پت جھڑ کی آواز
کہانی کی کہانی
یہ کہانی کے مرکزی کردار تنویر فاطمہ کی زندگی کے تجربات اور ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ تنویر فاطمہ ایک اچھے خاندان کی تعلیم یافتہ لڑکی ہے لیکن زندگی جینے کا فن اسے نہیں آتا۔ اس کی زندگی میں یکے بعد دیگرے تین مرد آتے ہیں۔ پہلا مرد خشوقت سنگھ ہےجو خود سے تنویر فاطمہ کی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ دوسرا مرد فاروق، پہلے خشوقت سنگھ کے دوست کی حیثیت سے اس سے واقف ہوتا ہے اور پھر وہی اسکا سب کچھ بن جاتا ہے۔ اسی طرح تیسرا مرد وقار حسین ہے جو فاروق کا دوست بن کر آتا ہے اور تنویر فاطمہ کو ازدواجی زندگی کی زنجیروں میں جکڑ لیتا ہے۔ تنویر فاطمہ پوری کہانی میں صرف ایک بار اپنے مستقبل کے بارے میں خوشوقت سنگھ سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ فیصلہ اس کے حق میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی میں آئے اس پہلے مرد خشوقت سنگھ کو کبھی بھول نہیں پاتی ہے۔
صبح میں گلی کے دروازے میں کھڑی سبزی والے سے گوبھی کی قیمت پر جھگڑ رہی تھی۔ اوپر باورچی خانے میں دال چاول ابالنے کے لیے چڑھا دیئے تھے۔ ملازم سودا لینے کے لیے بازار جا چکا تھا۔ غسل خانے میں وقار صاحب چینی کی چمچی کے اوپر لگے ہوئے مدھم آئینے میں اپنی صورت دیکھتے ہوئے گنگنا رہے تھے اور شیو کرتے جاتے تھے۔ میں سبزی والے سے بحث کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے میں مصروف تھی کہ رات کے کھانے کے لیے کیا کیا تیار کیا جائے۔ اتنے میں سامنے ایک کار آن کر رکی۔ ایک لڑکی نے کھڑکی سے جھانکا اور پھر دروازہ کھول کر باہر اترآئی۔ میں پیسے گن رہی تھی۔ اس لیے میں نے اسے نہ دیکھا۔ وہ ایک قدم آگے بڑھی۔ اب میں نے سر اٹھاکر اس پر نظر ڈالی۔
’’ارے۔۔۔ تم۔۔۔‘‘ اس نے ہکا بکا ہوکر کہا اور وہیں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ ایسا لگا جیسے وہ مدتوں سے مجھے مردہ تصور کرچکی ہے، اور اب میرا بھوت اس کے سامنے کھڑا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک لحظہ کے لیے جو دہشت میں نے دیکھی اس کی یاد نے مجھے باولا کردیا ہے۔ میں تو سوچ سوچ کے دیوانی ہوجاؤں گی۔
یہ لڑکی (اس کا نام ذہن میں محفوظ نہیں، اور اس وقت میں نے جھینپ کے مارے اس سے پوچھا بھی نہیں، ورنہ وہ کتنا برا مانتی) میرے ساتھ دلی کے کوئین میری میں پڑھتی تھی۔ یہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں اس وقت کوئی سترہ سال کی رہی ہوں گی۔ مگر میری صحت اتنی اچھی تھی کہ اپنی عمر سے کہیں بڑی معلوم ہوتی تھی، اور میری خوب صورتی کی دھوم مچنی شروع ہوچکی تھی۔ دلّی میں قاعدہ تھا کہ لڑکے والیاں اسکول اسکول گھوم کے لڑکیاں پسند کرتی پھرتی تھیں، اور جو لڑکی پسند آتی تھی اس کے گھر رقعہ بھجوادیا جاتا تھا۔
اسی زمانے میں مجھے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کی ماں، خالہ وغیرہ نے مجھے پسند کرلیا ہے (اسکول ڈے کے جلسے کے روز دیکھ کر) اور اب وہ مجھے بہو بنانے پر تلی بیٹھی ہیں۔ یہ لوگ نور جہاں روڈ پر رہتے تھے اور لڑکا حال ہی میں ریزرو بنک آف انڈیا میں دو ڈیڑھ سو روپے ماہوار کا نوکر ہوا تھا۔ چنانچہ رقعہ میرے گھر بھجوایا گیا۔ مگر میری اماں جان میرے لیے بڑے اونچے خواب دیکھ رہی تھیں۔ میرے والدین دلّی سے باہر میرٹھ میں رہتے تھے اور ابھی میرے بیاہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا لہٰذا وہ پیغام فی الفور نا منظور کردیا گیا۔
