بھیک
کہانی کی کہانی
’’ایک ایسے شخص کی کہانی، جو پہاڑوں پر سیر کرنے کے لیے گیا ہے۔ وہاں اسے ایک غریب لڑکی ملتی ہے، جسے وہ اپنے یہاں نوکری کرنے کا آفر دیتا ہے۔ مگر اگلے دن امید سے لبریز جب وہ لڑکی اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ ڈاک بنگلے پر پہنچتی ہے تو ایک ساتھ اتنے بچوں کو دیکھ کر وہ اسے نوکری پر رکھنے سے منع کر دیتا ہے۔ انکار سن کر لڑکی جب واپس جانے لگتی ہے تو وہ اسے دو روپیے دے دیتا ہے۔‘‘
کیلاش کی لاری پتھورا گڑھ کے خشک بنجر اور تپتے ہوئے پہاڑوں کو ایک درے سے پار کر کے موتی نگر کی وادی میں داخل ہوئی اور داخل ہوتے ہی منظر اور موسم اور مسافروں کا مزاسب کچھ بدل گیا۔ سامنے ایک طرف نندا دیوی اور ترسول کی برف پوش چوٹیاں چمک رہی تھیں اور دوسری طرف ڈھلواں پہاڑوں پر سیب، ناشپاتی اور الوچوں کے باغوں کی ہریالی تھی جو پہاڑوں کے سلسلوں سے زینہ بزینہ اترتی ہوئی نیچے جاکر گھنے درختوں اور نامعلوم تاریکیوں میں گم ہو جاتی تھی۔
جب لاری اسٹینڈ پر پہونچی کیلاش اپنی بہنوں سمیت اترا تو اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے آج کوئی بہت بڑا تہوار ہے۔ جسے پہاڑ اور ان کی چوٹیاں درخت اور چڑیاں۔ آسمان اور سورج یہ سب کے سب انسانوں کے ساتھ مل جل کر منار ہے ہیں۔ اس خوش گوار منظر میں کیلاش ایسا کھویا کہ اسے اپنی سخت بیماری کی وجہ سے زندگی کی طرف سے جو مایوسی تھی وہ بالکل دور ہو گئی اور ایسا محسوس ہونے لگا جیسے آسمان کو چومنے والے پہاڑ اشاروں میں کہہ رہے ہیں کہ ہماری شاندرا صاف و شفاف اور دلکش دنیا میں بیماری اور مصیبتوں کا کیا کام۔ لاری اسٹینڈ سے ایک سڑک پر بل کھاتی ہوئی جھومتی جھامتی آبادی کی طرف جاتی تھی۔ اس نے کیلاش کو ایسا لبھایا کہ وہ نوکر سے جو اسباب کو اٹھو ان میں لگا ہوا تھا یہ کہہ کر کہ ’’میں ڈاک بنگلے کی طرف چلتا ہوں روانہ ہو گیا۔ راستہ بہت دلکش تھا اور ہر موڑ قدرت کی نت نئی فیاضیوں سے مالامال تھا۔
کچھ دور نکل کر کیلاش ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ ایک پیالی چائے پی کچھ دیر سامنے کے منظر سے لطف اٹھایا اور پھر آگے کی طرف چل کھڑا ہوا۔ راستے میں ایک باغ میں ایک آدمی تازے سیبوں کو چیر کے بکس میں بند کر رہا تھا۔ اس کے پاس دو مسافر کھڑے تھے۔ جن میں ایک دس گیارہ برس کی خوبصورت سی لڑکی تھی۔ وہ دونوں پھل والے سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔
کیلاش ادھر دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں پاس سے ایک آواز آئی۔ بابوجی۔ تھرماس میں لے چلوں؟‘‘ کیلاش نے مر کر دیکھا۔ بارہ تیر برس کی دبلی پتلی لڑکی کھڑی تھی اور بڑی بڑی مظلوم اور مایوس آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔
تھرماس واقعی کیلاش کو بھاری معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے وہ لڑکی کے حوالے کر دیا اور پرا اس فیاضی سے جو قدرت نے اس وادی کے ساتھ دکھلائی تھی، پوچھنے لگا۔
’’کہاں رہتی ہو؟‘‘
لڑکی نے نیچے کی گھنی تاریکیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
’’وہاں بہت نیچے۔‘‘
’’ماں باپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’مر گئے۔‘‘
’’تم کیا کرتی ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بچہ کچھ نہیں کرنے دیتا۔‘‘
’’بچہ۔ کیا تمہارے بچہ بھی ہے؟‘‘
لڑکی اس بدگمانی پر ہنس پڑی اور کہنے لگی۔
’’میرا دو برس کا بھائی ہے جو بہت دق کرتا ہے۔ ہر وقت کھانا مانگتا ہے۔ رات کو نہ وہ سونے دیتا ہے اور نہ ڈر۔۔۔‘‘
ڈر! اس وادی میں کس چیز سے؟‘‘
’’میری کٹھریا کا دروازہ ٹوٹا ہوا ہے۔ رات بھر میں ڈرتی رہتی ہوں کہ کوئی آکر ہم کو کھانہ جائے۔‘‘
کیلاش کے دل میں دیا ابل پڑی۔
’’نوکری کرےگی؟‘‘
’’کوئی رکھے تو کیوں نہ کروں۔ میں تو بہت محنت سے اس کی سیوا کروں گی۔‘‘
’’اچھا میں رکھوں گا تجھے بھی اور تیرے چھوٹے بھائی کو بھی۔‘‘
لڑکی حیرت زدہ ہو کر کیلاش کو دیکھنے لگی۔
’’بابوجی، سچ!‘‘
’’ہاں سچ، بالکل سچ۔‘‘
لڑکی تھوڑی دیر تک حیرت زدہ رہی۔ پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ کیلاش کے پاؤں پر گر پڑی۔ اور شکر گزاری سے بابوجی بابو جی کرنے لگی۔ اس کے منہ سے اور کچھ نہ نکلا۔
رجنی خوشی کے مارے رات کو سو نہ سکی۔ ذرا ذرا دیر کے بعد اس کی آنکھ کھل جاتی تھی اور ہر بار وہ کروٹ لے کر ٹوٹے کواڑوں کی درازوں سے جھانکتی تھی کہ پہاروں کے اوپر آسمان پر صبح کی سفیدی تو نہیں نظر آ رہی۔ آج اس کا روزانہ والا خوف کہ کہیں راٹ کو کوئی بھیانک شکل والی چیز اس کی کوٹھڑی کے ٹوٹے پھوٹے دروازے سے گھس کر اس کو اور اس کے سب بھائی بہنوں کو سوتے میں کھانہ جائے۔ دور پہاروں میں چھپ گیا تھا۔ اس کے سامنے سکھ سے بھری ہوئی صبح تھی اور پھر عیش و آرام سے بھرے ہوئے دن اور رات۔
رجنی نے اپنے پانچوں بھائی بہنوں پر نظر ڈالی جو کمبلوں کے گودڑ کے نیچے ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے بےخبر سو رہے تھے۔
رجنی سوچ رہی تھی کہ ذرا دیر میں صبح ہو جائےگی اور پھر اپنے بھائی بہنوں کو لے کر پانچ سو فٹ کی چڑھائی چڑھ کر بابوجی کے پاس پہنچ جاؤں گی۔ پھر کیا ہے۔ پھر روٹیاں ملیں گی۔ پہننے کو بھی ملےگا اور رات کو اوڑھنے کو بھی اور ڈر سے بہت دور کسی کوٹھڑی میں سونے کو جگہ ملےگی۔
آخر صبح قریب آ ہی گئی اور اس کے دو سال کے دبلے پتلے سوکھے ساکھے بھائی للو نے چیخ مار کر رونا شروع کر دیا۔ آج رجنی نے سستی نہیں دکھلائی اور جلدی سے اسے پیشاب کرا لیا۔ ورنہ ہوتا تو یہ تھا کہ وہ یوں ہی دن چڑھے تک پڑا رہتا تھا اور پھر جب اس کا بستر رجنی کو بھیگا ہو املتا تھا تو وہ للو کو دھنک کر رکھ دیتی تھی۔ آج رجنی نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ اسے پیشاب کرا لیا بلکہ اسے پیار بھی کیا اور بہلایا بھی۔ یہ چیز للو کے لئے کچھ اتنی عجیب سی خوشی لے کر آئی کہ وہ رات بھر کی بھوک کو بھول گیا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی بولی میں باتیں کرنے لگا۔
