سدھا خوبصورت تھی نہ بدصورت، بس معمولی سی لڑکی تھی۔ سانولی رنگت، صاف ستھرے ہاتھ پاؤں، مزاج کی ٹھنڈی مگر گھریلو، کھانے پکانے میں ہوشیار۔ سینے پرونے میں طاق، پڑھنے لکھنے کی شوقین، مگر نہ خوبصورت تھی نہ امیر، نہ چنچل، دل کو لبھانے والی کوئی بات اس میں نہ تھی۔ بس وہ تو ایک بے حد شرمیلی سی اور خاموش طبیعت والی لڑکی تھی۔ بچپن ہی سے اکیلی کھیلا کرتی، مٹی کی گڑیاں بناتی اور ان سے باتیں کرتی۔ انہیں تنکوں کی رسوئی میں بٹھا دیتی اور خود اپنے ہاتھ سے کھیلا کرتی۔ جب کوئی دوسری لڑکی اس کے قریب آتی تو گڑیوں سے باتیں کرتے کرتے چپ ہو جاتی۔ جب کوئی شریر بچہ اس کا گھروندا بگاڑ دیتا تو خاموشی سے رونے لگتی۔ رو کر خود ہی چپ ہو جاتی اور تھوڑی دیر کے بعد دوسرا گھروندا بنانے لگتی۔
کالج میں بھی اس کی سہیلیاں اور دوست بہت کم تھے۔ وہ شرمیلی طبیعت ابھی تک اس کے ساتھ چل رہی تھی، جیسے اس کے ماں باپ کی غریبی نے بڑھاوا دے دیا ہو۔ اس کا باپ جیون رام ناتھومل واچ مرچنٹ کے یہاں چاندنی چوک کی دوکان پر تیس سال سے سیلز مین چلا آ رہا تھا۔ اس کی حیثیت ایسی نہ تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو کالج کی تعلیم دے سکے۔ اس پر بھی جو اس نے اپنی بیٹی کو کالج میں بھیجا تھا، محض اس خیال سے کہ شاید اس طریقہ سے اس کی لڑکی کو کوئی اچھا خاوند مل جائے گا۔ کبھی کبھی اس کے دل میں یہ خیال بھی آتا تھا، ممکن ہے کالج کا کوئی اچھا لڑکا ہی اس پر عاشق ہو جائے۔ مگر جب وہ سدھا کی صورت دیکھتا، جھکی ہوئی گردن، سکڑا ہوا سینہ، خاموش نگاہیں۔۔۔ اور اس کی کم گوئی کا اندازہ کرتا تو ایک آہ بھر کر چپ ہو جاتا اور اپنا حقہ گڑ گڑانے لگتا۔
’’سدھا کے لئے تو کوئی بَر گھیر گھار کر ہی لانا ہو گا۔‘‘ مگر مصیبت یہ ہے کہ اس طرح کے بَر بڑا جہیز مانگتے تھے اور اس کی حیثیت ایسی نہ تھی کہ وہ بڑا تو کیا چھوٹا سا بھی جہیز دے سکے۔ ذہن کے بہاؤ میں بہتے بہتے اس نے یہ بھی سوچا کہ آج کل محبت کی شادی بڑی سستی رہتی ہے۔ اب مالک رام کی بیٹی گوپی کو ہی دیکھو، باپ ہیلتھ منسٹری میں تیسرے درجے کا کلرک ہے مگر بیٹی نے ایک لکھ پتی ٹھیکیدار سے شادی کر لی ہے۔ جو اس کے ساتھ کالج میں پڑھتا تھا۔ باپ کوارٹروں میں رہتا ہے۔ مگر لڑکی ائرکنڈیشنڈ موٹرکار میں بیٹھ کر اپنے میکے والوں سے ملنے آتی ہے۔ ہاں مگر گوپی تو بہت خوبصورت ہے اور ہماری سدھا تو بس ایسی ہے جیسے اس کی ماں۔
’’اس کے لئے تو کسی بر کو گھیرنا ہی پڑے گا۔ جس طرح سدھا کی ماں اور اس کے رشتے والوں نے مجھے گھیرا تھا۔‘‘
دو تین جگہ سدھا کی ماں نے بات چلائی تھی۔ مگر وہ بات آگے نہ بڑھ سکی، مگر ایک بار تو اس نے بند اتنا مضبوط باندھا کہ لڑکا خود گھر چل کر سدھا کو دیکھنے آ گیا۔ مگر سدھا اسے پسند نہ آئی۔ لڑکا خود بھی کون سا اچھا تھا؟ موا چیچک مارا، ٹھنگنا سا، اس پر ہکلاتا تھا، جامن کا سا رنگ، مگر گوری لڑکی چاہتا تھا اور جہیز میں ایک اسکوٹر مانگتا تھا۔ یہاں سدھا کا باپ ایک سائیکل تک نہ دے سکتا تھا۔ اس لئے معاملہ آگے چلتا بھی تو کیسے چلتا؟
مگر یہ سدھا کے باپ کو معلوم نہ تھا کہ اس بدصورت ٹھنگنے کے انکار پر خود سدھا کتنی خوش ہوئی تھی؟ وہ اور اس کے بھی دو برسوں میں جو دو لڑکے اسے دیکھنے آئے وہ انکار کر کے چلے گئے۔ ان سب کی سدھا کس قدر دل ہی دل میں شکر گزار تھی۔ وہ اوپر سے جتنی ٹھنڈی تھی، اندر سے اتنی ہی لاوا تھی۔ یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ سدھا کے تخیل کی اڑان کتنی اونچی اور وسیع ہے۔ اپنی تنگ و تاریک سی دنیا سے باہر نکل کر اس کی کلپنا کیسی کیسی سندر جگہوں پر اسے لے جاتی تھی؟ اس بات کو نہ تو اس کا باپ جیون رام جانتا تھا نہ اس کی ماں مگھی جانتی تھی کہ سدھا کتنی عجیب لڑکی ہے۔
وہ باہر سے معمولی رنگ روپ کی لڑکی تھی، مگر اس نے اپنے دل کے اندر ایک چمکتی ہوئی زندگی چھپا رکھی تھی۔ جس طرح لعل گدڑی میں چھپا رہتا ہے اور یہ تو ہماری روایت ہے کیونکہ اپنے میلے کچیلے بنئے کو دیکھ کر کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس آدمی کے پاس اتنا سونا ہو گا۔ اسی لئے تو وہ شرمیلی تھی۔ وہ اپنا بھید کسی کو کیوں بتائے؟ شاید لوگ اس پر ہنسیں گے اور جو کچھ وہ سوچتی تھی وہ سب کتنا عجیب ہوتا تھا۔ یہ کالج کی سندر سجیلی لڑکیاں اگر اس کے حسن کی موہنی دیکھ لیں تو دھک سے رہ جائیں اور یہ لمبی لمبی کاروں والے دیوتاؤں کی طرح اٹھلاتے ہوئے نوجوان اگر اس کے دل کی راکٹ جہاز دیکھ لیں تو کیا حیرت میں نہ کھو جائیں؟ وہ میری طرف دیکھتے بھی نہیں اور ٹھیک بھی ہے۔ گھر کی دھلی ہوئی شلوار اور سلوٹوں والی سیاہ قمیص پہننے والی ایسی لڑکی کو وہ بھلا کیوں دیکھیں گے۔ تو میں بھی انہیں کیوں بتاؤں گی کہ میں کیا ہوں؟
