برا نہیں کیا تم دونوں دولت مند تھے اور میں فاقہ مست۔میرے پاس اگر تم سے روپے نہ آتے تو کس سے آتے؟ ان دنوں تمہارا کاروبار بھی کیسا ترقی کر رہا تھا۔ مجھے تم پر حسد ہوتا تھا۔ ہرجگہ تمہاری عزت تھی۔ ہر جگہ تمہارا بول بالا۔ دور دور تمہاری ساکھ تھی اور دور دور تمہارا نام۔ مگر خیراب ان باتوں کو دہرانے سے فائدہ؟ اب تو اس کا وقت ہے کہ ہم ایک دوسرے کی خطاؤں کو معاف کردیں اور بھول جائیں۔‘‘
’’درست ہے‘‘ احمد نے جواب دیا، ’’لیکن میں یہ سننا چاہتا ہوں کہ اس کے بعد سکینہ کا کیا حال رہا؟‘‘
’’حال! پھر اس کا بڑا برا حال رہا‘‘۔ مولوی طفیل احمد نے اپنے حافظہ پر کسی قدر زور دے کر کہا، ’’نہ جانے اس کو کیا ہو گیا تھا شاید وہ پاگل ہو گئی تھی۔ شاید اس کا ضمیر چٹکیاں لے رہا تھا کہ اس نے اپنے کو روپیوں پر کیوں فروخت کیا، یا پھر شاید اس کو تم سے بیحد محبت تھی۔ سبب جو کچھ بھی ہو لیکن واقعہ یہی ہے کہ اس کے بعد اس نے ایک بازاری آبرو باختہ عورت کی زندگی بسر کی جیسا کہ تم بھی جانتے ہوگے۔ اپنی شامت سے صورت شکل میں بھی سینکڑوں میں ایک تھی۔ پھر کیا تھا؟ آس پاس میں کون ایسا تھا جو اس کے نام کا کلمہ نہ پڑھنے لگا ہو اور کون ایسا بدنصیب تھا جس نے سکینہ کو حاصل کرنے کی مقدرت رکھتے ہوئے اس کو حاصل نہ کیا ہو۔ غرض یہ کہ سکینہ تباہ ہوئی اور خوب تباہ ہوئی۔‘‘
’’ہاں! اس کی افتادِ طبیعت ہی کچھ ایسی تھی۔‘‘ احمد نے افسردہ لہجہ میں کہا۔ ذرا ذرا سی بات پر مجھ سے بگڑ جاتی تھی اور میری زندگی کو ایک مستقل زحمت بنائے ہوئے تھی۔ ہاں تو اس کے بعد کیا ہوا؟ ’’ایک ہفتہ گزرا، پندرہ دن گزرے، مہینہ بھر گزرا، ایک مدت گزر گئی۔ ایک دن میں اسی مسجد میں بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا دفعتاً وہ دروازہ سے داخل ہوئی اور چیل کی طرح جھپٹ کر میرے قریب پہنچ گئی، ’’ملعون اپنا ملعون عطیہ واپس لے‘‘ یہ کہہ کر اس نے بڑے جلال کے ساتھ ایک تھیلی میرے سامنے پھینک دی۔ وہ آپے سے باہر ہو رہی تھی۔ اس تھیلی میں صرف ڈھائی سو روپے تھے۔ یعنی ڈھائی سو خرچ کر چکی تھی۔
’’اور آپ نے ان روپیوں کو کیا کیا؟‘‘ احمد نے ایک ہلکی حقارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
’’یہ سب گئی گزری باتیں ہیں۔‘‘ مولوی طفیل احمد نے خفّت کے ساتھ جواب دیا۔ چھپانے سے کیا فائدہ۔میں نے بے تامل روپے لے لیے۔۔۔ لیکن تم اس طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے کیوں دیکھ رہے ہو۔ ذرا صبر و تحمل کے ساتھ اس داستان کو سنو۔ اچھی خاصی داستان ہے۔ ایک دل تنگ اور زندگی سے بیزار روح کی داستان۔ ایک ایسی ہستی کی داستان جو ہر بات سے عاجز اور پریشان ہو چکی ہو۔ آہ!