جس وقت موتی نگر کی پچھم کی چوٹیوں پر دھوپ کی پہلی چمک نظر آئی ہے اس وقت تک چھ بچوں کا یہ قافلہ سو فٹ پہاڑ پر چڑھ چکا تھا اور بہت تھک چکا تھا۔ ہوا ٹھنڈی تھی۔ تیز تھی اور مخالف تھی اس وجہ سے بچوں کو خالی پیٹ اوپر چڑھنے میں بہت دشواری ہو رہی تھی۔ للو کئی مرتبہ رو چکا تھا اور رجنی کے ہاتھ سے اس پر پٹ بھی چکا تھا، رجنی نے ذرا دیر اسے گود میں بھی لیا تھا۔ لیکن بارہ برس کی لڑکی جسے پیٹ بھر کھانا نہ ملتا ہو کیسے دو سال کے بچے کو لے کر دور تک جا سکتی تھی اس لئے للو چل سکے یا نہ چل سکے اسے چلنا تو پڑےگا ورنہ رجنی مار مار کر راستے ہی میں ختم کر دےگی۔ اس وقت تو وہ کچلی ہوئی ناگن کی طرح بپھری ہوئی تھی۔ اسے سخت کوفت تھی، یہ دو سال کا ہڈیوں کا ڈھانچہ میں جہاں جاؤں یا جو کام کروں میری راہ میں حائل رہتا ہے۔ اب دیکھو اس وقت عیش و آرام کی دنیا صرف چار سو فٹ اوپر ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو کب کی وہاں پہنچ چکی ہوتی۔
رجنی کا غصہ دیکھ کر کلو جو للو سے دو سال بڑا تھا اور منی جو چار سال بڑی تھی سہمے ہوئے تھے اور ہانپ ہانپ کر ایک ایک قدم آگے بڑھ رہے تھے۔ البتہ تلسی اور رامو، رجنی کی طرح تازہ دم تھے بلکہ ان دونوں نے بھی للو کو باری باری گود میں ذرا ذرا دیر کے لئے اٹھا لیا تھا۔
اس طرح چھوٹے موٹے انسانوں کا یہ چھوٹا سا قافلہ ڈانٹ اور مار، خوف اور آنسو، تھکاوٹ اور ہانپنے، امیدوں اور تمناؤں کے ساتھ پچاس فٹ اوپر چڑھ گیا۔ اس جگہ رامو کو ایک چشمے کے پاس پرا ہوا ایک داغی سیب مل گیا۔ لیکن وہ ابھی منہ تک نہیں لے جانے پایا تھا کہ رجنی نے جھپٹ کر اسے چھین لیا اور دانت سے اس کا ایک بڑا سا ٹکڑا کاٹ کر للو کو دیا۔ اور پھر باقی کے دو ٹکڑے کرکے کلو اور منی کو۔
کلو او رمنی سیب کا ٹکڑا کھا کر، چشمے کے پاس پڑا ہوا ایک داغی سیب مل گیا۔ لیکن وہ ابھی منہ تک نہیں لے جانے پایا تھا کہ رجنی نے جھپٹ کر اسے چھین لیا اور دانت سے اس کا ایک بڑا سا ٹکڑا کاٹ کر للو کو دیا اور پھر باقی کے دو ٹکڑے کر کے کلو اور منی کو۔
کلو اور منی سیب کا ٹکڑا کھا کر، چشمے سے پانی پی کر تازہ دم ہو گئے اور باتیں کرنے گلے۔
کلو، ’’اوپر پتا اور ماں ملیں گی۔‘‘
منی، ’’نہیں۔۔۔ الو۔۔۔ وہ نہیں۔۔۔ وہ تو مر گئے۔‘‘
کلو، ’’جو مر جاتے ہیں کیا وہ اوپر بھی نہیں ملتے؟‘‘
منی، (بہت سنجیدگی سے) ’’وہ کہیں نہیں ملتے۔ ہم لوگ ایک اور بابوجی کے پاس جا رہے ہیں جو پتاجی کی طرح روٹی دیں گے۔
کپڑے دیں گے اور اوڑھنے کو دیں گے۔‘‘