’’تو نے کیسی لڑکی جنی ہے؟‘‘ جیون رام کبھی کبھی مگھی کو ستانے لگتا۔ ’’ہر وقت چپ رہتی ہے۔ ہر وقت نگاہ نیچی رکھتی ہے۔ ہر وقت کام میں جٹی رہتی ہے۔ اس کے منہ پر کبھی ہنسی نہیں دیکھی۔ اب کپور صاحب کی لڑکیوں کو دیکھو، ہر وقت پھولوں کی طرح مہکتی رہتی ہیں۔ ہر وقت گھر کو گلزار بنائے رکھتی ہیں، اور ایک سدھا۔۔۔‘‘ جیون رام اخبار پٹک کر چپ ہو جاتا۔
مگھی بارہ آنے سیر والا بھات اور چنے کی پتلی دال اس کے سامنے رکھتی ہوئی کہتی، ’’ان بچیوں کی بات مت کرو۔ ان بچیوں کا باپ سپرنٹنڈنٹ ہے۔ چار سو روپے گھر لاتا ہے۔ میری بچی کے پاس صرف دو قمیص ہیں اور کپور صاحب کی لڑکیاں دن میں دو سوٹ بدلتی ہیں۔ کبھی یہ بھی سوچا ہے؟‘‘
جیون رام دانت پیس کر چپ ہو جاتا۔ اس کے دل میں بہت سے سوال ابھرتے۔ یہ چاول اتنے موٹے کیوں ہیں؟ یہ دال اتنی پتلی کیوں ہے؟ اس کی بیوی ہر وقت نچی کھسوٹی سی کیوں نظر آتی ہے؟ اس کی بچی ہر وقت چپ کیوں رہتی ہے؟ لوگ جہیز میں اسکوٹر مانگتے ہیں؟ بہت سے سوال پتلی دال کے چنوں کی طرح اس کے دماغ میں پھدکنے لگتے۔ مگر جب ان سوالوں کا کوئی جواب نہ ملے تو انہیں پتلی دال کی طرح ہی پی جانا چاہئے۔
ایف۔ اے پاس کرا کے جیون رام نے سدھا کو کالج سے اٹھا لیا، ’’میں افورڈ نہیں کر سکتا۔‘‘ اس نے اپنے ساتھی طوطا رام سے کہا۔ جو سیوا مل وول کلاتھ مرچنٹ کے یہاں نوکر تھا۔ وہ بڑی آسانی سے یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ کالج میں پڑھانے کی میری حیثیت نہیں۔ مگر حیثیت کا لفظ کتنا صاف اور کھلا ہوا ہے، جیسے کسی نے سر پر سات جوتے مار دیئے ہوں اور ’’افورڈ‘‘ میں کتنی گنجائش ہے۔ ویسے اپنی زبان میں کبھی کبھی بدیسی اور اجنبی الفاظ بھی استعمال کر لینے سے کتنی پردہ پوشی ہو جاتی ہے۔ بالکل ایسے، جیسے گھر میں کوئی اجنبی آ جائے تو گھر کے لڑائی جھگڑے پر اسی وقت پردہ پڑ جاتا ہے۔ ’’تمہاری بیلا تو ابھی کالج میں پڑھتی ہے نا؟‘‘ اس نے طوطا رام سے پوچھا۔
’’ہاں!‘‘ طوطا رام من کی خوشی سے چہکتے ہوئے بولا، ’’اگلی سردیوں میں اس کی شادی ہونے والی ہے۔‘‘
’’لڑکا ڈھونڈ لیا؟‘‘ جیون رام نے مری ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’ہاں!‘‘ طوطا رام کوئل کی طرح کوکتے ہوئے بولا، ’’اس نے خود ہی اپنا بر پسند کر لیا، کالج میں لڑکا بڑا امیر ہے۔‘‘
جب طوطا رام چلا گیا تو جیون رام نے برا سا منہ بنایا اور طوطا رام کی پتلی آواز کی نقل کرتے ہوئے بولا، ’’اس نے خود ہی اپنا بر پسند کر لیا، چہ؟‘‘پھر وہ زور سے فرش پر تھوکتے ہوئے بولا، ’’حرام زادہ۔‘‘
دو سال گزر گئے۔ سدھا اب آصف علی روڈ کی ایک فرم میں ٹائپسٹ تھی۔ وہ پہلے سے زیادہ خاموش، با وقار اور محنتی ہو گئی تھی۔ گھر کی حالت بھی اچھی ہو گئی۔ کیونکہ سدھا گھر میں سو روپے لاتی تھی۔ دفتر کے کام سے فارغ ہو کر وہ اسٹینو کا کام سیکھنے جاتی تھی۔ بی۔ اے کرنے کا ارادہ بھی رکھتی تھی۔
گھر کی حالت ذرا بہتر ہونے پر جیون رام اور مگھی نے سدھا کے بر کے لئے زیادہ اعتماد سے کوشش شروع کر دی تھی۔ وہ سدھا کی تنخواہ میں بہت کم خرچ کرتے تھے اور اسکوٹر کے لئے پیسے جمع کر رہے تھے۔
بہت دنوں کے بعد جیون رام ایک لڑکے کے والدین کو اسکوٹر کا لالچ دے کر گھیرنے میں کامیاب ہوا۔ منگنی کی رقم، بیاہ کا جہیز، جہیز کی نقدی، جہیز کا سونا، ساری ہی ضروری باتیں طے ہو گئیں تو موتی جو لڑکے کا نام تھا اور واقعی شکل و صورت میں موتی ہی کی طرح اجلا اور خوبصورت تھا، اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنے آیا۔
موتی نے گہرے براؤن رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ اس کی سنہری رنگت پر اس کے سیاہ گھنگھریالے بال بے حد خوبصورت معلوم ہوتے تھے اس کی قمیص سے کف کے باہر اس کے ہاتھ بڑے مضبوط اور خوبصورت لگتے تھے اور جب وہ سجی سجائی سدھا کی طرف دیکھ کر مسکرایا تو اندر ہی اندر اس معصوم لڑکی کا دل پگھل گیا اور چائے کی پیالی اس کے ہاتھوں میں بجنے لگی اور بڑی مشکل سے وہ چائے کی پیالی موتی کو پیش کر سکی۔
موتی چائے پی کر اور شکریہ ادا کر کے بڑی سعادت مندی سے رخصت ہو گیا،اپنی بہنوں کے ساتھ۔ دوسرے دن اس کی بہنوں نے کہلا بھیجا، ’’لڑکی پسند نہیں۔‘‘ اس رات سدھا نہ سو سکی۔ رات بھر اس کی آنکھوں میں موتی کا خوبصورت چہرہ اور اس کا با وقار جسم ڈولتا رہا تھا اور رات بھر موتی کے ہاتھوں کا خفیف سا لمس اس کی روح کو گدگداتا رہا۔
’’لڑکی پسند نہیں۔ اونہہ۔‘‘ مگھی غصے سے ساگ کو کڑاہی میں بھونتے ہوئے بولی، ’’اور خود تو بڑا یوسف ہے۔ اپنی رنگت پر بڑا اتراتا ہے۔ مگر اپنی پکوڑا ایسی ناک نہیں دیکھتا؟ اور اپنے حبشیوں ایسے گھنگھریالے بال نہیں دیکھتا۔ اپنی بہنوں کو نہیں دیکھتا؟ ایک تو بھینگی تھی، صفا بھینگی، دوسری پوڈر سرخی کی ماری، صورت کی چوہیا لگتی تھی۔ تیسری کے بال دیکھے تھے تم نے؟ جیسے بنئے کی بوری کے پھوسڑے، اونہہ لڑکی پسند نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اتنے زور سے کڑاہی میں کرچھی چلائی، جیسے وہ ساگ کے بجائے اس لڑکے کو بھون رہی ہو۔
