تیسری جنس
کہانی کی کہانی
اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور ایک غریب ماں باپ کی بیٹی کی کہانی جو ایک بہتر زندگی کی تلاش میں تھی۔ وہ تحصیلدار صاحب کے زیر سایہ پلی بڑھی تھی۔ جوانی کے ابتدائی ایام میں اس کی شادی ہوئی تو کچھ عرصہ شوہر کے ساتھ رہنے کے بعد اس نے اسے بھی چھوڑ دیا، پھر تحصیلدار صاحب کی موت ہو گئی۔ بعد میں ایک مردوں جیسی قدوقامت کی عورت اس کے گھر میں رہنے لگی اور لوگوں کے درمیان ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔
مدی کا اصل نام احمدی خانم تھا۔ تحصیلدار صاحب پیار سے مدی مدی کہتے تھے، وہی مشہور ہو گیا۔ مدی کا رنگ بنگال میں سو دو سو میں اور ہمارے صوبہ میں ہزار دو ہزار میں ایک تھا۔ جس طرح فیروزے کا رنگ مختلف روشنیوں میں بدلا کرتا ہے اسی طرح مدی کا رنگ تھا۔
تھی تو کھلتی ہوئی سانولی رنگت جس کو سبزہ کہتے ہیں۔ مگر مختلف رنگ کے دوپٹوں یا ساڑیوں کے ساتھ مختلف رنگ پیدا ہوتا تھا۔ کسی رنگ کے ساتھ دمک اٹھتا تھا کسی رنگ کے ساتھ ٹمٹماہٹ پیدا کرتا تھا۔ بعض اوقات جلد کی زردی میں سبزی ایسی جھلکتی تھی کہ دل چاہتا تھا کہ دیکھا ہی کرے۔ شمع کی روشنی میں مدی کی رنگت تو غضب ہی ڈھاتی تھی۔ کبھی آپ نے دوسرے درجے کی مدقوق کو دیکھا ہے۔ اگر بیماری سے قطع نظر کیجیے تو رنگت کی نزاکت ویسے ہی تھی۔ آنکھیں بڑی نہ تھیں مگر جب نگاہ نیچے سے اوپر کرتی تھی تو واہ واہ۔ معلوم ہوتا تھا مندر کا دروازہ کھل گیا، دیبی جی کے درشن ہو گیے۔ مسکراہٹ میں نہ شوخی نہ شرارت، نہ بنوٹ کی شرم نہ لبھاوٹ کی کوشش۔ لکڑی لوہے کے قلم کو کیسے موقلم کردوں کہ آپ کے سامنے وہ مسکراہٹ آ جائے۔
بس یہ سمجھ لیجیے کہ خدا نے جیسی مسکراہٹ اس کے لیے تجویز کی تھی وہی تھی۔ مدی اپنی طرف سے اس میں کوئی اضافہ نہیں کرتی تھی۔ اس کے کسی انداز میں بنوٹ نہ تھی۔ ہاتھ پاؤں، قد، چہرے کے اعضا سب چھوٹے چھوٹے مگر واہ رے تناسب۔ آواز، ہنسی، چال ڈھال ہر چیز ویسی ہی۔ میں مدی سے بہت بے تکلف تھا مگر عشاق میں کبھی نہیں تھا اور جہاں تک میں جانتا ہوں کوئی اور بھی نہیں سنا گیا۔ ایسی خوبصورت عورت بلا مرد کی حفاظت کے زندگی بسر کرے اور عشاق نہ ہوں، بڑے تعجب کی بات ہے۔ مگر واقعہ ہے۔ ایک روز میں نے کہا مدی اگر ہم جادوگر ہوتے تو جادو کے زور سے تم کو تتلی بناکر ایک چھوٹی سی ڈبیا میں بند کرکے اپنی پگڑی میں رکھ لیتے۔ اس فن شریف سے واقف کار حضرات جانتے ہیں کہ جو حربہ میں نے استعمال کیا تھا وہ کم خالی جانے والا تھا۔ مگر اس کے بھی جواب میں وہی بےتکلف مسکراہٹ کی ڈھال جو تلوار کے منہ موڑ دے۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