گئے وحشت سے باغ زاغ میں تھے
کہیں ٹھہرا نہ دنیا سے اٹھا دل
اس واقعہ کے دو مہینے بعد وہ پھر سرشام اسی مسجد میں میرے پاس آئی۔ اس کی آنکھیں وحشت انگیز اور ڈراؤنی معلوم ہوتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی پاگل خانہ سے نکل بھاگی ہے۔ آتے ہی اس نے درشتی کے ساتھ مجھ سے کہا، ’’میرے روپے مجھے واپس دو۔ میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ اگر مجھے برباد ہونا ہے تو میں سرمستی اور دیوانگی میں برباد ہونا چاہتی ہوں۔ جلدی کرو بدمعاش میرے روپے فوراً لاکر مجھے دو۔‘‘ کیسی وحشیانہ اور غیرمہذب گفتگو تھی۔
اور آپ۔۔۔ اور آپ نے اس کو روپے دیے یا نہیں؟ احمد نے پوچھا۔
’’مجھے یاد ہے۔ میں نے اس کو دس روپے دیے تھے۔‘‘ مولوی طفیل احمد نے اپنی خفت اور سراسمیگی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’آپ کی حمیت نے اس کو گوارا کیوں کر کیا؟ اگر آپ خود اس کا بندوبست نہیں کر سکتے تھے یا نہیں کرنا چاہتے تھے تو آپ مجھے لکھ دیتے میں روپے بھیج دیتا۔۔۔ مجھے تو مفصل حالات معلوم نہ تھے۔‘‘
’’میں کیوں لکھتا۔ اس نے تو بعد کو خود لکھا تھا جب کہ وہ اسپتال میں پڑی ہوئی تھی۔‘‘ مولوی طفیل احمد نے طنز کے ساتھ جواب دیا۔
’’میں اپنی نئی شادی میں ایسا محو تھا کہ مجھے خطوں کے پڑھنے کی فرصت کم ملتی تھی۔ مگر ہم تو کوئی اجنبی نہ تھے اورتم کو سکینہ سے کوئی پرخاش نہ تھی۔ تم نے اس کی مدد کیوں نہیں کی۔‘‘ احمد نے جواب طلب کیا۔
’’اب ہمارے خیالات بدل گئے ہیں اور ہمارے معیار میں زمین و آسمان کا فرق ہو گیا ہے۔ اب ہم اسی طرح سوچنے لگے ہیں۔ لیکن اس زمانہ میں ہمارا خیال کچھ اور تھا۔ اب میں شاید اس کو ایک ہزار روپیہ دے دوں۔ لیکن اس وقت دس روپے بھی۔۔۔ دس روپے بھی مفت نہیں دیے تھے۔ اب اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو سارا جسم تھرتھرانے لگتا ہے۔ اب وہ وقت آ گیا کہ ہم ایسے واقعات کو بھول جائیں۔۔۔ دیکھو یہی مسجد ہے۔‘‘ مولوی طفیل احمد اور احمد معمار مسجد کے اندر داخل ہوئے اور اس کی شکستگی اور بوسیدگی کا معائنہ کیا اور پھر باہر نکل آئے۔ احمد نے ایک طرف اشارہ کرکے کہا، ’’مولوی صاحب یہ قبرستان اس سے پہلے تو اتنا خوشنما نہیں معلوم ہوتا تھا۔‘‘ قبرستان مسجد سے کوئی دوبیگہ فاصلہ پر تھا۔ مولوی طفیل احمد نے کہا، ’’ہاں!‘‘ اب کچھ پختہ قبروں کے اضافہ سے اس ویران کی رونق بہت بڑھ گئی ہے۔ لیکن برا ہو گاؤں کے لڑکوں کا۔ کمبخت قبروں کے کتبوں کو مٹا جاتے ہیں۔ آؤ چلو ذرا سکینہ کی قبر دیکھ آئیں۔ اس قبرستان میں اس سے زیادہ حسین قبر کوئی اور نہیں تھی لیکن صرف چند سال میں زمانہ نے اس کو بھی مٹاکر رکھ دیا۔‘‘ احمد کے قدم بےساختہ قبرستان کی طرف اٹھ گئے۔ مولوی طفیل احمد نے قبر کی طرف اشارہ کرکے کہا، ’’وہ سفید صاف ستھری قبر سکینہ کی ہے۔ اس کی لوح سنگِ مرمر کی تھی جس کو گاؤں کے بدذات لڑکوں نے توڑپھوڑ ڈالا۔ یہ قبرمیاں شرافت کی بنوائی ہوئی ہے۔ تم ان کو خوب جانتے ہوگے کہ وہ کتنے بڑے زمیندار ہیں۔ تم بھی کبھی ان کے آسامی رہ چکے ہو۔ تمہارے جانے کے بعد سکینہ کے چاہنے والوں میں یہی ایک شخص ایسا تھا جو واقعی اس کو چاہتا تھا اور جس نے اس کے مرنے کے بعد بھی اپنی محبت کی بلند آہنگی کو اپنی جگہ قائم رکھا۔ میاں شرافت سکینہ کا نام آتے ہی اب بھی بیساختہ روپڑتے ہیں۔‘‘