سدھا نے محسوس کیا کہ اس کے گھر والوں بلکہ گھر کے باہر محلے والوں اور شاید دفتر والوں کا بھی خیال تھا کہ سدھا کچھ محسوس ہی نہیں کرتی بلکہ دفتر کے کام کے لئے نہایت مناسب لڑکی ہے۔ نہ کسی سے عشق کرے، نہ کسی کو عشق کی ترغیب دے۔ دن بہ دن اس کی آنکھیں میلی، ہونٹ سکڑے ہوئے اور چہرہ دھواں دھواں ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی صورت ایسی ٹھنڈی اور ٹھس نکل آئی تھی کہ اسے دیکھ کر کسی برف خانے کا امکان ہونے لگا تھا۔ کلرک آپس میں چہ میگوئیاں کرتے ہوئے کہتے، ’’جو آدمی سدھا سے شادی کرے گا اسے پہاڑ پر جانے کی ضرورت نہ ہو گی۔‘‘
اس لئے کہ موتی کے انکار کرنے پر سدھا کے دل پر کیا بیتی یہ تو کسی کو معلوم نہ ہو سکا۔ پہلی بار اس نے زندگی میں کسی کو دل دیا تھا اور یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔ ہوتا بھی کیسے؟ اور کہتی بھی کیا کسی سے؟ کہ جسے میں نے چاہا وہ مجھے دیکھنے آیا تھا اور نا پسند کر کے چلا گیا۔ لوگ تو عشق میں روتے ہیں۔ وہ بے چاری کچھ کہہ بھی نہ سکتی تھی۔
اس دن اس نے دفتر میں اوور ٹائم کیا اور جب اندھیرا خاصا بڑھ گیا تو وہ دفتر سے باہر نکلی اور بھورے رنگ کا پرس جھلاتی ہوئی سامنے آصف علی پارک میں چلی گئی اور ایک بنچ پر تنہا بیٹھ گئی۔ یہ پارک دہلی گیٹ کے سامنے ایک چھوٹا سا خاموش گوشہ تھا۔ چند پیڑ تھے۔ چند بنچیں تھیں۔ چند قطعے تھے گھاس کے۔ ان کے چاروں طرف ٹریفک کا شور تھا۔ مگر آج یہاں نسبتاً خاموشی تھی۔ سدھا ہر روز یہاں آتی تھی اور آدھ پون گھنٹہ اکیلے بیٹھ کر تازہ دم ہوتی تھی۔ تھوڑے عرصے کے لئے اپنے خیالوں کی لہروں پر دور تک تیرتی ہوئی نکل جاتی۔ اسے تنہائی سے ڈر نہ لگتا تھا۔ تنہائی اس کا واحد سہارا تھی۔ اندھیرے سے اسے ڈر نہ لگتا تھا بلکہ اندھیرا اس کا دوست تھا۔ غنڈوں سے اسے ڈر نہ لگتا تھا۔ جانے اس کی شخصیت میں کونسی ایسی بات تھی کہ غنڈے بھی اسے دور ہی سے سونگھ کر چل دیتے تھے، کترا کر نکل جاتے تھے۔
آج اندھیرا تھا اور پیڑ کے نیچے گہری خاموشی۔ پتھر کا بنچ بھی خوب ٹھنڈا تھا۔ چند منٹ تک سدھا خاموشی سے اس بنچ پر بیٹھی رہی مگر جب اس کی تکان نہ گئی تو وہ اٹھ کر پیڑ کے نیچے چلی گئی اور تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔
یکایک کسی نے اس سے کہا، ’’تم یہاں کیوں بیٹھی ہو؟‘‘
سدھا نے آنکھیں کھولیں۔ سامنے موتی مسکرا رہا تھا۔ وہی خوبصورت براؤن سوٹ پہنے، وہی سپید دانتوں والی جگمگاتی ہوئی مسکراہٹ لئے۔ اس کے ہاتھ اتنے ہی خوبصورت تھے۔ سدھا کے حلق میں کوئی چیز آ کے رکنے لگی۔ وہ بول نہ سکی۔
موتی اس کے قریب آ کے بیٹھ گیا۔ اتنا قریب کہ اس کی پتلون اس کی ساری سے مس ہو رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے پوچھا، ’’تمہیں میرے انکار پر غصہ آ رہا ہے نا؟‘‘ سدھا نے آہستہ سے سر ہلایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ’’بہت برا لگ رہا ہے نا؟‘‘ سدھا نے پھر ہاں کے انداز میں آہستہ سے سر ہلا دیا اور آنسو چھلک کر اس کے گالوں پر آ گئے اور وہ رونے لگی۔ موتی نے اپنے کوٹ کی جیب سے رومال نکالا اور اس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولا، ’’مگر اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ ہر انسان کو اپنی پسند یا ناپسند کا حق ہے۔ بتاؤ حق ہے کہ نہیں؟‘‘
’’مگر تم نے کیا دیکھا تھا میرا؟ جو تم نے مجھے ناپسند کر دیا۔ کیا تم نے میرے ہاتھ کا پھلکا کھایا تھا؟ میرا مٹر پلاؤ چکھا تھا؟ کیا تم نے میرے دل کا درد دیکھا تھا؟ اور وہ بچہ جو تمہیں دیکھتے ہی میری کوکھ میں ہمک کر آ گیا تھا؟ تم نے میرے چہرے کا صرف سپاٹ پن دیکھا۔ میرے بچے کا حسن کیوں نہیں دیکھا۔ ؟ تم نے وہ بات کیوں نہیں دیکھی جو زندگی بھر تمہارے پاؤں دھوتے۔ اور وہ بٹن جو میں تمہاری قمیص پر ٹانکنے والی تھی۔ تم میرے جسم کی رنگت سے ڈر گئے۔ تم نے اس سوئٹر کا اجلا رنگ نہ دیکھا جو میں تمہارے لئے بننا چاہتی تھی۔ موتی تم نے میری ہنسی نہیں سنی۔ میرے آنسو نہیں دیکھے۔ میری انگلیوں کے لمس کو اپنے خوبصورت بالوں میں محسوس نہیں کیا۔ میرے کنوارے جسم کو اپنے ہاتھوں میں لرزتے ہوئے نہیں دیکھا تو پھر تم نے کس طرح مجھے ناپسند کر دیا تھا؟‘‘
ارے اتنی لمبی تقریر وہ کیسے کر گئی؟ اتنا سب کچھ وہ کیسے کہہ گئی؟ بس اسے اتنا معلوم تھا کہ وہ رو رہی تھی اور کہتی جا رہی تھی اور اس کا سر موتی کے کندھے پر تھا اور موتی اپنی غلطی پر نادم اس کے شانوں کو ہولے ہولے تھپک رہا تھا۔
