سبز پری
شاہد شاعر تھا، ادیب تھا، نقاد تھا، فلسفی تھا، غرض کہ بہت کچھ تھا لیکن آج تک وہ اپنے کو منظر عام پر نہیں لایا، دنیا کو نہیں معلوم ہوسکا کہ کسی گوشہ میں کوئی شاہد بھی ہے؟ جو میر و درد کے انداز کے شعر کہتا ہے، جو انگریزی، اردو، فارسی اور ہندی کے شعرا پر بالکل انوکھی تنقیدیں کیا کرتا ہے، جو کانٹ اور ہیگل کے فلسفہ کی گتھیاں بات کی بات میں سلجھا کر رکھ دیتا ہے۔ شاہد کو جاننے والے شاہد سے مرعوب تھے۔ میرا اس کا ایم۔ اے۔ تک ساتھ رہا، وہ مجھے بہت عزیز رکھتا تھا۔ ایم-اے کے بعد میں برسرکار ہو گیا اور ایک مدت تک مجھے شاہد کی کوئی ٹھیک خبر نہیں ملی۔ اتنا جانتا تھا کہ اُس نے کہیں نوکری نہیں کی۔ کبھی سنتا کہ آج کل گھر پر بیٹھا مطالعہ میں مصروف ہے، کبھی معلوم ہوتا کہ مبلغین اسلام کی جماعت میں شریک ہو گیا ہے، کبھی سنتا کہ بنارس میں ترک اسلام کیے ہوئے اور قشقہ لگائے بیٹھا ہے، کبھی کیمیا کا سودا ہوتا اور تانبے کو سونا بنانے لگتا۔ بہرحال اس نے نہ جانے کتنی کروٹیں بدلیں مگر کسی کروٹ اس کو قرار نہ ملا۔ کچھ دنوں سے یہ سن کر مجھے تشویش تھی کہ شاہد کے دماغ میں کچھ فتور کی علامتیں رونما ہو چکی ہیں۔ میں اسی فکر میں تھا کہ کسی طرح چل کر اس کو دیکھ آؤں لیکن عرصہ تک اس کی نوبت نہیں آئی۔
میں ایک ضرورت سے رخصت لیے ہوئے اپنے گاؤں پر موجود تھا۔ ایک دن شام کو میں سڑک پر ٹہل رہا تھا کہ دور سےایک یکہ آتا ہوا دکھائی دیا۔ قریب آکر یکہ رُکا اور شاہد اس پر سے کود پڑا۔ میرا دل مارے خوشی کے اچھلنے لگا۔ میں نے دوڑ کر اس کو لپٹا لیا، لیکن شاہد کے تپاک میں فرط محبت کے ساتھ دیوانگی کا ایک شائبہ بھی تھا، اس نے مجھے اس زور سے لپٹایا کہ میری پسلیاں دکھنے لگیں۔ میں نے اس کی صورت کو غور سے دیکھا تو وہ پاگل تو نہیں مگر کسی قدر مخبوط ضرورمعلوم ہوتا تھا۔ شاہد نے میری طرف دیکھ کر کہا، ’’کیوں جی احمد! کیا تم بھی مجھ کو پاگل سمجھتے ہو؟‘‘ شاہد کی مسترحم آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ میں نے جلدی سے جواب دیا، ’’تم تو واقعی پاگلوں کی سی باتیں کرتے ہو، آخر تم کو پاگل سمجھنے کی وجہ؟‘‘ شاہد نے ایک آہ سرد بھر کر کہا، ’’آج پورے ڈیڑھ سال کے بعد یہاں آنا ہوا، نہ جانے کیوں میرا جی چاہا کہ احمد کے گاؤں پر چلو اور جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ آج کل احمد رخصت پر ہیں تو میں بے تامل چل کھڑا ہوا۔ ہاں جی احمد! تم کونہیں معلوم کہ اب سے کئی پشت پہلے میرے مورثوں نے اس جوار میں حکومت کی ہے۔ یہاں سےتھوری دور پر کوئی گاؤں سروارؔ ہے، وہی ہمارا مسکن رہ چکا ہے۔‘‘ یہ خبر میرے لیے بالکل نئی تھی۔