احمد آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا سکینہ کی قبر کے پاس پہنچا۔ اس کی رفتار سےایک عبرتناک سنجیدگی ٹپک رہی تھی۔ مولوی طفیل احمد نے اس کو محسوس کیا اور اپنی صورت کو سنجیدہ بنا لیا۔ اس وقت فضا میں بھی ایسا سکوت تھا کہ گویا قبرستان کے سکوت نے ساری کائنات پر اپنا تسلط جمالیا ہے، یا پھر خود فضا کا ذرہ ذرہ موت کی دنیا میں پہنچ گیا ہے۔ احمد قبر کو دیرتک عالمِ یاس و عبرت میں دیکھتا رہا۔ مولوی طفیل احمد بھی اس کی نقل کرتے رہے بڑی دیر کے بعد انہوں نے کہا، ’’یہ ابدی نیند ہے، اس نیند سے کوئی کسی کو بیدار نہیں کر سکتا، اب سکینہ کو یہ بھی احساس نہیں ہوگا کہ اس نے بلاوجہ سارے الزامات اپنے سر لے لیے تھے۔ گنہگار دراصل تم تھے احمد، تم نے اس رنڈی سے شادی کرنے کے لیے سکینہ کو طلاق دیا۔۔۔‘‘
’’نہیں! سکینہ سے چھٹکارہ پانے اور اس رنڈی سے شادی کرنے کے لیے طلاق دیا۔‘‘ احمد نے باٹ کاٹ کر جواب دیا۔
’’سکینہ کے ساتھ میری زندگی ضیق میں ہو رہی تھی، اس کا بات بات پر مجھ سے لڑ بیٹھنا میرے تحمل سے باہر تھا۔‘‘
’’خیر‘‘ مولوی طفیل احمد نے اپنی شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس بڑھاپے میں حقیقت کو چھپانے سے کیا فائدہ؟‘‘
’’کیا؟‘‘ احمد نے چونک کر پوچھا۔
’’میاں‘‘ مولوی طفیل احمدنے بے دریغ ہوکر کہا، ’’اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہمارا ماضی کیسا ہی خراب رہا ہو ہماری موجودہ زندگی سے بہتر تھا۔‘‘ یہ کہہ کر مولوی طفیل احمد نے پہلے اپنے اور پھر احمد کے سفید بالوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’بھائی جان اس زمانہ میں تو میں کبھی موت کا خیال بھی دل میں نہیں لایا تھا، مگر اب میں موت کو اس قبر کی صورت میں اپنے روبرو دیکھ رہا ہوں۔ کاش میں اس کو اس کی زندگی میں دیکھ سکا ہوتا، شاید اس حالت میں اس کے کچھ کام آ سکتا۔‘‘
احمد کا دل بیٹھنے لگا، جی کھول کر رونا چاہتا تھا جس طرح کبھی وہ جی کھول کر محبت کرنا چاہتا تھا، اور اس کو یقین تھا کہ یہ آنسو اس کی روح کو سکون بخشیں گے۔ لیکن وہ رونہ سکا۔
اس کی پلکیں نم ہوکر رہ گئیں۔ مولوی طفیل احمد اس کی بغل میں کھڑے تھے۔ احمد کو اس خیال سے شرم آ رہی تھی کہ اس کی کمزوری کو محسوس کرنے والا ایک دوسرا شخص بھی اس کے قریب ہے لیکن وہ مجبور تھا۔ اس کی آواز پھنس رہی تھی، اور وہ نہ چلاکر رو سکتا تھا، نہ اپنے ساتھی سے باتیں کر سکتا تھا۔ آخرکار دونوں مسجد میں واپس آئے۔
آخر کار دو گھنٹے کے بعد جب کہ احمد نے مولوی صاحب کو اپنے ایک شاگرد سے باتوں میں مشغول پایا تو وہ چپکے سے سیدھا پھر قبرستان پہنچاتا کہ سکینہ کی قبر پر روکر کچھ اپنے دل کی بھڑاس نکالے۔ وہ دبے پاؤں قبر کی طرف جا رہا تھا اور پھر پھر کر دیکھتا جاتا تھا کہ کہیں کوئی اس کو دیکھتا نہ ہو، اس نے محسوس کیا کہ قبر کی ٹوٹی ہوئی روح اس کو گھور گھور کر دیکھ رہی ہے اور اس کو پہچاننے کی کوشش کر رہی ہے۔
لیکن احمد رو نہ سکا اس لیے کہ رونے کا وقت نکل چکا تھا۔ وہ بڑی کوشش کے بعد چند آنسوؤں سے اپنی آنکھوں کو صرف چمکا سکا۔ لیکن یہ آنسو پلکوں سے نیچے نہ گر سکے اور پھر اس کے حلق میں آواز پھنسنے لگی۔ دس منٹ تک احمد جی کھول کر رونے کی کوشش کرتا رہا مگر رو نہ سکا۔ آخرکار مایوس ہوکر مولوی طفیل احمد کے پاس مسجد میں واپس آیا اور پھر کبھی جی کھول کر رونے کی کوشش نہیں کی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.