اس دن وہ بہت دیر سے گھر پہنچی اور جب اس کی ماں مگھی نے اس سے پوچھا تو اس نے کمال لا پروائی سے کہہ دیا، ’’دفتر میں دیر ہو گئی۔‘‘ پھر پرس کو زور سے جھلا کر پلنگ پر پھینک دیا اور اس اعتماد سے کھانا مانگنے لگی کہ اس کی ماں چونک گئی۔ اس کا باپ چونک گیا۔ آج سدھا کی روئی ہوئی آنکھوں کی تہ میں خوشی کی ایک ہلکی سی لکیر تھی۔ جیسے گہرے بادلوں میں کبھی کبھی بجلی کوند جاتی ہے۔
مگھی نے اپنے ہونٹ چبا کر چالاک نگاہوں سے اپنے خاوند کی طرف اس طرح دیکھا، جیسے اس نے بیٹی کا راز بھانپ لیا ہو۔ جیون رام نے بھی ایک پل کے لئے مسرور نگاہوں سے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا۔ پھر اپنی تھالی کی طرف متوجہ ہو گیا۔
ضرور کوئی بات ہے۔ اور سدھا چونکہ عورت ہے، اس لئے اس بات کی تہہ میں ضرور کوئی مرد ہے۔ ایسا دونوں میاں بیوی نے اسی لمحہ سوچ لیا۔ آٹھ دس روز کے بعد اس شبہ کو اور تقویت پہنچی۔ جب ایک لڑکا اپنی ماں کے ساتھ سدھا کو دیکھنے کے لئے آیا، اس لڑکے کی ماں مگھی کی بچپن کی سہیلی تھی اور کیسے کیسے جتن اور کس کس طرح کے واسطے دے کر مگھی نے اسے شیشے میں اتارا تھا۔ یہ صرف مگھی ہی جانتی تھی۔ اس لئے جب اس موقع پر لڑکے کی بجائے سدھا نے شادی سے انکار کر دیا تو پہلے تو مگھی اچنبھے میں رہ گئی۔ پھر اس کے دل میں وہ شبہ تقویت پکڑتا چلا گیا۔ ضرور کوئی ہے!
وہ چپکے چپکے اپنی بیٹی کے لئے جہیز کا سامان تیار کرنے لگی اور جیون رام حقہ پیتے پیتے اس دن کا انتظار کرنے لگا، جب سدھا چپکے سے آ کر مگھی سے سب بات کہہ دے گی اور بڈھا جیون رام پہلے تو لال پیلی آنکھیں نکال کر سدھا کو گھورے گا۔ ’’تیری یہ ہمت! کہ تو نے ہم سے بالا بالا ہی اپنے لئے بر پسند کر لیا۔ نکال دوں گا گھر سے اور چٹیا کاٹ کر پھینک دوں گا، ہمارے خاندان کی ناک کٹانے والی۔ پھر وہ مگھی کے سمجھانے بجھانے پر خود ہی نرم پڑ جائے گا اور آخر میں حقہ گڑگڑاتے ہوئے پوچھے گا، ’’مگر کون ہے وہ؟‘‘
اور اب کوئی بھی ہو، وہ سدھا کے بتاتے ہی جلد سے جلد اس کے ہاتھ پیلے کر دے گا۔ پچیس برس کی جوان لڑکی کو گھر میں رکھنا ٹھیک نہیں۔ مگر دن گزر گئے۔ مہینے گزر گئے۔ سال گزر گئے۔ مگر سدھا نے کچھ نہ بتایا۔ اس کی ماں انتظار کرتی رہی، مگر وہ جنم جلی کبھی کچھ منہ سے نہ پھوٹی۔ تھک ہار کے اس کی ماں نے پھر دو تین بر ڈھونڈے۔ مگر سدھا نے صاف انکار کر دیا۔ آخری بر، جو اس کے باپ نے ڈھونڈا، وہ ایک رنڈوے حلوائی کا تھا، جس کی عمر چالیس سے تجاوز کر چکی تھی۔
اس روز شفق کے ڈھلتے ہوئے سایوں میں گلابی انگلیوں والی مہکتی ہوئی شام میں سدھا نے موتی کو بتایا، ’’وہ لوگ آج میرے لئے ایک بڈھا حلوائی ڈھونڈ کے لائے تھے۔‘‘
’’پھر؟‘‘ موتی نے ہنس کر پوچھا۔
’’میں نے صاف انکار کر دیا۔‘‘
’’تو نے انکار کیوں کر دیا پگلی۔ شادی کر لیتی تو زندگی بھر آرام سے بیٹھی، مٹھائی کھاتی۔‘‘
’’اور تمہیں چھوڑ دیتی؟‘‘ سدھا نے پیار بھرے غصے سے موتی کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’میں نے بھی تو تم سے شادی نہیں کی؟‘‘ موتی نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔
’’تو کیا ہوا؟‘‘ سدھا اس کے گال کو اپنے گال سے سہلاتی ہوئی بولی، ’’تم میرے پاس تو ہو، شادی سے بھی زیادہ میرے پاس۔ ہر وقت میری مٹھی میں گویا۔‘‘
موتی ہنس کر بولا، ’’ہاں یہ تو صحیح ہے، میں بالکل تمہاری مٹھی میں ہوں، جب چاہو بلا لو۔‘‘
’’شروع میں تو تم ایسے نہ تھے۔‘‘ سدھا، موتی کی طرف چنچل نگاہوں سے دیکھ کر بولی، ’’شروع میں تو تم بڑی مشکل سے میرے پاس آیا کرتےتھے۔‘‘
’’شروع میں ایسا پیار بھی تو نہ تھا اور کسی کے دل کو سمجھتے ہوئے دیر بھی تو لگتی ہے۔‘‘ موتی نے سدھا کے کانوں میں سرگوشی کی اور سدھا کی آنکھیں شدت احساس سے بند ہونے لگیں اور تھوڑی دیر کے بعد اس نے موتی کی تیز تیز سانسوں کی آنچ اپنے چہرے پر محسوس کی اور اپنی گردن اور رخسار پر اس کےبوسے برستے ہوئے محسوس کئے۔
’’کل کہاں ملو گے؟‘‘
’’جہاں تم کہو۔ لورز لین میں؟‘‘
’’اونہوں!‘‘
’’کوٹلے میں گھوڑوں کی نمائش ہو رہی ہے۔‘‘
’’میں کیا گھوڑے خرید کر پالوں گی؟‘‘ سدھا ہنسی۔
’’اولڈ ہال میں ادیبوں کی نمائش ہے۔‘‘
’’نا بابا!‘‘ سدھانے کانوں پر ہاتھ رکھے۔
موتی خاموش ہو گیا۔
پھر سدھا خود ہی بولی، ’’کل پکچر دیکھیں گے، بسنت سینما میں بہت اچھی پکچر لگی ہے، میں دو ٹکٹ خرید رکھوں گی۔ تم ٹھیک پونے چھ بجے وہاں پہنچ جانا۔‘‘
’’ٹکٹ میں خرید لوں گا۔‘‘
’’نہیں یہ پکچر تو میں دکھاؤں گی، تم کوئی دوسری دکھا دینا۔ میں کب منع کرتی ہوں۔ مگر بھولنا نہیں، کل شام پونے چھ بجے بسنت سینما کے باہر!‘‘
بسنت سینما کے باہر بہت بھیڑ تھی۔ سدھانے دو ٹکٹ خرید لئے اور اب وہ موتی کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے احتیاطاً آدھا پاؤ چلغوزے اور ایک چھٹانک کشمش بھی لے لی۔ سینما دیکھتے دیکھتے کھانے کا اسے ہوکا سا تھا۔