ان دونون کی باتیں سن کر نہ جانے کیا ہوا کہ رجنی پگھل سی گئی۔ اس نے ان دونوں کو اور پھر للو کو پیار کیا اور کہا کہ ’’اب دھیرے دھیرے اٹھتے بیٹھتے چلیں گے۔ پھر ڈھارس دینے لگی کہ اوپر پہنچتے ہی بہت سی روٹیاں ملیں گی جن میں گیہوں کی بھی ہوں گی۔ گرم کرتے اور پیجامے ملیں گے، چائے ملےگی، سیب ملیں گے، پھر بابوجی کے ساتھ ہم لوگ ان کے دیس چلے جائیں گے۔ جہاں بہت آرام سے رہیں گے۔‘‘
رجنی جس نے آج تک اس وادی کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا تھا پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف دیکھنے لگی اور سوچنے لگی کہ اس پار کی دنیا کیسی ہوگی مگر جیسی بھی ہو، وہاں روٹیاں ہوں گی، کرتے پیجامے ہوں گے اور ایسے گھر ہوں گے جن میں ڈر نہ لگتا ہوگا۔
رجنی اب اپنے قافلے کو لے کر مزے مزے اوپر چڑھنے لگی جتنا جتنا اوپر چڑھتی جاتی اس کی خوشی بڑھتی جاتی۔
رجنی کو معلوم تھا کہ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ پہاڑوں میں گھومنے والے دولتمند کسی پہاڑی مرد یا عورت کو رکھ کر اپنے ساتھ میدان میں لے جاتے ہیں جہاں نہ برف پڑتی ہے نہ بھوک ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات دور دور اس کے قصور میں نہ تھی کہ میں بھی ان خوش نصیبوں میں ہو سکتی ہوں اور میرے ساتھ میرے پانچ بھائی بہن بھی۔
سورج اوپر چڑھ رہا تھا اور رجنی بھی اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ اوپر چڑھ رہی تھی۔ آخر ڈاک بنگلہ کی سرخ چھت نے اپنی جھلک دکھا ہی دی۔
کیلاش چائے پی رہا تھا اور کھڑکی سے صاف ستھری نندا دیوی اور اس کے نیچے کے عظیم الشان پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا کہ اس کے نوکر نے آ کر خبر دی کہ
’’کل والی لڑکی آئی ہے۔‘‘
’’اور اس کا بچہ بھی؟‘‘
’’ایک چھوڑ پانچ پانچ بچے ساتھ ہیں۔‘‘
’’پانچ پانچ۔‘‘
نوکر۔ ’’جی حضور!‘‘
کیلاش نے باہر آکر دیکھا تو رجنی کھڑی تھی اور اس کے گرد بہت سے چھوٹے بڑے میلے کچیلے ، چپڑے چندھے بچے، ناک سے سڑ سڑ کر رہے تھے اور کیچڑ سے لت پت آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
کیلاش نے رجنی کے پاس جا کر سختی سے جواب طلب کیا۔
’’یہ سب کون ہیں؟‘‘
رجنی کیلاش کو دیکھ کر اتنی خوش ہوئی کہ اس نے اس کی سختی کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی اور چلا کر کہنے لگی۔
’’میں ان سب کو لے آئی۔ اب یہ سب آپ کے پاس رہیں گے۔ یہ منی ہے، یہ للو ہے، وہ رامو ہے، وہ کلو ہے، وہ تلسی ہے۔‘‘
کیلاش، ’’سب تیرے بھائی ہیں؟‘‘
رجنی، جی ہاں، دو بھائی ہیں اور دو بہنیں ہیں۔