رات کے وقت کھانا کھانے کے بعدمیں نے شاہد سے کہا، ’’شاہد! تمہاری ساری بے چینیوں کا سبب صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ تم نے اب تک کسی کی محبت نہیں کی۔ اگر تم کسی کی محبت نہیں کر سکتے تو کم از کم اب کسی سے شادی کر لو اور اطمینان سے زندگی کے دن کاٹ دو۔‘‘
شاہد نے طنز کے ساتھ ہنس کر کہا، ’’تم کیا جانو کہ میں کسی کی محبت کرتا ہوں یا نہیں؟‘‘
میں نے حیرت سے اس کو دیکھ کر پوچھا، ’’مجھے تو اب تک نہیں معلوم کہ تم کسی کی محبت بھی کرتے ہو۔ آخر وہ ہے کون؟‘‘
شاہد نے حسرت بھرے لہجہ میں کہا، ’’کیا بتاؤں‘‘
مرا فروخت محبت ولے ندا نستم
کہ مشتری چہ کس است و لہائے من چنداست
میں نے عاجز ہوکر کہا، ’’ساری عمر اسی شاعری میں بسر کر دوگے۔‘‘ شاہد کو جلال آ گیا، اس نے تیوریاں چڑھاکر کہا، ’’میں اسی لیے کسی کو اپنے دل کی حالت سے آگاہ نہیں کرتا۔ لیکن خیر! آج میں تم کو بتاہی دیتا ہوں کہ میں کس کو چاہتا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ تم مجھ کو فاترالعقل سمجھوگے، مگر تمہارے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے۔ میں جب اب سے دو سال پہلے تمہارے ساتھ تفریح کے لیے علی گڑھ سے یہاں آیا تھا تو میں نے اُس کو یہاں خواب میں دیکھا اور اُس کی صورت کادیوانہ ہو گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ہے اور کہاں ہے۔ میں اس کو ’’سبزپری‘‘ کہتا ہوں۔ اس لیے کہ وہ سبز لباس میں تھی۔ جب میں بہت بیتاب ہوتا ہوں تو وہ مجھے خواب میں اپنی شکل دکھا جاتی ہے، مجھے اس کے وجود کا اتنا ہی یقین ہے جتنا اپنے اور تمہارے وجود کا۔ میں اس کی جستجو میں نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھان چکاہوں اور۔۔۔‘‘
شاہد خاموش ہو گیا، وہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ شاہد نے مجھ کو اس کے سننے کا اہل نہیں سمجھا۔ مجھے اب یقین ہو چلا کہ اس کے حواس میں کچھ نہ کچھ خلل ضرور ہے۔
شاہد صبح کو تو میرے ساتھ سیر کو نکلتا تھا، لیکن شام کے وقت وہ تنہا نہ جانے کہا ں کہاں مارا مارا پھرا کرتا تھا۔ رات کو آٹھ بجے سے پہلے وہ کبھی مکان پر نہیں آیا، قیافہ سے معلوم ہوتا تھا کہ کسی خاص خبط میں مبتلا ہے۔ مگر وہ نہ مجھ سے کچھ کہتا تھا اور نہ شام کی صحرا نوردیوں میں کبھی مجھ کو ساتھ رکھتا تھا۔ ایک ہفتہ اس کو آئے ہوئے ہوا ہوگا، ایک روز اس نے کہا، ’’احمد! آج شام کو تم بھی میرے ساتھ چلو، میں تنہا سبزپری کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گیا ہوں، اب تم بھی اس تلاش میں میرا ساتھ دو۔ میں نے رات بھر اس کو خواب میں دیکھا ہے۔‘‘ میں نے شاہد کے ساتھ رہنا ضروری سمجھا، اس کی حالت مجھ کو نازک معلوم ہوئی۔
شاہد کے منھ سے سروارؔ کا نام سن کر مجھے سروارؔ سے دلچسپی ہو گئی تھی۔ اس لیے میری تحریک سے یہ طے پایا کہ سروارؔ کی طرف چلا جائے جو میرے گاؤں سے اتر دو میل پر تھا۔