اس کے بعد اس لڑکی نے کچھ عرصے میرے ساتھ کالج میں بھی پڑھا۔ پھر اس کی شادی ہوگئی اور وہ کالج چھوڑ کر چلی گئی۔ آج اتنے عرصے بعد لاہور کی مال روڈ کے پچھواڑے اس گلی میں میری اس سے مڈبھیڑہوئی۔ میں نے اس سے کہا، ’’اوپر آؤ۔۔۔ چائے وائے پیو۔ پھر اطمینان سے بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ لیکن اس نے کہا، میں جلدی میں کسی سسرالی رشتے دار کا مکان تلاش کرتی ہوئی اس گلی میں آنکلی تھی۔ انشاء اللہ پھر کبھی ضرور آؤں گی۔‘‘
اس کے بعد وہیں کھڑے کھڑے اس نے جلدی جلدی نام بنام ساری پرانی دوستوں کے قصے سنائے۔ کون کہاں ہے اور کیا کررہی ہے۔ سلیمہ بریگیڈیر فلاں کی بیوی ہے۔ چار بچے ہیں۔ فرخندہ کامیاں فارن سروس میں ہے۔ اس کی بڑی لڑکی لندن میں پڑھ رہی ہے۔ ریحانہ فلاں کالج میں پرنسپل ہے۔ سعدیہ امریکہ سے ڈھیروں ڈگریاں لے آئی ہے اور کراچی میں کسی اونچی ملازمت پر براجمان ہے۔ کالج کی ہندو ساتھیوں کے حالات سے بھی وہ باخبر تھی۔ پربھا کا میاں انڈین نیوی میں کموڈور ہے۔ وہ بمبئی میں رہتی ہے۔ سرلا آل انڈیا ریڈیو میں اسٹیشن ڈائرکٹر ہے اور جنوبی ہند میں کہیں تعینات ہے۔ لوتیکا بڑی مشہور آرٹسٹ بن چکی ہے اور نئی دلی میں اس کا اسٹوڈیو ہے، وغیرہ وغیرہ۔ وہ یہ سب باتیں کررہی تھی مگر اس کی آنکھوں کی اس دہشت کو میں نہ بھول سکی۔
اس نے کہا، ’’میں سعدیہ، ریحانہ وغیرہ جب بھی کراچی میں اکٹھے ہوتے ہیں تمہیں برابر یاد کرتے ہیں۔‘‘
’’واقعی۔۔۔؟‘‘ میں نے کھوکھلی ہنسی ہنس کر پوچھا۔ معلوم تھا مجھے کن الفاظ میں یاد کیا جاتا ہوگا۔ پچھلی پائیاں، ارے کیا یہ لوگ میری سہیلیاں تھیں؟ عورتیں دراصل ایک دوسرے کے حق میں چڑیلیں ہوتی ہیں۔ کٹنیاں، حرافائیں، اس نے مجھ سے یہ بھی نہیں دریافت کیا کہ میں یہاں نیم تاریک سنسان گلی میں اس کھنڈر ایسے مکان کے شکستہ زینے پر کیا کررہی ہوں، اسے معلوم تھا۔
عورتوں کی انٹلی جنس سروس اتنی زبردست ہوتی ہے کہ انٹر پول بھی اس کے آگے پانی بھرے، اور پھر میرا قصہ توالم نشرح ہے۔ میری حیثیت کوئی قابل ذکر نہیں گمنام ہستی ہوں۔ اس لیے کسی کو میری پروا نہیں۔ خود مجھے بھی اپنی پروا نہیں۔
میں تنویر فاطمہ ہوں۔ میرے ابا میرٹھ کے رہنے والے تھے۔ معمولی حیثیت کے زمین دار تھے۔ ہمارے یہاں بڑا سخت پردہ کیا جاتا تھا۔ خود میرا میرے چچا زاد، پھوپھی زاد بھائیوں سے پردہ تھا۔ میں بے انتہا لاڈوں کی پلی چہیتی لڑکی تھی۔ جب میں نے اسکول میں بہت سے وظیفے حاصل کرلیے تو میٹرک کرنے کے لیے خاص طور پر میرا داخلہ کوئین میری اسکول میں کرایا گیا۔ انٹر کے لیے میں علی گڑھ بھیج دی گئی۔ علی گڑھ گرلز کالج کا زمانہ میری زندگی کا بہترین دور تھا کیسا خواب آگیں دور تھا۔ میں جذبات پرست نہیں لیکن اب بھی جب کالج کا صحن، روشیں، گھاس کے اونچے پودے، درختوں پر جھکی بارش، نمائش کے میدان میں گھومتے ہوئے کالے برقعوں کے پرے، ہوسٹل کے پتلے پتلے برآمدوں چھوٹے چھوٹے کمروں کی وہ شدید گھریلو فضائیں یاد آتی ہیں تو جی ڈوب سا جاتا ہے۔
ایم۔ ایس۔ سی کے لیے میں پھر دلی آگئی۔ یہاں کالج میں میرے ساتھ یہی سب لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ ریحانہ، سعدیہ، پر بھا، فلانی، ڈھماکی، مجھے لڑکیاں کبھی پسند نہ آئیں۔ مجھے دنیا میں زیادہ تر لوگ پسند نہیں آئے۔ بیش تر لوگ محض تضیع اوقات ہیں۔ میں بہت مغرور تھی۔ حسن ایسی چیز ہے کہ انسان کا دماغ خراب ہوتے دیر نہیں لگتی۔ پھر میں تو بقول شخصے لاکھوں میں ایک تھی۔ شیشے کا ایسا جھلکتا ہوا رنگ سرخی مائل سنہرے بال۔ بے حد شان دار ڈیل ڈول بنارسی ساری پہن لوں تو بالکل کہیں کی مہارانی معلوم ہوتی تھی۔