اکثر خیال گزرتا ہے کہ یہ استغنا تحصیلدار مرحوم کی سفید داڑھی کے سایہ میں پرورش پانے کا اثر ہے۔ مگر پھر عقل کہتی تھی کہ جوش حیات نے نہ معلوم کتنی سفید داڑھیوں میں پھونکا ڈالا ہے۔ وہ سفید داڑھی قبر میں بھی پہنچ گئی۔ اس کا اثر کہاں سے آیا۔ بہرحال قصہ سنتے جائیے اور رفتہ رفتہ رائے قائم کرتے جائیے۔ مدی کے ہرانداز میں نسوانیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ایک بات البتہ تھی جو گو عورتوں میں بھی ہوتی ہے۔ مگر ہم ایسے بورژوالوگ اس کو مرد ہی سے منسوب کرتے ہیں۔ یعنی اپنے ہم طبقہ عورتوں میں اور اسی طبقے کے مردوں میں مدی حکومت خوب کر لیتی تھی۔ ہر شخص عورت ہوکہ مرد، ان کا تابع فرمان رہتا تھا اور ان کے اشارے پر چلنے کو تیار۔
اب شروع سے قصہ سنیے۔ تحصیلدار صاحب کا نام کیا کیجیےگا جان کر۔ مرحوم بڑے اچھے آدمی تھے مگر بے عیب خدا کی ذات۔ کچھ خاص خاص کمزوریاں کہی جاتی تھیں۔ پرانی وضع کے لوگ تھے۔ بڑی شان سے تحصیلداری کی۔ لاکھوں کمائے اور ہزاروں اڑائے۔ مگر اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی کچھ بے مرکز کی سی ہو گئی تھی۔ بی بی بہت دن ہوئے مر چکی تھیں۔ کوئی قریب کا عزیز بھی نہ تھا۔ صرف ایک نوکر تھا وہی سیہ سپید کا مالک تھا۔ تنخواہ اسی کے ہاتھ آتی تھی اور جب پنشن ہوئی تو پنشن کا بھی وہی حقدار ٹھہرا۔ میاں کے کپڑے اور کھانا بھی میاں حسن علی ہی پسند کرتے تھے۔ حسن علی کسی کام کو بازار گیے۔ دو تھان رادھا نگری ڈوریے کے لیے چلے آتے ہیں۔ میاں کے کرتے بنیں گے مگر میاں کو اس وقت خبر ہوئی جب درزی قطع کرنے لگا۔
’’ارے میاں حسن علی یہ ڈور یہ کیسا لائے ہو؟‘‘
حسن علی: ’’آپ کے کرتوں کے لیے۔ ڈوریہ وضعدار ہے۔ سلنے پر اور کھلےگا۔‘‘
’’کھلےگا تو مگر کرتے تو میرے پاس تھے۔ ابھی اس دن شربتی لے آئے۔ آج ڈوریہ لیے چلے آتے ہیں، آخر پوچھ تو لیا ہوتا۔‘‘
’’پوچھ کے کیا کرتا۔ آپ یہی تو کہتے کہ رہنے دو۔ گھر میں ایک چیز ہوگئی۔ برسات کا زمانہ ہے۔ دھوبی دیر میں آیا کرےگا۔ دو جوڑے فاضل اچھے ہوتے ہیں۔‘‘
’’خیر بھئی! ‘‘
تحصیلدار کھانے پر بیٹھے ہیں۔ ’’میاں حسن علی آج کل بازار میں مچھلی نہیں آتی۔‘‘