پونے چھ ہو گئے۔ چھ ہو گئے۔ پچھلے شو کے چھوٹنے کے بعد لوگ چلے گئے۔ نئے لوگ شو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ موتی نہیں آیا۔ چاروں طرف روشنیاں تھیں۔ لوگوں کی بھیڑ تھی۔ خوانچے والوں کی بلند آوازیں تھی۔ تانگے، موٹروں اور رکشاؤں کا ہجوم تھا اور موتی ہجوم کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اب وہ اس کی طبیعت سمجھ گئی تھی۔ اسے خاموشی پسند تھی۔ اندھیرا پسند تھا۔ تنہائی پسند تھی۔ موتی بے حد حساس اور نفاست پسند تھا۔
سوا چھ کے قریب وہ سینما ہال میں جا بیٹھی۔ اس نے اپنے ساتھ والی سیٹ پر اپنا رومال رکھ دیا۔ چلغوزوں اور کشمش کے لفافے بھی۔ ہولے ہولے ہال بھر گیا۔ مگر موتی نہیں آیا۔ جب ہال کی روشنیاں گل ہو گئیں اور پکچر شروع ہو گئی تو سدھا نے موتی کا ہاتھ اپنے ہاتھ پر محسوس کیا۔ وہ اندھیرے میں چپکے سے آ کر ساتھی والی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔ سدھا نے اس کے ہاتھ کو دباتے ہوئے کہا، ’’بڑی راہ دکھاتے ہو۔‘‘
’’سوری!‘‘ موتی کے لہجے میں بے حد ملامت تھی۔
’’میں تمہارے لئے چلغوزے اور کشمش لائی ہوں کھاؤ۔‘‘
موتی نے کشمش کے چند دانے اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لئے اور سدھا مسرت کا گہرا سانس لے کر تصویر دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔ اب باتیں کرنے کا لمحہ نہ تھا۔ وہ محسوس کر سکتی تھی کہ موتی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس کے ساتھ کرسی پر بیٹھا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ اپنا سر اس کے شانے پر رکھ دیتی۔ موتی سرگوشی میں کہتا، ’’میرے کندھے پر سر رکھ کر دیکھنے سے تمہیں کیا نظر آتا ہے؟ تصویر تو نظر آتی نہ ہو گی؟‘‘
’’وہ تصویر نظر آتی ہے جو اس ہال میں بیٹھا ہوا کوئی آدمی نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ سدھا نے بڑی گہری مسرت سے کہا۔
آہستہ آہستہ ہر شخص نے تبدیلی محسوس کی۔ سدھا کی میلی میلی آنکھیں اجلی ہوتی گئیں۔ سینے کا ابھار واضح ہونے لگا۔ کمر لچکنے لگی اور چال میں کولہوں کا مدور بہاؤ شامل ہوتا گیا۔ وہ دن بدن حسین و دل کش ہوتی گئی۔ اب اس کے کپڑے انتہائی صاف ستھرے ہوتے تھے۔ ہوتے تھے کم قیمت کے مگر بے حد عمدہ سلے ہوئے ہوتے تھے۔ سدھا کو یہ توفیق نہ تھی کہ وہ کسی اچھے درزی کے پاس جا سکے مگر خود ہی اس نے درزی کا کام سیکھ لیا تھا اور بہت کم لڑکیاں کٹائی اور نئے لباس کی تراش اور ڈیزائن میں اس کا مقابلہ کر سکتی تھیں۔ مگر اس نے کبھی کسی کو نہیں بتایا کہ وہ یہ کپڑے خود اپنے ہاتھ سے کاٹ کر تیار کرتی ہے۔ اس کے دفتر کی جب کوئی دوسری لڑکی اس کے لباس کی تعریف کرتی تو سدھا جھٹ کسی مہنگے درزی کا نام بتا دیتی۔ جہاں صرف امیر ترین فیشن ایبل عورتوں کے کپڑے تیار ہوتے تھے اور اس کے دفتر کی لڑکیاں جل کر خاک ہو جاتیں اور سدھا سے رشک اور حسد کے ملے جلے انداز میں پوچھتیں،
’’کیسا ہے وہ تیرا؟‘‘
’’گورا رنگ ہے، بال گھنگھریالے ہیں۔ ہنستا ہے تو موتی جھڑتے ہیں۔‘‘ سدھا جواب دیتی۔
’’کیا تنخواہ لیتا ہے؟‘‘
’’بارہ سو۔‘‘
’’بارہ سو؟‘‘ لڑکیاں چیخ کر پوچھتیں، ’’بارہ سو تو ہماری فرم کے مینجر کی تنخواہ ہے۔‘‘
’’وہ بھی ایک فرم میں مینجر ہے۔‘‘ سدھا جواب دیتی۔
’’اری ہمیں دکھائے گی نہیں؟‘‘ بس ایک بار دکھا دے۔ ہم دیکھ تو لیں کیسا ہے تمہارا وہ!‘‘
’’دکھا بھی دوں گی، کہو تو دفتر میں بلا کے دکھا دوں؟‘‘
یہ تو اس نے یونہی کہہ دیا تھا۔ ورنہ سدھا کہاں موتی کو دکھانے والی تھی۔ وہ مر جاتی مگر اپنے موتی کو نہ دکھاتی۔ ان لونڈیوں کا کیا بھروسہ؟ مگر سدھا نے دفتر میں بلانے کی دھمکی اس کامل اعتماد سے دے دی تھی کہ اس سے آگے پوچھنے کی ہمت لڑکیوں کو نہ ہوئی اور وہ جل کر خاموش رہ گئیں۔
سدھا کا بوڑھا باپ کڑھ کڑھ کر مر گیا۔ کیوں کہ سدھا شادی نہ کرتی تھی اور محلے والے طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرتے تھے اور سدھا کا باپ اپنی بیٹی کو کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ کیوں کہ سدھا جوان اور بالغ تھی اور خود مختار بھی تھی۔ اب وہ گھر میں دو سو روپے لاتی تھی۔ سدھا کا باپ مر گیا اور اس کے مرنے کے بعد اگلے چند سالوں میں سدھا کے بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں اور وہ لوگ اپنی اپنی بیویاں لے کر اپنی اپنی ملازمتوں کے ٹھکانوں پر چلے گئے۔ پھر اس کی چھوٹی بہن بوجے کی بھی شادی ہو گئی۔ پھر اس کی ماں بھی اپنی بڑی بیٹی کے کنوارے پنے کے غم میں سلگ سلگ کر مر گئی اور سدھا اس غم میں اکیلی رہ گئی۔ چند ماہ کے بعد اس نے وہ گھر بھی چھوڑ دیا اور سول لائنز میں ایک عمدہ مکان کی دوسری منزل میں دو کمرے لے کر پے انگ گیسٹ (Paying Guest) کے طور پر رہنے لگی۔ اس کے رہنے کے حصے کا دروازہ الگ سے باہر کھلتا تھا اور اب وہ اپنی نقل و حرکت میں مکمل خودمختار تھی۔ اب وہ پینتیس برس کی ہو چکی تھی مگر مشکل سے تیس برس کی معلوم ہوتی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی اور آنکھوں میں خوشیوں کے سائے ناچتے رہتے۔ وہ پہلے سے زیادہ سنجیدہ اور با وقار ہو گئی تھی۔ وہ اسٹینو بھی ہو گئی تھی۔ اس نے بی۔ اے بھی کر لیا تھا۔ اس کی تنخواہ بھی بڑھ گئی تھی اور کتابیں پڑھنے کا شوق بھی۔۔۔