یہ جنگ کا زمانہ تھا، یا شاید جنگ اسی سال ختم ہوئی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔ بہرحال دلی پر بہار آئی ہوئی تھی۔ کروڑپتی کاروباریوں اور حکومت ہند کے اعلیٰ افسروں کی لڑکیاں۔۔۔ ہندو، سکھ، مسلمان۔۔۔ لمبی لمبی موٹروں میں اڑی اڑی پھرتیں نت نئی پارٹیاں، جلسے، ہنگامے، آج اندر پرستھ کالج میں ڈراما ہے، کل میرا نڈا ہاؤس میں، پرسوں لیڈی ارون کالج میں کونسرٹ ہے۔ لیڈی ہارڈنگ اور سینٹ اسٹیفن کالج۔۔۔ چیمسفرڈ کلب، روشن آرا، امپریل جم خانہ، غرض کہ ہر طرف الف لیلہ کے باب بکھرے پڑے تھے۔ ہر جگہ نوجوان فوجی افسروں اور سول سروس کے بن بیاہے عہدے داروں کے پرے ڈولتے نظر آتے۔ ایک ہنگامہ تھا۔
پربھا اور سرلا کے ہم راہ ایک روز میں دلجیت کورکے یہاں جو ایک کروڑ پتی کنٹریکٹر کی لڑکی تھی کنگ ایڈورڈ روڈ کی ایک شان دار کوٹھی میں گارڈن پارٹی کے لیے مدعو تھی۔
یہاں میری ملاقات میجر خوشوقت سنگھ سے ہوئی۔ یہ جھانسی کی طرف کا چوہان راجپوت تھا۔ لمبا تڑنگا کالا بھجنگ، لانبی لانبی اوپر کو مڑی ہوئی نوکیلی مونچھیں، بے حد چمکیلے اور خوب صورت دانت، ہنستا تو بہت اچھا لگتا۔ غالب کا پرستار تھا، بات بات پر شعر پڑھتا، قہقہے لگاتا اور جھک جھک کر بے حد اخلاق سے سب سے باتیں کرتا۔ اس نے ہم کو دو سرے روز سنیما چلنے کی دعوت دی۔ سرلا، پربھا، وغیرہ ایک بد دماغ لڑکیاں تھیں اور خاصی قدامت پسند، وہ لڑکوں کے ساتھ باہر گھومنے بالکل نہیں جاتی تھیں۔ خوش وقت سنگھ، دلجیت کے بھائی کا دوست تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کیا جواب دوں کہ اتنے میں سرلا نے چپکے سے کہا۔۔۔ ’’خوش وقت سنگھ کے ساتھ ہرگز سنیما مت جانا۔۔۔ سخت لوفڑ لڑکا ہے۔۔۔‘‘ میں چپ ہوگئی۔
اس زمانے میں نئی دلی کی دو ایک آوارہ لڑکیوں کے قصے بہت مشہور ہورہے تھے اور میں سوچ سوچ کر ڈرا کرتی تھی۔ شریف گھرانوں کی لڑکیاں اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کس طرح لوگوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہیں۔ ہوسٹل میں ہم اکثر اس قسم کی لڑکیوں کے لیے قیاس آرائیاں کیا کرتے یہ بڑی عجیب اور پر اسرار ہستیاں معلوم ہوتیں۔ حالانکہ دیکھنے میں وہ بھی ہماری طرح ہی کی لڑکیاں تھیں۔ ساڑیوں اور شلواروں میں ملبوس۔ طرح دار، خوب صورت پڑھی لکھی۔
’’لوگ بدنام کردیتے ہیں جی۔۔۔‘‘ سعدیہ دماغ پر بہت زور ڈال کر کہتی۔۔۔ ’’اب ایسا بھی کیا ہے۔‘‘
’’دراصل ہماری سوسائٹی اس قابل ہی نہیں ہوئی کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ہضم کرسکے۔۔۔‘‘ سرلا کہتی۔ ’’ہوتا یہ ہے کہ لڑکیاں احساس توازن کھو بیٹھتی ہیں‘‘ریحانہ رائے دیتی۔
بہرحال کسی طرح یقین نہ آتا کہ یہ ہماری جیسی، ہمارے ساتھ کی چند لڑکیاں ایسی ایسی خوف ناک حرکتیں کس طرح کرتی ہیں۔
دوسری شام میں لیبارٹری کی طرف جارہی تھی کہ نکلسن میموریل کے قریب ایک قرمزی رنگ کی لمبی سی کار آہستہ سے رک گئی۔ اس میں سے خوشوقت سنگھ نے جھانکا اور اندھیرے میں اس کے خوب صورت دانت جھلملائے۔ ’’اجی حضرت! یوں کہیے کہ آپ اپنا اپوائیٹمنٹ بھول گئیں!‘‘
’’جی۔۔۔!‘‘ میں نے ہڑ بڑا کر کہا۔ ’’حضور والا۔۔۔ چلیے میرے ساتھ فوراً۔ یہ شام کا وقت لیبارٹری میں گھس کر بیٹھنے کا نہیں ہے۔ اتنا پڑھ کر کیا کیجئے گا۔۔۔؟‘‘ میں نے بالکل غیر ارادی طور پر چاروں طرف دیکھا اور کار میں دبک کر بیٹھ گئی۔ہم نے کناٹ پلیس جاکر ایک انگریزی فلم دیکھی۔
اس کے اگلے روز بھی۔۔۔
اس کے بعد ایک ہفتے تک میں نے خوب خوب سیریں اس کے ساتھ کیں۔ وہ میڈنز میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اس ہفتے کے آخر تک میں میجر خوشوقت سنگھ کی مسٹریس بن چکی تھی۔