گرمی کا موسم تھا، تقریباً چھ بجے شام کو ہم لوگ ’’کودوا نالہ‘‘ پر پہنچے۔ ’’کودوانالہ‘‘ ضلع بستی کی مشہور چیز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’مہاتما بدھ‘‘ نے اسی کو پاکر کے اپنے شاہی لباس، گھوڑے اور خدمت گار کو ہمیشہ کے لیے رخصت کر دیا تھا۔ اور یہاں سے باقاعدہ تپسیّا کی زندگی شروع کر دی تھی۔
’’کودوا‘‘ کے اس پار سروار کی سرزمین تھی۔ نالہ میں پانی زیادہ تھا۔ میں یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ کسی طرف نالہ پایاب ہو تو ہم لوگ وہاں اس کو عبور کریں کہ اتنے میں شاہد یہ کہتا ہوا نالہ میں کود پڑا۔ ’’آخر میں پاگیا، وہ دیکھو میری سبز پری کھڑی مجھ کو بلا رہی ہے۔‘‘ میری نظر اٹھ گئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک بڑی پرانی دیہاتی وضع کی عمارت سامنے ہے اور اس کے دروازہ پر ایک سبزپوش عورت کھڑی ہاتھ کے اشارے سے کسی کو بلا رہی ہے۔
شاہد نالہ کو تیر چکا تھا اور اب اس عورت کی طرف اس طرح بیتابانہ دوڑا جا رہا تھا جس طرح ’’کوہ ندا‘‘ کے گردنشیں ’’یااخی‘‘ کی آواز پر بے اختیار دوڑتے تھے۔ میں نے مشکل سے چند لمحے تک اس منظر پر غور کیا ہوگا کہ دفعتاً ایک ناقابل بیان خطرہ کے احساس سے مغلوب ہوکر میں بھی نالہ میں کود پڑا اور شاہد کے پیچھے دوڑا۔ لیکن شاہد مجھ سے بہت پہلے اس عورت تک پہنچ چکا تھا اور وہ عورت اس کو لے کر مکان کے اندر غائب ہو گئی تھی۔ میں نے دروازہ کو کھلا ہوا پایا اور بغیر کسی قسم کی ہچکچاہٹ کے مکان کے اندر گھس گیا۔ مکان بہت وسیع تھا۔ میں نے اس کا ایک ایک کونہ چھان مارا، نہ شاہد کو پایا اور نہ کسی اور متنفس کو۔ البتہ میں جس طرف جاتا تھا ادھر سے ایک الو نکل کردوسری طرف کو اڑ جاتا تھا، یا کوئی لومڑی ادھر سے ادھر بھاگ جاتی تھی۔ اندھیرا شروع ہو چلا تھا۔ میرے دل میں ایک قسم کی ہیبت پیدا ہوئی۔ آخرکار میں اس پراسرار عمارت سے باہر نکلا اور اپنے مکان کا راستہ لیا۔ راستہ میں ایک بڈھے سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ عمارت کوئی ڈیڑھ سو برس سے یوں ہی کھڑی ہوئی ہے اور اس میں بھوت، پریت، جنات اور پریوں کے سوا کوئی نہیں رہتا۔
اس واقعہ پر میں جس قدر غور کرتا تھا اتنا ہی میرا دماغ معطل ہو رہا تھا۔ اگر کسی ماہر نفسیات سے پوچھا جائے تو وہ اس کو ایک ’’اجتماعی طیف‘‘ (Collective Hallucination) بتا دےگا۔ لیکن یقین مانیے میں بھی فلسفہ اور نفسیات میں دخل رکھتا ہوں۔ میں نے بھی اس واقعہ کو یہی سمجھ کر ڈالنا چاہا۔ لیکن اس سے میری تسکین نہ ہوئی اور پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دوسرے دن شاہد کی لاش ’’کودوا‘‘ میں تیرتی ہوئی پائی گئی۔
عام طور پر مشہور ہے کہ شاہد نے خودکشی کر لی اور ڈوب کر مرا۔ میری ہمت نہ ہوئی کہ میں لوگوں کے اس خیال کو رد کرنے کی کوشش کروں اس لیے چپ ہو رہا۔