اب وہ خوش حال اور آرام دہ اور سکون آمیز زندگی بسر کر رہی تھی۔ کئی سال سے وہ اپنی مانگ میں سیندور بھر رہی تھی اور ماتھے پر سہاگ کی بندیا سجاتی تھی اور لوگوں کو یہ تو معلوم نہ تھا کہ اس کی شادی کہاں ہوئی ہے۔ اور کون اس کا خاوند ہے۔ مگر لوگ اتنا جانتے تھے کہ کوئی اس کا ہے، جس کے ساتھ وہ اپنی شامیں گزارتی ہے۔ بلکہ لوگ تو یہاں تک کہتے سنے گئے کہ جو کوئی بھی وہ ہے، اس کی اپنی کچھ وجوہ ہیں، جن کی وجہ سے ان دونوں کی شادی نہیں ہوئی۔ مگر وہ دونوں ہر شام کی تنہائیوں میں ملتے ہیں اور جب دنیا سو جاتی ہے اور جب کوئی کسی کو نہیں دیکھتا۔ جب چاروں طرف نیند غالب آ جاتی ہے ان غنودگی سے لبریز لمحوں میں کوئی سدھا کے یہاں آتا ہے، ہولے سے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور خاموشی سے اندر آ جاتا ہے۔ لوگوں نے اسے دیکھا نہیں تھا۔ مگر لوگوں کا خیال یہی تھا۔ وہ سدھا سے کچھ کہتے نہیں تھے۔ کیوں کہ سدھا اب ایک سنجیدہ اور با وقار عورت بن چکی تھی اور جس کے ماتھے پر سیندور کا یہ بڑا ٹیکا جگمگاتا ہو، اسے کوئی کیا کہہ سکتا ہے؟
وہ شام سدھا کی چالیسویں سالگرہ کی شام تھی اور وہ کئی وجوہ سے سدھا کو کبھی نہیں بھولتی۔ سدھا، موتی کو متھرا روڈ کے جاپانی گارڈن میں لے گئی تھی۔ جس پر باغ کی بجائے کسی خوبصورت منظر کا شبہ ہوتا تھا۔ شفق نے چوٹ کھائی ہوئی عورت کی طرح اپنا منہ چھپا لیا تھا اور رات کی سانولی زلفیں افق پر بکھیر دی تھیں۔ ہولے ہولے تارے نمودار ہونے لگے۔ آج سدھا بہت خاموش تھی۔ موتی بھی چپ چاپ سا تھا۔
وہ اب بھی اسی طرح خوبصورت تھا۔ جیسے جوانی میں تھا۔ اب بھی وہ ہر روز اسی براؤن سوٹ میں آ کر سدھا سے ملتا تھا کہ سدھا کا حکم یہی تھا۔ اسے دیکھ کر یہ گمان ہوتا تھا کہ موتی پر زندگی کے بہاؤ نے اور وقت کے گھاؤ نے زیادہ نشان نہیں چھوڑے۔ صرف کنپٹیوں پر سفید بال آ گئے ہیں جو اس صورت کو اور بھی با وقار اور وجیہہ بناتے تھے اور وہ ایک چھڑی لے کر چلتا تھا جو اس کی پچاسویں سالگرہ پر خود سدھا نے اسے تحفے میں دی تھی۔ ورنہ اس کے علاوہ اس کی صورت شکل میں، کردار اور گفتار میں کسی طرح کا فرق نہ آیا تھا۔ وہ پہلے ہی کی طرح اتنا حسین، دل کش اور دل نواز تھا کہ اسے دیکھتے ہی سدھا کے دل میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی تھیں۔ اتنا وقت گزر جانے کے بعد آج بھی اسے دیکھ کر سدھا کا دل اتنے زور سے دھک دھک کرنے لگا تھا جتنا کہ پہلے روز۔
موتی نے آہستہ سے پوچھا، ’’تم نے مجھ سے شادی کیوں نہیں کی؟‘‘
’’ایک دفعہ انکار کرنے کے بعد۔۔۔‘‘ سدھا نے ہولے سے کہا، ’’تم سے شادی نہیں کی جا سکتی تھی صرف محبت کی جا سکتی تھی۔ اب تم یہ کیسے جان سکو گے کہ جس دن تم نے انکار کیا تھا، اسی دن سے تم میرے ہو گئے تھے۔ اتنا جاننے کے لئے عورت کا دل چاہئے۔‘‘
موتی خاموش رہا۔ بہت دیر کے بعد بولا، ’’آج تو تم چالیس سال کی ہو چکی ہو، کیا تمہیں افسوس نہیں ہوتا کہ تم نے مجھ سے شادی نہیں کی۔‘‘
یہ سن کر سدھا بھی خاموش ہو گئی۔ اتنی دیر خاموشی رہی کہ موتی کو گمان گزرا کہ کہیں سدھا اندر ہی اندر رو رہی ہے۔
’’سدھا۔‘‘ اس نے آہستہ سے اس کا شانہ ہلایا۔
’’میں سوچ رہی تھی۔‘‘ سدھا ہولے سے بولی، ’’تم سے شادی نہ کر کے میں نے کیا کھویا ہے۔ کیا کوئی شام ایسی تھی جو میں نے تمہارے ساتھ نہ گزاری ہو۔ سوچو تو کہاں کہاں ہم نہیں گئے۔ جہاں جہاں میں نے تمہیں بلایا، کیا تم وہاں نہیں پہنچے؟‘‘ اور جس وقت بھی بلایا کیا اسی وقت سب کام چھوڑ کر تم نہیں آئے؟ اگر شادی کا نام رفاقت ہے تو وہ مجھے حاصل ہے۔‘‘
’’پھر یہ بھی سوچو کہ اس طویل رفاقت میں میرا تمہارا ایک بار بھی جھگڑا نہیں ہوا۔ میں نے تمہیں ہمیشہ مہربان اور مسکراتے ہوئے پایا۔ سالہا سال جب میرے ہاتھوں کو تمہارے ہاتھوں کی ضرورت ہوئی، ان کے لمس کی گرمی، میں نے اپنے جسم کے روئیں روئیں میں محسوس کی۔ تمہارے پھول میری زلفوں میں رہے۔ تمہارے بوسے میرے ہونٹوں پر۔ تمہاری وفا میرے دل میں۔ کیا کوئی عورت محبت میں اس سے زیادہ پا سکتی ہے؟‘‘