میں لٹریری نہیں ہوں، میں نے چینی، جاپانی، روسی، انگریزی یا اردو شاعری کا مطالعہ نہیں کیا۔ ادب پڑھنا میرے نزدیک وقت ضائع کرنا ہے۔۔۔ پندرہ برس کی عمر سے سائنس میرا اوڑھنا بچھونا رہا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ مابعد الطبیعاتی تصوارت کیا ہوتے ہیں۔ Mystic کشش کے کیا معنی ہیں۔ شاعری اور فلسفے کے لیے نہ میرے پاس فرصت جب تھی نہ اب ہے۔ میں بڑے بڑے مبہم، غیر واضح اور پر اسرار الفاظ بھی استعمال نہیں کرسکتی۔
بہرحال پندرہ روز کے اندر اندر یہ واقعہ بھی کم وبیش کالج میں سب کو معلوم ہوچکا تھا۔ لیکن مجھ میں اپنے اندر ہمیشہ سے بڑی عجیب سی خود اعتمادی تھی، میں نے اب پروا نہیں کی۔ پہلے بھی میں لوگوں سے بول چال بہت کم رکھتی تھی۔ سرلا وغیرہ کا گروہ اب مجھے ایسی نظروں سے دیکھتا گویا میں مریخ سے اتر کر آئی ہوں یا میرے سر پر سینگ ہیں۔ ڈائننگ ہال میں میرے باہر جانے کے بعد گھنٹوں میرے قصے دہرائے جاتے۔ اپنی انٹلی جنس سروس کے ذریعے میرے اور خوشوقت سنگھ کے بارے میں ان کو پل پل کی خبر رہتی۔ ہم لوگ شام کو کہاں گئے۔۔۔ رات نئی دلی کے کون سے بال روم میں ناچے (خوش وقت معرکے کا ڈانسر تھا۔ اس نے مجھے ناچنا بھی سکھا دیا تھا) خوشوقت نے مجھے کیا کیا تحائف کون کون سی دکانوں سے خرید کر دیئے۔
خوشوقت سنگھ مجھے مارتا بہت تھا اور مجھ سے اتنی محبت کرتا تھا جو آج تک دنیا میں کسی مرد نے کسی عورت سے نہ کی ہوگی۔
کئی مہینے گزر گئے۔ میرے ایم۔ ایس۔ سی پریویس کے امتحان سر پر آگئے اور میں پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔ امتحانات کے بعد اس نے کہا، ’’جان من۔۔۔ دل ربا! چلو کسی خاموش سے پہاڑ پر چلیں۔۔۔ سولن، ڈلہوزی، لینسڈاؤن۔۔۔‘‘ میں چند روز کے لیے میرٹھ گئی اور ابا سے یہ کہہ کر (اماں جان کا جب میں تھرڈ ایر میں تھی تو انتقال ہوگیا تھا) دلی واپس آگئی کہ فائنل ایر کے لیے بے حد پڑھائی کرنی ہے، شمالی ہند کے پہاڑی مقامات پر بہت سے شناساؤں کے ملنے کا امکان تھا اس لیے ہم دور جنوب میں اوٹی چلے گئے وہاں مہینہ بھر رہے۔ خوشوقت کی چھٹی ختم ہوگئی تو دلی واپس آکر تیمار پور کے ایک بنگلے میں ٹک گئے۔
کالج کھلنے سے ایک ہفتہ قبل خوش وقت کی اور میری بڑی زبردست لڑائی ہوئی۔ اس نے مجھے خوب مارا۔ اتنا مارا کہ میرا سارا چہرہ لہو لہان ہوگیا، اور میری بانہوں میں اور پنڈلیوں پر نیل پڑگئے۔ لڑائی کی وجہ اس کی وہ مردار عیسائی منگیتر تھی جو جانے کہاں سے ٹپک پڑی تھی اور سارے میں میرے خلاف زہر اگلتی پھر رہی تھی۔ اگر اس کا بس چلتا تو مجھے کچا چبا جاتی۔ یہ چار سو بیس لڑکی جنگ کے زمانے میں فوج میں تھی اور خوشوقت کو برما کے محاذ پر ملی تھی۔ خوش وقت نے جانے کس طرح اس سے شادی کا وعدہ کرلیا تھا۔ لیکن مجھ سے ملنے کے بعد اب وہ اس کی انگوٹھی واپس کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔
اس رات تیمارپور کے اس سنسان بنگلے میں اس نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور رو رو کر مجھ سے کہا کہ میں اس سے بیاہ کرلوں، ورنہ وہ مرجائے گا۔ میں نے کہا ہرگز نہیں۔ قیامت تک نہیں۔ میں اعلیٰ خاندان سید زادی، بھلا اس کالے تمباکو کے پنڈے ہندو جاٹ سے بیاہ کرکے خاندان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگاتی۔ میں تو اس حسین وجمیل کسی بہت اونچے مسلمان گھرانے کے چشم وچراغ کے خواب دیکھ رہی تھی جو ایک روز دیر یا سویر برات لے کر مجھے بیاہنے آئے گا۔ ہمارا آرسی مصحف ہوگا۔ میں سہرے جلوے سے رخصت ہوکر اس کے گھر جاؤں گی۔ بجلی بسنت نندیں دروازے پر دہلیز روک کر اپنے بھائی سے نیگ کے لیے جھگڑیں گی۔ میراثنیں ڈھولک لیے کھڑی ہوں گی۔ کیا کیا کچھ ہوگا۔ میں نے کیا ہندو مسلم شادیوں کا حشر دیکھا نہیں تھا۔ کیئوں نے ترقی پسند یا جذبۂ عشق کے جوش میں آکر ہندوؤں سے بیاہ رچائے اور سال بھر کے اندر جوتیوں میں دال بٹی۔ بچوں کا جو حشر خراب ہوا وہ الگ۔۔۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔میرے انکار پر خوشوقت نے جوتے لات سے مار مار کر میرا بھرکس نکال دیا اور تیسرے دن اس ڈائن کالی بلا کیتھرین دھرم داس کے ساتھ آگرے چلا گیا جہاں اس نے اس بد ذات لڑکی سے سول میرج کرلی۔