بہت دنوں بعد میری ایک دوست سے ملاقات ہوئی جس کانام نسیم تھا۔ ان کو’’روحانیت‘‘ میں بڑا دخل تھا۔ میں نےان سے اس واقعہ کو من و عن بیان کیا تو انھوں نے کہا، ’’ایک دن میں تمہارے گاؤں پر چلنا چاہتا ہوں اور ایک رات اس مکان میں بسر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس عقدہ کو حل کر لوں گا۔‘‘ میں فوراً راضی ہو گیا۔
نسیم ایک رات اس مہیب مکان میں رہا۔ صبح کو ہنستا ہوا آیا اور کہنے لگا، ’’میں نے رات اس سبزپری سے خوب باتیں کیں، اس نے مجھے تمام راز سے آگاہ کر دیا اور وہ مختصراً یہ ہے،
شاہد کے مورث اعلیٰ اورنگ زیب کے زمانہ سےاس گردونواح میں راج کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ جائدادان کے قبضہ سے نکل کر دوسروں کے ہاتھ میں جانے لگی، یہاں تک کہ شاہد کے دادا کو یہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ یہ مکان اب سے آٹھ پشت پہلے کی عمارت ہے، جس نے اس کو بنوایا اس کا نام رشید تھا۔ شاہد براہ راست رشید کی اولاد میں سے تھا۔ رشید اپنی پھوپھی کی لڑکی بلقیس پر فریفتہ تھا، بلقیس بھی اس کو پوجتی تھی، لیکن مرد اور عورت کا فرق آخر کار نمایاں ہو گیا۔ رشید نے دوسری عورت سے محبت شروع کی اور پھر اس سے شادی کرکے اس مکان میں رہنے لگا۔ لیکن بلقیس کے دل سے رشید کی محبت نہیں گئی، وہ ارادہ کی پور ی تھی، اس نے سارے خاندان کی مخالفت کی۔ ہمسایوں کی مطعون بنی مگر شادی نہیں کی اور مرتے دم تک رشید کا غم لیے رہی۔ شاہد کی ’’سبزپری‘‘ یہی بلقیس ہے۔ رات اس کی کیفیت قابل دید تھی۔ اس کا بیان ہے کہ یہ غم اب تک اس کی روح سے لپٹا ہوا ہے، اور اسی غم کی بدولت اس کا رشتہ اس دنیا ئے عناصر سے قائم ہے۔ رشید تو اس کا ہو نہیں سکتا اس لیے کہ وہ بلقیس کے ساتھ دغا کر چکا تھا اور اس کی روح ناپاک ہو چکی تھی۔ بیچاری کو زیر خاک بھی اسی طرح خروش میں مبتلا رہنا پڑا۔ یہاں تک کہ شاہد پیدا ہوا۔ شاہد نے ہو بہو رشید کی صورت پائی تھی۔ بلقیس نے اس وقت تک اس کو مبتلا کرنا مناسب نہیں سمجھا جب تک کہ شاہد میں خود عشق و حسن شناسی کا ذوق نہ پیدا ہو جائے۔
جب وہ وقت آ گیا تو اس نے شاہد کو اپنی محبت میں گرفتار کرکے اپنی خون شدہ حسرتوں کو آسودہ کرنے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی۔
رات بلقیس کے ساتھ تمہارے شاہد سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ بہت خوش و خرم نظر آ رہا تھا اور ہم لوگوں کو اس کے لیے پریشان نہ ہونا چاہیے۔‘‘
نسیم سے یہ روداد سننے کے بعد میں نےرفتہ رفتہ آس پاس کے دیہاتوں میں اس کی تحقیق شروع کی اور آخرکار اس نتیجہ پر پہنچا کہ نسیم نے جو کچھ بیان کیا وہ تاریخی اعتبار سے بھی صحیح ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.