’’آتی تو ہے مگر گرمیوں کی وجہ سے میں نے نہیں منگوائی۔ اس فصل میں مچھلی نقصان کرتی ہے، صبح کو مرغ پک جائےگا۔‘‘ تحصیلدار صاحب پر حسن علی کی شخصیت ایسی غالب آئی تھی کہ جو بات وہ پسند کرتے تھے تحصیلدار سمجھتے تھے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ اسی وجہ سے غیرذمہ دار لوگ دونوں کا ذکر کرکے مسکراتے تھے اور آپس میں آنکھیں مارتے تھے۔ میاں حسن علی کا استرے سے صفاچٹ چہرہ اور تحصیلدار صاحب کی بھبو ڈاڑھی پرچہ میگوئیاں ہوتی تھیں۔ داڑھی مونچھوں کا صفایا صرف انگریزی داں حضرات کا حق ہے۔ اگر حسن علی ایسے اپنی چال چھوڑ کر ہنس کی چال چلیں گے تو اللہ ہی نےکہا ہے۔ لوگ کوئی نہ کوئی نی نکالیں گے۔ بہرحال اصلیت کی خبر خدا کو ہے۔ ہم تو جو کچھ دیکھتے تھے وہ یہ تھا کہ تحصیلدار کا ہمدرد دنیا جہان میں حسن علی کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ حسن علی کو بھی اس سے اچھا آقا اگر چراغ لے کے ڈھونڈتے تو نہ ملتا۔
اللہ میاں نے دو جنسیں بنائی تھیں۔ عورت اور مرد۔ یورپ کے ڈاکٹروں نے تحقیقات کرکے ایک اور جنس ایجاد کی ہے جو اپنے ہی جنس کی طرف راغب ہو۔ اس جنس میں عورتیں بھی شامل ہیں اور مرد بھی۔ اب نہ معلوم تحصیلدار اور حسن علی اس تیسری جنس میں سے تھے یا ویسے ہی تھے جیسے ہم آپ یا بعد کو کچھ اَدل بدل ہوئی۔ اس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جانیں اور ان کا کام۔ ظاہر بظاہر ان دونوں کے افعال سے دوسروں کی سماجی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اس لیے ہم کو کھوج کی کوئی ضرورت بھی نہیں معلوم ہوتی۔ تحصیلدار صاحب بھاری بھرکم آدمی تھے۔ اولاد نہ ہونے کا دکھڑا کیا روتے مگر اولاد کی تمنا اس بات سے ظاہر ہوتی تھی کہ جب کھانا کھاتے تو حسن علی کی لڑکی احمدی کو بلوا بھیجتے تھےکہ دسترخوان پر بیٹھ جائے۔ اسی وجہ سے کھانا تنہائی میں کھانے لگے تھے۔ نوکر کی لڑکی کو دسترخوان پر کھلائے کچھ اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر سب کے سامنے کھلاتے تو صاحب اولاد نہ ہونے کا رنج اور بچوں کی تمنا لوگوں پر کھل جاتی۔
بی احمدی خانم عرف مدی بیگم کا سن چار برس کا رہا ہوگا۔ دسترخوان پر شوربا گرانا، لقمہ ڈبونے میں دال کا پورا پیالہ گھنگول دینا، بچوں کا شیوہ ہے اور نفیس لوگ اسی وجہ سے بچوں کو الگ کھلاتے ہیں۔ گو کہتے یہی ہیں کہ جوانوں والا کھانا بچوں کو نقصان کرتا ہے۔ مگر تحصیلدار صاحب کو اس میں لطف آتا تھا۔ ادھر دسترخوان پر بیٹھے اور ادھر بی مدی کی طلب ہوئی۔ رفتہ رفتہ مدی خود وقت پہچان گئیں۔ تھوڑے دنوں میں مدی تحصیلدار صاحب ہی کے یہاں رہنے لگیں۔ یا تو گھر میں ایک طرف یہ، ایک طرف چھوٹا بھیا اور بیچ میں حسن علی کی بی بی تھیں یا ان کی پلنگڑی الگ بنی۔ صاف چادر لگائی گئی۔ چھوٹے چھوٹے تکیے بنوائے گیے۔ تحصیلدار صاحب کے پاس ان کی بھی پلنگڑی بچھنے لگی۔ جوتی پہنے رہنے کی تقید ہوئی کہ بچھونا میلا نہ ہو۔