رجنی ذرا صاف ستھری تھی اور اس کی صورت میں ایک کشش تھی لیکن بچے تو سڑی گلی چیزوں کا ڈھیر معلوم ہوتے تھے۔ ان کو دیکھ کر کیلاش کا جی متلانے لگا اور کل والی رومانی فیاضی جو رات گزر جانے سے باسی ہو چکی تھی حقیقت پسندی سے بدل گئی اور کیلاش سوچنے لگا کہ رجنی کے ساتھ ایک بچہ ہوتا دو ہوتے تو ممکن تھا، لیکن اتنوں کو کیسے پالا جا سکتا ہے؟ یہ سب ہمارے چھوٹے سے گھر میں کیسے رہیں گے ان کو کھلایا اور پہنایا کہاں سے جائےگا؟ پھر یہ بہتی ہوئی ناکیں، یہ کیچڑ بھری آنکھیں، یہ کوئلہ ایسے ہاتھ پاؤں، یہ بو اور میل۔ کیلاش کی بہنیں بھی باہر نکل آئی تھیں کہ ہم بھی ذرا بھیا کے مہمانوں کو دیکھیں۔
وہ بولیں،
’’بھیا ان سب کو لے چلوگے؟‘‘
کیلاش یہ سوال سن کر جھنجھلا گیا اور رجنی سے کہنے لگا۔
’’تونے کل کیوں نہیں بتلایا کہ تیرے ساتھ اتنی بڑی فوج ہے سب کو میں کہاں رکھ سکتا ہوں؟‘‘
یہ سن کر رجنی پر بجلی گر پڑی۔ اتنی بڑی مایوسی کا سامنا اس نے زندگی میں پہلی بار کیا تھا۔ اس کا چہرہ بالکل سوکھ گیا اور آنکھیں اندر ڈوب گئیں مگر منہ سے کچھ نہ نکل سکا۔ اس کے سب بھائی بہنوں کا بھی یہی حال ہوا۔ کلو تو پھوٹ پھوٹ رونے لگا۔
رجنی نے اپنی گھنونی فوج کو نفرت بھری آنکھوں سے دیکھا۔ ایسی نفرت جس کا تقاضا یہ تھا کہ ان سب کو مار ڈالو یا خود مر جاؤ۔
پانچ منٹ کے اندر اندر یہ فوج ناکامی اور نامرادی کو اپنے پید دامنوں میں لے کر پسپا ہوئی لیکن کیلاش کے لئے آسان نہ تھا کہ ان کو یوں رخصت کرتا۔ اس کی دیا جو مر گئی تھی پھر کراہنے لگی اور پکارنے لگی کہ کچھ تو کرو۔ اس پکار سے نجات پانے کے لئے کیلاش نے رجنی کو پکارا اور دو رویئے اس کے ہاتھ میں رکھ دئیے۔
دو روئیے۔ اس سے بہت کچھ خریدا جا سکتا ہے، رجنی اپنی فوج کو لے کر بازار کی طرف بھاگی اور ایک دوکان کے سامنے سب کو پوریاں کھانے اور کھلانے لگی۔ پہلے آٹھ آنے کی پوریاں لیں، پھر آٹھ آنے کی اور لیں، پھر چار آنے کی اور لیں، پھر اور چار آنے کی اس طرح دونوں روپئے ختم ہو گئے۔ لیکن نہ بھوک گئی اور نہ کھانے کی حسرت۔
دوپہر کے بعد یہ قافلہ خالی ہاتھ نیچے کی طرف تھکے دل اور تھکے پاؤں کے ساتھ اترنے لگا اور اس طرح کہ بیٹھ گیا تو اٹھنے کی ضرورت ہی نہ محسوس کی۔ صبح جن تاریکیوں سے نکل کے آیا تھا۔ شام کو ان ہی کی طرف جا رہا تھا۔ سورج بھی ڈوبتا جا رہا تھا اور وہ لوگ بھی اترتے جا رہے تھے مگر بالکل خاموشی سے، نہ رونا، نہ ڈانٹنانہ اظہار حسرت نہ ڈھارس۔ گویا یہ سب بچے نہیں بوڑھے تھے اور وہ بھی ہڈی چمڑے کے نہیں، گودڑ کے بنے ہوئے۔ صرف للو دو ایک بار ر ویا مگر رجنی کے مارنے نے اس کی بھی آواز بند کر دی۔ سورج ڈوبنے پر یہ لوگ اسی اپنی پرانی کوٹھری میں پہنچے جہاں بھوک تھی اور سردی تھی، خوف تھا اور ان تینوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ پہنچتے ہی تھکی ہوئی تلسی نے آہستہ سے کہا۔ ’’بھوک لگی ہے۔ پھر رامو نے بھی کہا، پھر منی اور کلو نے بھی۔۔۔ دل کی امیدوں کے ساتھ پیٹ کی پوریاں بھی غائب ہو چکی تھیں۔
رجنی بچوں کو اندھیرے اور بھوک اور ڈر کی آغوش میں چھوڑ کر پڑوسیوں کی دیا کا امتحان کرنے نکل کھڑی ہوئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.