جب میں نئی ٹرم کے آغاز پر ہوسٹل پہنچی تو اس حلیے سے کہ میرے سر اور چہرے پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ ابا کو میں نے لکھ بھیجا کہ لیبارٹری میں ایک تجربہ کررہی تھی، ایک خطرناک مادہ بھک سے اڑا اور اس سے میرا منہ تھوڑا سا جل گیا۔ اب بالکل ٹھیک ہوں۔ فکر نہ کیجئے۔
لڑکیوں کو تو سارا قصہ پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا لہٰذا انہوں نے اخلاقاً میری خیریت بھی نہ پوچھی۔ اتنے بڑے اسکینڈل کے بعد مجھے ہوسٹل میں رہنے کی اجازت نہ دی جاتی مگر ہوسٹل کی وارڈن خوشوقت سنگھ کی بہت دوست تھی۔ اس لیے سب خاموش رہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس کسی طرح کا ثبوت بھی نہ تھا۔ کالج کی لڑکیوں کو لوگ یوں بھی خواہ مخواہ بدنام کرنے پر تلے رہتے ہیں۔
مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے، جیسے کل کی بات ہو۔ صبح کے دس گیارہ بجے ہوں گے۔ ریلوے اسٹیشن سے لڑکیوں کے تانگے آ آکر پھاٹک میں داخل ہورہے تھے۔ ہوسٹل کے لان پر برگد کے درخت کے نیچے لڑکیاں اپنا اپنا اسباب اتروا کر رکھوا رہی تھیں۔ بڑی سخت چل پوں مچا رکھی تھی۔ جس وقت میں اپنے تانگے سے اتری وہ میرا ڈھاٹے سے بندھا ہوا سفید چہرہ دیکھ کر ایسی حیرت زدہ ہوئیں جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ میں نے سامان چوکیدار کے سر پر رکھوایا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
دوپہر کو جب میں کھانے کی میز پر آن کر بیٹھی تو ان قطاماؤں نے مجھ سے اس اخلاق سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں جن سے اچھی طرح یہ ظاہر ہوجائے کہ میرے حادثے کی اصل وجہ جانتی ہیں اور مجھے ندامت سے بچانے کے لیے اس کا تذکرہ ہی نہیں کررہی ہیں۔ ان میں سے ایک نے جو اس چنڈال چوکڑی کی گرو اور ان سب کی استاد تھی، رات کو کھانے کی میز پر فیصلہ صادر کیا کہ میں نفسیات کی اصطلاح میں Nympho-Maniac ہوں (مجھے میری جاسوس کے ذریعے یہ اطلاع فوراً اوپر پہنچ گئی، جہاں میں اس وقت اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس ٹیبل لیمپ لگائے پڑھائی میں مصروف تھی)اور اس طرح کی باتیں تو اب عام تھیں کہ ایک مچھلی سارے جل کو گندا کرتی ہے۔ اسی لیے تو لڑکیوں کی بے پردگی آزادی خطرناک اور اعلیٰ تعلیم بدنام ہے وغیرہ وغیرہ۔
میں اپنی حد تک سوفی صدی ان آراء سے متفق تھی۔ میں خود سوچتی تھی کہ بعض اچھی خاصی بھلی چنگی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں آوارہ کیوں ہوجاتی ہیں۔ ایک تھیوری تھی کہ وہی لڑکیاں آوارہ ہوتی ہیں جن کا ’آئی۔ کیئو‘ بہت کم ہوتا ہے۔ ذہین انسان کبھی اپنی تباہی کی طرف جان بوجھ کر قدم نہ اٹھائے گا۔ مگر میں نے تو اچھی خاصی سمجھ دار تیز وطرار لڑکیوں کو لوفری کرتے دیکھا تھا۔ دوسری تھیوری تھی کہ سیرو تفریح، روپے پیسے، عیش وآسایش کی زندگی، قیمتی تحائف کا لالچ، رومان کی تلاش، ایڈونچر کی خواہش، یا محض اکتاہٹ، یا پردے کی قید وبند کے بعد آزادی کی فضا میں داخل ہوکر پرانی اقدار سے بغاوت۔ اس صورت حال کی چند وجوہ ہیں۔یہ سب باتیں ضرور ہوں گی ورنہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