لڑکی تھی پیدائشی سلیقہ مند۔ ایک بار سے دوسری بار بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ پانچ چھ ہی برس کے سن میں ایسا سلیقہ آ گیا کہ آدھی بی بی معلوم ہوتی تھیں۔ تحصیلدار صاحب کے پان خود بناتی تھی۔ دس گیارہ برس کے سن میں جنس تلوانا، کھانا پکوانا سب کچھ مدی کے ہاتھ ہو گیا تھا۔ دن جاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ چودھویں برس بی مدی کا شباب دمک اٹھا۔ دیکھنے والوں کا دل چاہتا کہ دیکھا ہی کریں۔ مدی بھی جب بال بنانے کھڑی ہوتی تھیں تو آئینہ کے ساتھ خود بھی متحیر رہ جاتی تھیں۔ اب ماں کو شادی کی فکر ہوئی۔ تحصیلدار صاحب سے کہا گیا۔ انھوں نے کہا کیا جلدی ہے ہو جائےگی۔ مگر لڑکی حسن علی کے بھتیجے کو بچپن ہی سے مانگی تھی۔ ادھر سے بھی اصرار ہوا کہ جوان لڑکی کا امیروں کےگھر میں رہنا اچھا نہیں۔ لیجیے صاحب شادی ہو گئی۔ تحصیلدار صاحب نے خود تو اپنے گھر سے شادی نہیں کی مگر جہیز وغیرہ خوب سا دیا۔
چوتھی چالے کے بعد پھر وہی تحصیلدار صاحب کے یہاں کا رہنا۔ مدی کے دولہا بھی تحصیلدار ہی صاحب کے یہاں آتے تھے۔ مدی سسرال کم جاتی تھیں۔ گئیں بھی تو کھڑی سواری۔ بہت رہیں تو ایک رات نہیں تو اسی دن واپس آ گئیں۔ سسرال والے جاہل، شوہر بھی الف کےنام لٹھا نہیں جانتے۔ گومدی بھی بغدادی قاعدہ اور عم کے سیپارے کے آگے نہیں پڑھی تھیں، مگر پھر بھی پڑھے لکھے ہوئے کی پالی ہوئی تھیں۔ عمر بھر امیری کارخانہ دیکھا تھا۔ مدی کادل سسرال میں کم لگتا تھا۔ کم سنی میں بیاہ کا تجربہ کچھ اچنبھے میں ڈالے تھا۔ شادی کے بعد اگر عورت پر کنوار پنے کی آب نہیں رہ جاتی تو سہاگ کی رونق چہرہ چمکا دیتی ہے۔ مگر احمد ی کے چہرہ پر نہ اسی بات کا پتہ چلتا تھا نہ اسی کا۔ میاں بی بی کے برتاؤ کا حال دو چار دن میں کیا کھلتا۔ مگر کسی خاص خوشی یا اطمینان کا انداز اس میں بھی نہیں دکھائی دیتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں یہ بھی نہ رہ گیا اور کھلم کھلا ناخوشی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔
شوہر صاحب بھی کچھ دبے دبے سے تھے۔ تحصیلدار صاحب کے یہاں اگر وہ بھی اپنی شوہریت کا برتر درجہ برت نہیں سکتے تھے۔ خود اپنی ہیچ مرزی اور بی بی کی بلندی ان کی نظر میں کھٹکتی تھی۔ ضرورتیں مجبور کرتی تھیں۔ نئی نئی بی بی۔ کچھ روپیہ پیسہ بھی ہاتھ آ جاتا تھا۔ اس لیے چپ تھے۔ ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ مدی جو سوکر اٹھیں تو ایک چھڑا غائب۔ بستر پر ادھر ادھر دیکھا، دلائی جھاڑی، پائینتی جھک کے دیکھا، گھر میں ادھر ادھر تلاش کیا مگر کہیں نہ ملا۔ نہ معلوم کیا سمجھ کر چپ ہو گئیں۔ دوپہر کے قریب ماں سے ذکر کیا۔ ماں نے شور مچا دیا۔ تحصیلدار صاحب تک خبر ہوئی۔ انھوں نے سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ حرکت سوائے مدی کے دولہا کے اور کسی کی نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی کہا کہ اس کے جوا کھیلنے کی خبر بھی مجھ تک پہنچ چکی ہے۔ لیجیے صاحب شوہر بھی روٹھ گیے۔ دوچار دن کے بعد رخصتی کا اصرار ہوا۔ مگر چھڑے والی بات پکڑ کر مدی کے ماں باپ نے انکار کر دیا۔ ایک روز مدی کے شوہر نے حسن علی کے گھر آکر بہت سخت سست سنایا اور غصہ میں یہ بھی کہا کہ حرام زادی کو جھونٹے پکڑ کر گھسیٹتا نہ لے جاؤں تب ہی کہنا۔ اس وقت تک مدی نے کسی کی جنبہ داری نہیں کی تھی۔ لیکن اب وہ بھی فرنٹ ہو گئی اور ایسی فرنٹ ہوئی کہ مرتے دم تک پھر منہ نہ دیکھا۔ حسن علی نے بھی خیال کیا۔ داماد ممکن ہے کچھ شہدہ پن ہی کر بیٹھے اس لیے مدی کا پورے طور سے تحصیلدار ہی صاحب کے یہاں رہنا اچھا ہے۔ شوہر صاحب ہمیشہ کے لیے معطل کر دیے گیے۔
جب سے مدی کی شادی ہو گئی تھی، تحصیلدار صاحب کچھ چپ سے رہتے تھے۔ اس واقعہ کے بعد وہ بھی بحال ہو گیے۔ مدی کے شوہر نے اپنی سفاہت سے یہ بھی کہا کہ تحصیلدار صاحب نے اس سے آشنائی کر رکھی ہے۔ مگر اس کو کون باور کرتا۔ حسن علی والی بات پر تو لوگ ہنسی مذاق بھی کرتے تھے۔ مگر اس بات کو کسی نے جھوٹوں بھی یقین نہ کیا۔ البتہ تحصیلدار صاحب تجربہ کار آدمی تھے۔ انھوں نے موت زندگی کا خیال کرکے مدی کے لیے علیحدہ گھر اور کچھ بودگی کاانتظام کرنا شروع کیا۔ اس واقعہ کے دوسرے ہی سال کے اندر تحصیلدار صاحب کا انتقال ہو گیا۔ تحصیلدار صاحب مرحوم کے یا تو کوئی نہیں تھا یا یکبارگی نہ معلوم کتنی وارث پیدا ہو گیے اور آپس میں مقدمہ بازی شروع ہو گئی۔
بی مدی نے بھاری پتھر چوم کے چھوڑا۔ اٹھ کر اپنے گھر چلی آئیں۔ تخت، چارپائیوں، الماریوں پر نہ ان کا حق تھا نہ انھوں نے دعویٰ کیا۔ نقد جو کچھ تحصیلدار صاحب ان کو دے گیے ہوں وہ کون لے سکتا تھا۔ ہاتھ ناک گلے میں جو کچھ تھا وہ ان کا تھا ہی۔ مدی نے حسن علی کی صلاح سے یہ طریق اختیار کیا کہ اپنے طبقے سے اونچی ہوکر رہنا پسند نہ کیا بلکہ جس حیثیت کے لوگ ان کے ماں باپ تھے اسی برادری میں رہیں۔ البتہ روپیہ پیسہ اور سلیقہ ہونے کی وجہ سے اپنے طبقے میں یوں رہیں جیسے مالی کی ڈالی میں سب پھولوں میں گلاب کا پھول ہوتا ہے۔