سدھا نے ایک گہری مسرت سے اپنے آپ کو موتی کے بازوؤں میں ڈھیلا چھوڑ دیا اور پھر اسے محسوس ہوا کہ موتی کے دو بازو نہیں بلکہ چار بازو ہیں بلکہ شاید چھ بازو ہیں، آٹھ بازو ہیں۔ اور وہ اپنے جسم و جاں کے رگ و ریشے میں اس کے بازوؤں کو محسوس کر رہی تھی، جو اسے بھنچ کر اپنے سینے سے لگا رہے تھے اور سدھا نے اپنے آپ کو ان کے بازوؤں کے سپرد کر دیا اور اندر ہی اندر اس طرح کھلتی چلی گئی، جیسے چاندنی کے لمس سے کلی کھل کر پھول بن جاتی ہے۔ جگمگاتے تاروں کے جھرمٹ میں سبز جھالروں والے پیڑوں کی اوٹ سے چاند ابھر آیا تھا اور اب چاند اس کے بالوں میں تھا۔ اس کی آنکھوں میں تھا، اس کے ہونٹوں میں تھا۔ اس کے دل میں تھا اور لہر در لہر اس کی جوئے خوں میں رواں تھا۔ ’’ہائے میرے موتی چور۔ میرے موتی چور۔ میرے میٹھے لڈو۔ میں تو مر گئی تیرے لئے۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد جب سدھا نے آنکھیں کھولیں تو اس کا پر مسرت غنودگی آمیز چہرہ بتا رہا تھا کہ اس سے ابھی ابھی محبت کی گئی ہے۔
وہ شام، وہ رات سدھا کو کبھی نہیں بھولے گی۔ کیوں کہ وہ رات مکمل تھی اور ان دونوں کی زندگیاں مکمل تھیں۔ جیسے وقت اور عمر، چاند اور آرزو سب ایک ساتھ ایک دائرے میں مکمل ہو جائیں اور جذبے کی ایک بوند بھی چھلک کر باہر جانے کی ضرورت محسوس نہ کرے۔ ایسے لمحے کب کسی کی زندگی میں آتے ہیں۔ اور جب آتے ہیں تو اس شدت سے اپنا تاثر چھوڑ جاتے ہیں کہ انسان محسوس کرتا ہے، کہ شاید میں اب تک جیا ہی اس لمحے کے لئے تھا۔ شاید کچھ اسی طرح سدھا نے اس لمحہ میں محسوس کیا اور پھر کبھی اس طرح محسوس نہ کیا، کیوں کہ اس واقعہ کے چند دن بعد، اس کے دفتر کا مینجر تبدیل ہو گیا اور جو مینجر اس کی جگہ آیا۔ اسے سدھا سخت ناپسند کرنے لگی تھی۔ ایک تو وہ بڑا بدصورت تھا۔ کسی زمانے میں اس کا رنگ گورا ضرور رہا ہو گا۔ مگر اب تو پرانے تانبے کا سا تھا اور موٹی ناک پر مسلسل شراب نوشی سے نیلی وریدوں کا جال سا پھیلا تھا۔ اور سدھا کو اپنے نئے مینجر کی ناک دیکھ کر ہمیشہ گمان ہوتا کہ یہ ناک نہیں ایک انجیر ہے جو ابھی باتیں کرتے کرتے اس کے سامنے پھٹ جائے گا۔ اس کے گال جبڑوں پر لٹک گئے تھے۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ گڑھے پڑ گئے تھے۔ سر کے بال اڑ گئے تھے اور جب وہ بات کرتا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مینڈک کسی کائی بھرے تالاب کے اندر سے بول رہا ہو۔ عجیب سی گھن آتی تھی سدھا کو اس سے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ اب دفتر میں اتنے سال سے کام کرتے کرتے وہ ہیڈ اسٹینو بن چکی تھی اور اسے دن بھر مینجر کے کمرے میں رہنا پڑتا تھا اور اس سے اسے انتہائی کوفت ہوتی تھی۔ لیکن اس سے زیادہ کوفت اسے یہ سوچ کر ہوتی تھی کہ اس نے اس بدصورت انسان کو اس سے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ جیسے یہ صورت جانی پہچانی ہو۔ مگر کہاں۔ ذہن اور حافظے پر زور دینے سے بھی اس کی یاد نہ آتی تھی۔
’’اونہہ دیکھا ہو گا، اس مرگھلے کو کناٹ پیلس میں چکر کاٹتے ہوئے کہیں۔‘‘ سدھا اپنے آپ کو سمجھاتے ہوئے کہتی مگر پھر کبھی وہی مینجر کسی فائل کو خود اٹھا کر سدھا کی میز پر رکھتے ہوئے، اپنے ہاتھوں سے ایسی جنبش کرتا کہ سدھا کا ذہن بے چین ہو جاتا اور وہ سوچنے لگتی۔ کون تھا وہ۔ کس سے اس کی یہ حرکت ملتی ہے۔ کیا میرے مرحوم باپ سے۔ میرے کسی بھائی سے۔ جیسے یہ حرکت مجھے کچھ یاد دلاتی ہو۔ مگر کیا۔ غور کرنے پر بھی وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکتی۔ اور پھر اپنا کام کرنے لگتی۔ مگر دن بھر اس کے دل میں ایک خلش سی ہوتی رہتی۔
پہلی تاریخ کو جب تنخواہ بٹ چکی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو نئے مینجر نے سدھا کو کسی کام سے روک لیا اور اسے اپنی میز کے سامنے کرسی پر بٹھا لیا۔ پھر اس نے ایک کینٹ کھول کر اس میں سے ایک گلاس نکالا اور وہسکی کی بوتل اور سوڈا۔ اور پہلا پیگ وہ غٹا غٹ چڑھا گیا۔ سدھا اسے حیرت سے دیکھنے لگی اور غصے سے اٹھ کر جانے لگی کہ مینجر نے نہایت نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جانے سے باز رکھا اور بولا، ’’آج جب تمہاری ترقی کی فائل میرے سامنے آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ اس دفتر میں سب سے پرانی ملازم تم ہو، یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔‘‘
سدھا چپ رہی۔
’’تمہارا نام سدھا ہے نا؟‘‘ مینجر بڑی بے چینی سے بولا۔
سدھا بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اتنے دن سے میرے ساتھ کام کر رہا ہے، کیا یہ میرا نام بھی نہیں جانتا۔ آخر اسے کیا ہوا ہے۔
’’میرا مطلب ہے۔‘‘ مینجر دوسرے پیگ کا ایک بڑا گھونٹ پی کر بولا، ’’تم وہی سدھا ہو نا، جس کے باپ کا نام جیون رام ہے۔‘‘
سدھا بڑی ترش روئی سے بولی، ’’ہاں میرے باپ کا نام بھی فائل میں لکھا گیا ہے، پھر مجھ سے پوچھنے کی ضرورت کیا ہے۔‘‘ وہ تقریباً اٹھتے اٹھتے بولی۔