میں فرسٹ ٹرمنل امتحان سے فارغ ہوئی تھی کہ خوشوقت پھر آن پہنچا۔ اس نے مجھے لیبارٹیری فون کیا کہ میں نرولا میں چھ بجے اس سے ملوں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ وہ کیتھرین کو اپنے ماں باپ کے یہاں چھوڑ کر سرکاری کام سے دلی آیا تھا اس مرتبہ ہم ہوائی جہاز سے ایک ہفتے کے لیے بمبئی چلے گئے۔
اس کے بعد اس سے ہر دوسرے تیسرے مہینے ملنا ہوتا رہا۔ ایک سال نکل گیا، اب کے سے جب وہ دلی آیا تو اس نے اپنے ایک جگری دوست کو مجھے لینے کے لیے موٹر لے کر بھیجا۔ کیونکہ وہ لکھنو سے لاہور جاتے ہوئے پالم پر چند گھنٹے کے لیے ٹھہرا تھا۔ یہ دوست دلی کے ایک بڑے مسلمان تاجر کا لڑکا تھا۔ لڑکا تو خیرنہیں کہنا چاہئے اس وقت بھی وہ چالیس کے پیٹے میں رہا ہوگا۔ بیوی بچوں والا۔ تاڑ کا سا قد بے حد غلط انگریزی بولتا تھا۔ کال، بدقطع، بالکل چڑی مار کی شکل، ہوش صفت۔
خوشوقت اب کی مرتبہ دلی سے گیا تو پھر کبھی واپس نہ آیا کیونکہ اب میں فاروق کی مسٹریس بن چکی تھی۔
فاروق کے ساتھ اب میں اس کی ’منگیتر‘ کی حیثیت سے باقاعدہ دلی کی اونچی سوسائٹی میں شامل ہوگئی۔ مسلمانوں میں تو چار شادیاں جائز ہیں لہٰذا یہ کوئی بہت بری بات نہ تھی۔ یعنی مذہب کے نقطہ نگاہ سے کہ وہ اپنی ان پڑھ، ادھیڑ عمر کی پردے کی بوبو کی موجودگی میں ایک تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا جو چار آدمیوں میں ڈھنگ سے اٹھ بیٹھ سکے اور پھر دولت مند طبقے میں سب کچھ جائز ہے۔ یہ تو ہماری مڈل کلاس کے قوانین ہیں کہ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو۔۔۔
طویل چھٹیوں کے زمانے میں فاروق نے بھی مجھے خوب سیریں کرائیں۔ کلکتہ، لکھنؤ، اجمیر، کون جگہ تھی جو میں نے اس کے ساتھ نہ دیکھی۔ اس نے مجھے ہیرے جواہرات کے گہنوں سے لاد دیا۔ ابا کو لکھ بھیجتی تھی کہ یونی ورسٹی کے طالب علموں کے ہمراہ ٹور پر جارہی ہوں یا فلاں جگہ ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کے لیے مجھے بلایا گیا ہے ۔لیکن ساتھ ہی ساتھ مجھے اپنا تعلیمی ریکارڈ اونچا رکھنے کی دھن تھی۔ فائنل امتحان میں میں نے بہت ہی خراب پرچے کیے اور امتحان ختم ہوتے ہی گھر چلی گئی۔
اسی زمانے میں دلی میں گڑ بڑ شروع ہوئی اور فسادات کا بھونچال آگیا۔ فاروق نے مجھے میرٹھ خط لکھا کہ تم فوراً پاکستان چلی جاؤ۔ میں تم سے وہیں ملوں گا۔ میرا پہلے ہی سے یہ ارادہ تھا ابا بھی بے حد پریشان تھے اور یہی چاہتے تھے کہ ان حالات میں اب میں انڈیا میں نہ رہوں جہاں شریف مسلمان لڑکیوں کی عزتیں مستقل خطرے میں ہیں۔ پاکستان اپنا اسلامی ملک تھا۔ اس کی بات ہی کیا تھی۔ ابا جائیداد وغیرہ کی وجہ سے فی الحال ترک وطن نہ کرسکتے تھے۔ میرے بھائی دونوں بہت چھوٹے چھوٹے تھے اور اماں جان کے انتقال کے بعد ابا نے ان کو میری خالہ کے پاس حیدر آباد دکن بھیج دیا تھا۔
میرا رزلٹ نکل چکا تھا اور میں تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئی تھی۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ جب بلووں کا زور ذرا کم ہوا تو میں ہوائی جہاز سے لاہور آگئی۔ فاروق میرے ساتھ آیا۔ اس نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ اپنے کاروبار کی ایک شاخ پاکستان میں قائم کرکے لاہور اس کا ہیڈ آفس رکھے گا۔ مجھے اس کا مالک بنائے گا اور وہیں مجھ سے شادی کرلے گا۔ وہ دلی سے ہجرت نہیں کر رہا تھا کیونکہ اس کے باپ بڑے احراری خیالات کے آدمی تھے۔ پلان یہ تھا کہ وہ ہر دوسرے تیسرے مہینے دلی سے لاہور آتا رہےگا۔ لاہور میں افراتفری تھی حالانکہ ایک سے ایک اعلیٰ کوٹھی الاٹ ہوسکتی تھی، مگر فاروق یہاں کسی کو جانتا نہ تھا۔ بہرحال سنت نگر میں ایک چھوٹا سا مکان میرے نام الاٹ کراکے اس نے مجھے وہاں چھوڑ دیا اور میری دوسراتھ کے لیے اپنے ایک دور کے رشتے دار کنبے کو میرے پاس ٹھہرادیا جو مہاجر ہوکے لاہور آئے تھے اور مارے مارے پھر رہے تھے۔۔۔