تحصیلدار صاحب کے سال ہی بھر بعد طاعون بڑے زوروں کا پڑا۔ اس میں میاں حسن علی اور ان کی بی بی بھی چل بسیں۔ اب صرف بی مدی اور ان کا چھوٹا بھائی رہ گیے۔ اس وقت تک مدی نے جو کچھ اچھا برا کیا ہوگا اس کی ذمہ داری صرف ان کے اوپر نہ تھی کیونکہ ہر معاملہ میں تحصیلدار مرحوم اور اس سے کم درجے تک ان کے باپ کی رائے شامل رہتی تھی۔ اس کے بعد جو کچھ پیش آیا وہ البتہ ان کے دل و دماغ کا نتیجہ تھا۔ مدی کا برتاؤ ہر شخص سے عمدہ تھا۔ کوئی شاکی نہ تھا بلکہ اڑوس پڑوس کی عورتیں ہر وقت ان کی گھر میں موجود رہتی تھیں۔ ان سے بھی جو ہو سکتا تھا آنے جانے والیوں کے ساتھ سلوک کرتی تھیں۔ گھر میں کپڑا سینے کی مشین تھی۔ دن بھر لوگوں کے کپڑے مفت سیا کرتی تھیں۔ کسی کو اگر روپے دو روپے کی ضرورت ہوتی تو وہ بھی قرض کے نام سے دے دیے۔ جس کسی کا کہیں ٹھکانہ نہ لگے وہ بی مدی کے یہاں چلا آئے۔ روٹی اپنی پکائے، دال بی مدی کی ہانڈی سے لے لے۔ پان پتا بھی بی مدی کے پاندان سے کھائے۔
اسی زمانہ میں ایک عورت نہ معلوم کہاں کی باہر سے آئی۔ اس کو بھی بی مدی نے رکھ لیا، عورت سلیقہ مند تھی۔ اپنا بار بھی ان پر نہیں ڈالتی تھی۔ بلکہ پیسے دو پیسے کا سلوک خود ہی کر دیتی تھی۔ کچھ انگوٹھیاں، کچھ کیلیں، لیس، صابون وغیرہ بیچتی تھیں۔ صبح ہوئی اور برقع اوڑھ کر نکل گئیں۔ دوپہر کو آئیں۔ کھانا کھایا، آرام کیا۔ اس کے بعد پھر نکل گئیں۔ شام کو لوٹیں۔ یہ مسماۃ آئی تھیں تو یہ کہہ کر کہ دوچار دن میں سودا کرکے دوسری جگہ چلی جائیں گی، مگر مدی سے کچھ ایسی پرگت ملی کہ گھر کی طرح رہنے لگیں۔ محبت و یگانگی کی وہ پینگیں بڑھیں کہ سگی بہنیں مات تھیں۔ صورت شکل کی تو معمولی تھیں مگر قد کشیدہ تھا۔ جب برقع اوڑھ کر راستہ چلتی تھی تو معلوم ہوتا تھا کہ مرد بھیس بدلے ہوئے چلا آتا ہے۔ چال ڈھال قد کے علاوہ بھی کچھ اور باتیں مردوں کی ایسی تھیں۔ مثلاً ہاتھ پاؤں کے دیکھتے سینہ کم تھا۔ کمر، کولہے، پاؤں کی چوڑی چوڑی ایڑیاں بھی عورتوں کی ایسی نہ تھیں۔
تھوڑے ہی دنوں میں یہ ہوگیا کہ دن کو تو ویسا ہی مجمع رہتا تھا مگر رات کو دوسری عورتیں کم رہنے لگیں۔ جب منہ نہیں پایا تو پرائے گھر میں کیسے ٹھہرتیں۔ پہلے تو عورتوں میں سرگوشیاں ہوئیں پھر محلے میں ہر شخص اسی کا ذکر کرنے لگا۔ مگر مدی اور اس عورت نے بجائے تردید کرنے کے ایک آزادانہ بےپروائی کا انداز اختیار کر لیا۔ اس عورت نے کہا ہم لوگ کسی کی بہو بیٹی ہیں یا پھر سے نکاح کرنا ہے جو ہر شخص کے آگے قسمیں کھاتے قرآن اٹھاتے پھریں۔ دنیا اپنی راہ ہم اپنی راہ۔ مدی نے کہا اگر ہمارے کوئی والی وارث ہوتا تو کسی کی مجال پڑی تھی کہ ایسی بات کہتا۔ زمانہ گزرتا گیا اور لوگوں کا شک یقین سے بدلتا گیا۔ قاعدہ ہے کہ پنچ برادری سے اگر دب جاؤ تو وہ اور دباتے ہیں۔ اگر مقابلہ پر تیار ہو جاؤ تو لوگ اپنی نیکی کی وجہ سےاکثر معاف بھی کر دیتے ہیں۔ یہی حال ان دونوں کا ہوا کہ نہ کسی نے پھر پوچھ گچھ کی نہ انھوں نے انکار کی زحمت اٹھائی۔