’’بیٹھو بیٹھو۔‘‘ مینجر نے پھر اس کی منت کرتے ہوئے کہا۔
’’تم نے مجھے پہچانا نہیں؟‘‘وہ اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔
’’نہیں!‘‘ وہ غصے سے بولی۔
’’تم اپنے باپ کے ساتھ محلہ جنداں میں رہتی تھیں نا۔‘‘
’’ہاں!‘‘
’’میں ایک روز تمہارے گھر آیا تھا۔ تمہیں دیکھا بھی تھا۔ تم سے باتیں بھی کی تھیں۔‘‘ بڈھے مینجر نے سدھا سے کہا، ’’اب تم ایک خوبصورت عورت بن چکی ہو، مگر جب تم ایسی نہ تھیں۔ جب تم ایک معمولی سی لڑکی تھیں اور میں نے تمہیں دیکھا تھا اور تم سے باتیں بھی کی تھیں۔‘‘
’’کب، کب؟‘‘ سدھا بے چینی سے بولی۔
بڈھا مینجر دیر تک سدھا کو دیکھتا رہا۔ آخر آہستہ سے بولا، ’’میں موتی ہوں۔‘‘
سدھا سناٹے میں آ گئی۔
’’میں بڑا۔۔۔ میں بڑا بدنصیب تھا جو تم سے شادی نہ کی۔ میں تمہیں اچھی طرح سے دیکھ نہ سکا، سمجھ نہ سکا۔ ان چند لمحوں میں کوئی کیا جان سکتا ہے۔ کیوں کہ ایک صورت جلد کے اندر بھی تو پوشیدہ رہتی ہے۔ میں نوجوان تھا۔ دولت اور گورے رنگ کا لالچی۔ جو بیوی مجھے ملی، وہ دولت بھی لائی تھی اور سفید چمڑا بھی اور اس کے ساتھ ایک مغرور، بدمزاج ظالم اور بے وفا طبیعت بھی لائی تھی۔ چند سالوں ہی میں میرے پانچ بچے ہو گئے۔ ان میں سے کتنے میرے تھے۔ میں کہہ نہیں سکتا۔ مگر لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے تھے اور میں سنتا تھا اور پیتا تھا اور دوسری عورتوں کے پاس جاتا تھا۔ پھر زہر بیماری کا، اور شراب کا، اور ناکامی کا، اور بے مہری کا، میری رگ رگ میں پھیل گیا اور میں وقت سے پہلے بوڑھا ہو گیا اور بجھ گیا۔ اب وہ مر چکی ہے۔ اس لئے میں اسے کچھ نہ کہوں گا اور اسے کہوں بھی کیا۔ قصور تو میرا ہے۔ میری ان آنکھوں کا جو تمہیں پہچان نہ سکیں۔ میری آنکھوں نے ایک ہیرا دیکھا اور پتھر سمجھ کر پھینک دیا۔ کیا تم مجھے کسی طرح معاف نہیں کر سکتیں۔ کیا تم مجھ سے شادی نہیں کر سکتیں۔ میری عمر زیادہ نہیں ہے۔ مجھے تو محبت بھی نہیں ملی۔ جس کے لئے میں ساری عمر ترستا رہا۔‘‘
وہ کہے جا رہا تھا اور وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی اور اس کی جی چاہتا تھا کہ وہ اس سے کہے، ’’اب تم آئے ہو،بوڑھے بدصورت اور گنجے ہو کر، خوفناک بیماریوں کا شکار۔ اب تم مجھ سے شادی کے لئے کہہ رہے ہو۔ مگر میں نے تو اپنی ساری زندگی تمہیں دے دی اور تمہیں معلوم تک نہ ہوا کہ میں نے اپنی ساری جوانی تمہارے تصور میں کھو دی اور زندگی کی ہر بہار تمہارے خیال میں گنوا دی اور شباب کی ہر مچلتی ہوئی آرزو تمہاری ایک نگاہ کے لئے لٹا دی۔ زندگی بھر میں سڑکوں پر اکیلی چلتی رہی، تمہارے سائے کے ساتھ۔ اندھیرے پارکوں میں بیٹھی رہی تمہارے تصور کے ساتھ۔ میں نے خود اپنے ہاتھ سے خرچ کر کے تم سے ساڑھیوں کے تحفے لئے۔ تمہارا زیور پہنا، اپنی محنت کا خون کر کے سینما دیکھا اور اپنے ساتھ کی سیٹ خالی رکھ کر۔ میرا باپ مر گیا۔ میری ماں مر گئی اور میری کوکھ کے بچے مجھے دور ہی دور سے بلاتے رہے اور میں کسی کے پاس نہ گئی۔ تمہارے خیال کو حرز جاں بنائے ہوئے، اپنے کنوار پن کے چالیس سال، آنکھیں، کان اور ہونٹ بند کر کے تمہاری آرزو میں بتا دیئے تھے۔ میں کتنی خوش تھی۔ کتنی مگن تھی۔ میں نے تو تم سے کبھی کچھ نہ مانگا۔ نہ شادی کا پھیرا، نہ سہاگ کی رات، نہ بچے کا تبسم! بس صرف ایک تصور، ایک جھلک، ایک عکس رخ یار ہی تم سے مستعار لیا تھا اور تم آج اسے بھی جہنم کی چتا میں جلانے کے لئے میرے شہر میں چلے آئے ہو؟‘‘
مگر سدھا، موتی سے کچھ نہ کہہ سکی۔ وہ میز پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور جب موتی نے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا تو وہ غصے سے جھنجھلا گئی اور اس کا ہاتھ جھٹک کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ باہر نکل کر سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی۔ موتی اسے بلاتا ہی رہا۔ وہ بھاگ کر سڑک پر جا پہنچی۔ سڑک پر اندھیرا تھا مگر پھر بھی بجلی کی بتیوں کی اتنی روشنی تھی کہ لوگ اس کے آنسو دیکھ لیتے مگر اس نے کسی کی پرواہ نہ کی اور وہ روتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ آصف علی پارک کے قریب پہنچ کر وہ ٹھٹکی۔ ایک لمحے کے لئے اسے خیال آیا کہ وہ پارک کے اندر جا کر، کسی پیڑ کے تنے سے سر ٹیک کر بیٹھ جائے۔ مگر پھر اس نے سوچا، ’’بے سود ہے، سب بے سود ہے۔ میرے خیالوں کا شہزادہ اب وہاں نہ آئے گا۔ اب وہ کبھی میرے پاس نہ آئے گا۔‘‘
جب وہ یہ کچھ سوچ رہی تھی تو اس نے اپنی مانگ کا سیندور مٹا ڈالا اور سہاگ کی بندیا کھرچ لی اور پارک کی ریلنگ پر اپنی ساری چوڑیاں توڑ ڈالیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ اب وہ ساری عمر کے لئے بیوہ ہو چکی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.