میں زندگی کی اس یک بیک تبدیلی سے اتنی ہکا بکا تھی کہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا سے کیا ہوگیا۔ کہاں غیر منقسم ہندوستان کی وہ بھرپور، دلچسپ رنگا رنگ دنیا کہاں ۴۸کے لاہور کا وہ تنگ وتاریک مکان۔ غریب الوطنی۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔ میں نے کیسے کیسے دل ہلا دینے والے زمانے دیکھیں ہیں۔
میں اتنی خالی الذہن ہوچکی تھی کہ میں نے تلاشِ ملازمت کی بھی کوئی کوشش نہ کی۔ روپے کی طرف سے فکر نہ تھی کیونکہ فاروق میرے نام دس ہزار روپیہ جمع کرا گیا تھا (صرف دس ہزار وہ خود کروڑوں کا آدمی تھا مگر اس وقت میری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ اب بھی نہیں آتا)
دن گزرتے گئے۔ میں صبح سے شام تک پلنگ پر پڑی فاروق کے رشتے کی خالہ یا نانی جو کچھ بھی وہ بڑی بی تھیں۔ ان سے ان کی ہجرت کے مصائب کی داستان اور ان کی سابقہ امارات کے قصے سنا کرتی اور پان پہ پان کھاتی یا ان کی میٹرک میں پڑھنے والی بیٹی کو الجبرا جیومیٹری سکھلایا کرتی۔ ان کا بیٹا فاروق کی برائے نام بزنس کی دیکھ بھال کررہا تھا۔
فاروق سال میں پانچ چھ چکر لگا لیتا۔اب لاہور کی زندگی رفتہ رفتہ نارمل ہوتی جارہی تھی۔ اس کی آمد سے میرے دن کچھ رونق کے کٹتے۔ اس کی خالہ بڑی اہتمام سے دلی کے کھانے اس کے لیے تیار کرتیں۔ میں مال کے ہیر ڈریسر کے یہاں جاکر اپنے بال سیٹ کرواتی۔ شام کو ہم دونوں جم خانہ کلب چلے جاتے اور وہاں ایک کونے کی میز پر بیئر کا گلاس سامنے رکھے فاروق مجھے دلی کے واقعات سناتا۔ وہ بے تکان بولے چلا جاتا۔ یا پھر دفعتاً چپ ہوکر کمرے میں آنے والی اجنبی صورتوں کو دیکھتا رہتا۔ اس نے شادی کا کبھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ میں نے بھی اس سے نہیں کہا۔ میں اب اکتا چکی تھی کسی چیز سے کوئی فرق نہ پڑتا۔جب وہ دلی واپس چلا جاتا تو میں ہر پندرہویں دن اپنی خیریت کا خط اور اس کے کاروبار کا حال لکھ بھیجتی اور لکھ دیتی کہ اب کی دفعہ آئے تو کناٹ پلیس یا چاندنی چوک کی فلاں دکان سے فلاں فلاں قسم کی ساڑیاں لیتا آئے کیونکہ پاکستان میں اچھی ساڑیاں ناپید ہیں۔
ایک روز میرٹھ سے چچا میاں کا خط آیا کہ ابا کا انتقال ہوگیا۔
جب احمدؐ ِ مرسل نہ رہے کون رہے گا
میں جذبات سے واقف نہیں ہوں مگر باپ مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ ان کی موت کا مجھے سخت صدمہ ہوا۔ فاروق نے مجھے بڑے پیار کے دلاسے بھرے خط لکھے تو ذرا ڈھارس بندھی۔ اس نے لکھا۔۔۔ نماز پڑھا کرو، بہت برا وقت ہے۔ دنیا پر کالی آندھی چل رہی ہے۔ سورج ڈیڑھ بلم پر آیا چاہتا ہے۔ پل کا بھروسا نہیں۔ سارے کاروباریوں کی طرح وہ بھی بڑا سخت مذہبی اور توہم پرست آدمی تھا۔ پابندی سے اجمیر شریف جاتا۔۔۔ نجومیوں، رمالوں، پنڈتوں، سیانوں، پیرو، فقیروں، اچھے اور برے شگونوں، خوابوں کی تعبیر، غرض کہ ہر چیز کا قائل تھا۔ ایک مہینہ نماز پڑھی۔ مگر جب میں سجدے میں جاتی تو دل چاہتا خوب زور زور سے ہنسوں۔
ملک میں سائنس کی خواتین لیکچراروں کی بڑی زبردست مانگ تھی۔ جب مجھے ایک مقامی کالج والوں نے بے حد مجبور کیا تو میں نے پڑھانا شروع کردیا۔ حالانکہ ٹیچری کرنے سے مجھے سخت نفرت ہے ۔ کچھ عرصے بعد مجھے پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلع کے گرلز کالج میں بلا لیا گیا۔ کئی سال تک میں نے وہاں کام کیا ۔ مجھ سے میری طالب علم لڑکیاں اکثر پوچھتیں۔۔۔ ’’ہائے اللہ مس تنویر۔ آپ اتنی پیاری سی ہیں۔ آپ اپنے کروڑ پتی منگیتر سے شادی کیوں نہیں کرتیں؟‘‘ اس سوال کا خودمیرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