لکھنے والے کو اغلام مساحقے کے ذکر میں کوئی مزا نہیں آتا۔ مگر اسی کے ساتھ ان چیزوں کا ذکر کرنے سے ڈرتا بھی نہیں۔ اگر یہ چیزیں دنیا میں ہوتی ہیں تو چپ رہنے سے ان میں اصلاح نہ ہوگی۔ نہ یہ طے ہو سکےگا کہ کہاں تک یہ چیزیں فطری ہیں اور کہاں تک اسباب زمانہ سے پیش آتی ہیں۔ کسی جولاہے کے پاؤں میں تیر لگا تھا۔ خون بہتا جاتا تھا۔ مگر دعائیں مانگ رہا تھا کہ اللہ کرے جھوٹ ہو۔
ہمارے قصے کے لوگ دراصل ہیولاک ایلس اور فرائڈ نہیں پڑھے ہیں۔ اس وجہ سے مجبوراً ہمیں ان مسائل پر بحث کرنا پڑی۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ہر عورت میں کچھ جزو مرد کا ہوتا ہے اور ہر مرد میں کچھ جزو عورت کا۔ جو جزو غالب ہوتا ہے اسی طرح کے خیالات اور افعال ہوتے ہیں۔ مردانہ قسم کی عورتیں اور زنانہ قسم کے مرد ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ ممکن ہے بعض ان میں ایسے ہوں جن کو فطرتاً اپنے ہی جنس سے تعلقات اچھی معلوم ہوتے ہوں۔ مگر اس میں بھی کلام نہیں کہ اسباب زمانہ سے بھی لوگ اس راہ لگ جاتے ہیں۔ بجائے اصلاح کی کوشش کے ہر معاملے میں یہی رائے قائم کرنا کہ یہ قدرتی تقاضہ سے ہے اور اسی لیے اصلاح کی ضرورت نہیں، ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ البتہ ایسے فعل کی جس میں سماج کا کوئی نقصان نہ ہوتا ہو تو قانونی سزا ہونی چاہیے یا نہیں یہ دوسرا مسئلہ ہے۔
اچھا اب قصہ سنیے۔ مدی اور اس عورت سے دو سال دوستی رہی۔ اس کے بعد لڑائی ہو گئی۔ کس بات پر بگاڑ ہو گیا یہ کسی کو معلوم نہیں۔ وہ جس راہ آئی تھی اسی راہ چلی گئی۔ بی مدی اجڑی بجڑی رنڈایا کھیلنے لگیں۔ جوئندہ یا بندہ، تھوڑے دنوں کے بعد ایک اور ہم جنس مل گئیں۔ اس کے بعد اور بھی ملاکیں مگر
نہ بیوفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا
مزا میں کیا کہوں آغاز آشنائی کا
وہ پہلی سی بات پھر نہ نصیب ہوئی۔ اب روپیہ بھی کم رہ گیا تھا۔ اس لیے آمدنی بڑھانے کی بھی فکر ہوئی۔ بی مدی نے تحصیلدار کے اعزا کے آگے ہاتھ بڑھایا نہ پھر سے شادی کی ہوس کی۔ بلکہ خود کام کرنے پر تیار ہو گئیں۔ پر اٹھے کباب بنانا شروع کیے، جاڑوں کی فصل میں انڈے اور گاجر کا حلوا بنانے لگیں۔ کچھ عورتوں کی ضرورت کا بساط خانہ بھی منگوا لیا۔ چکن کروشیا کا بھی ڈھچر ڈالا۔ بیچنے والوں کی کمی نہ تھی۔ ارد گرد کی لڑکیاں اور عورتیں سودابیچ لاتی تھیں اور حق المحنت سے زیادہ حصہ پاتی تھیں۔ بی مدی کو سوداگری کا سب سے بڑا گر نہیں یاد تھا۔ یعنی جو آدمی بہت سے کام ساتھ ہی کرتاہے وہ کوئی کام نہیں کر سکتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خرچ آمدنی سے زیادہ ہی رہا۔ یہاں تک کہ مکان بھی گروی رکھنا پڑا۔
روپیہ کے جانے کے بعد توقیر میں بھی فرق آ جاتا ہے۔ مگر اس کی شائستگی، رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ پھر بھی لوگوں کی نظر میں ہلکی نہ ہوئی۔ کپڑے اب بھی سلیقے کے پہنتی تھی۔ گاڑھا پردہ کبھی نہیں تھا۔ آج بھی سڑک پر ماری ماری نہیں پھرتی تھی۔ تنخواہ والے نوکر کبھی نہیں تھے۔ آج بھی کام کاج کرنے والے آسانی سے مل جاتے تھے۔ مگر اقبال مندی میں گھن بہت دنوں سے لگ چکا تھا۔ اس لیے چہرے کی آب رخصت ہو چکی تھی۔ زمانہ بدل جانے سے مزاج میں بھی فرق آ گیا تھا۔ ایک دن ان کے گھر میں کئی عورتیں جمع تھیں۔ کسی نے کہا بن مرد کی عورت کس گنتی شمار میں ہے۔ بی مدی بول اٹھیں۔ ’’سچ کہتی ہو بہن۔‘‘ ایسی بات ان کے منہ سے کبھی نہیں سنی گئی تھی۔ یہ سن کر بعض نے دوسروں کو اشارہ کیا۔ بعض نے اتفاق کیا۔ دو ایک ایسی بھی تھیں جو مدی کا منھ تعجب سے دیکھنے لگیں۔ یہ وہ تھیں جنھوں نے مدی کے منہ سے مرد کا نام بلا ناک بھوں چڑھائے عمر میں نہیں سنا تھا۔
زمانہ گزرتا گیا مگر بی مدی کے دن نہ پھرنا تھے نہ پھرے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک شاہ صاحب آئے۔ بہت مرجع خلائق تھے۔ عقیدت مندوں کا ہجوم ہر وقت لگا رہتا تھا۔ بی مدی بھی دو تین بار کباب پراٹھے کی نذر نیاز پیش کر چکی تھیں۔ اتنے میں خبراڑی کہ شاہ صاحب حج کو جائیں گے۔ ہمیشہ مرغ پلاؤ توکل پر کھایا کیے۔ اب حج بھی توکل پر کریں گے۔ جس دن شاہ صاحب چلے لوگوں نے دیکھا مدی بھی دامن سے لگی چلی جا رہی ہیں اور لوگوں سے کہا سنا معاف کرا رہی ہیں۔ جو کچھ بچی بچائی پونجی تھی وہ بیچ کر نقد کر لیا۔ باقی کے لیے شاہ صاحب کی ذات اور توکل کا توشہ کافی ٹھہرا۔ حج سے واپسی پر وطن نہیں آئیں بلکہ شاہ صاحب ہی کے قدموں سے لگی رہیں۔ شاہ صاحب اپنے وقت کے بلعم باعور تھے۔ جی چاہے الگنی پر ڈال دیجیے۔ چاہے چادر کی طرح کاندھے پر لٹکا لیجیے۔ مدی میں جوانی کی کنی گلنے میں اب بھی دیر تھی۔ مگر شاہ صاحب کو دیکھ کر خواب میں بھی آشنائی کا خیال نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر غور کیجیے تو پیر بھی ایک طرح کا شوہر ہی ہوتا ہے جس پر مرید اسی طرح تکیہ کرتا ہے جیسے عورت مرد پر۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.