یہ نیا ملک تھا۔ نئے لوگ، نیا معاشرہ۔ یہاں کسی کو میرے ماضی کا علم نہ تھا۔ کوئی بھی بھلا مانس مجھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوسکتا تھا (لیکن بھلے مانس، خوش شکل، سیدھے سادے شریف زادے مجھے پسند ہی نہیں آتے تھے، میں کیا کرتی؟) دلّی کے قصے دلّی میں رہ گئے۔ اور پھر میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ ایک سے ایک حرّافہ لڑکیاں اب ایسی پارسا بنی ہوئی ہیں کہ دیکھا ہی کیجیے۔ خود ایڈتھ ہری رام اور رانی خان کی مثال میرے سامنے موجود ہے۔
اب فاروق بھی کبھی کبھی آتا۔ ہم لوگ اس طرح ملتے گویا بیسیوں برس کے پرانے شادی شدہ میاں بیوی ہیں جن کے پاس سارے نئے موضوع ختم ہوچکے ہیں۔ اب سکون اور آرام اور ٹھہراؤ کا وقت ہے فاروق کی بیٹی کی حال ہی میں دلّی میں شادی ہوئی ہے۔ اس کا لڑکا اوکسفوڈ جا چکا ہے۔ بیوی کو مستقل دمہ رہتا ہے۔ فاروق نے اپنے کاروبار کی شاخیں باہر کے کئی ملکوں میں پھیلا دی ہیں۔ نینی تال میں نیا بنگلہ بنوا رہا ہے۔ فاروق اپنے خاندان کے قصے، کاروبار کے معاملات مجھے تفصیل سے سنا یا کرتا اور میں اس کے لیے پان بناتی رہتی۔
ایک مرتبہ میں چھٹیوں میں کالج سے لاہورآئی تو فاروق کے ایک پرانے دوست سید وقار حسین خان سے میری ملاقات ہوئی۔ یہ بھی اپنے پرانے وقت کے اکیلے تھے۔ اور کچھ کم کم رُونہ تھے۔ دراز قد، موٹے تازے، سیاہ توا ایسا رنگ، عمر میں پینتالیس کے لگ بھگ۔ اچھے خاصے دیوزاد معلوم ہوتے۔ ان کو میں نے پہلی مرتبہ نئی دلّی میں دیکھا تھا جہاں ان کا ڈانسنگ اسکول تھا۔ یہ رام پور کے ایک شریف گھرانے کے اکلوتے فرزند تھے۔ بچپن میں گھر سے بھاگ گئے۔ سرکس، کارینول اور تھیٹر کمپنیوں کے ساتھ ملکوں ملکوں میں گھومے۔ سنگارپور، ہانگ کانگ، شنگھائی، لندن، جانے کہاں کہاں۔ ان گنت قومیتوں اور نسلوں کی عورتوں سے وقتاً فوقتاً شادیاں رچائیں۔
ان کی موجودہ بیوی اڑیسہ کے ایک مارواڑی مہاجن کی لڑکی تھی جس کو یہ کلکتے سے اڑا لائے تھے۔ بارہ پندرہ سال قبل میں نے اسے دلّی میں دیکھا تھا۔ سانولی سلونی سی پستہ قد لڑکی تھی۔ میاں کی بدسلوکیوں سے تنگ آکر ادھر ادھر بھاگ جاتی۔ لیکن چند روز کے بعد پھر واپس موجود ۔
خان صاحب نے کناٹ سرکس کی ایک بلڈنگ کی تیسری منزل میں انگریزی ناچ سکھانے کا اسکول کھول رکھا تھا جس میں وہ اور ان کی بیوی اور دو اینگلو انڈین لڑکیاں گویا اسٹاف میں شامل تھیں۔ جنگ کے زمانے میں اس اسکول پرہن برسا۔ اتوار کے روز ان کے یہاں صبح کو ’جیم سیشن‘ ہوا کرتے۔ ایک مرتبہ میں بھی خوشوقت کے ساتھ وہاں گئی تھی۔ سنا تھا کہ وقار صاحب کی بیوی ایسی مہاستی انسویا کی اوتار ہیں کہ ان کے میاں حکم دیتے ہیں کہ فلاں فلاں لڑکی سے بہناپا گانٹھو اور پھر اسے مجھ سے ملانے کے لیے لے کر آؤ۔ اور وہ نیک بخت ایسا ہی کرتی۔ ایک بار وہ ہمارے ہوسٹل میں آئی اور چند لڑکیوں کے سر ہوئی کہ اس کے ساتھ بارہ کھمبا روڈ چل کر چائے پئیں۔
تقسیم کے بعد وقار صاحب بقول شخصے لٹ لٹاکر لاہور آن پہنچے تھے اور مال روڈ کے پچھواڑے ایک فلیٹ الاٹ کرو ا کر اس میں اپنا اسکول کھول لیا تھا۔ شروع شروع میں کاروبار مندا رہا۔ دلوں پر مردنی چھائی تھی۔ ناچنے گانے کا کسے ہوش تھا۔ اس فلیٹ میں تقسیم سے پہلے آریہ سماجی ہندوؤں کا میوزک اسکول تھا ۔ لکڑی کے فرش کا ہال، پہلو میں دو چھوٹے کمرے، غسل خانہ اور باورچی خانہ، سامنے لکڑی کی بالکنی اور شکستہ ہلتا ہوا زینہ ’ہند ماتا سنگیت مہاودیالہ‘ کا بورڈ بالکنی کے جنگلے پر اب تک ٹیڑھا ٹنگا ہوا تھا۔ اسے اتار کر ’وقارز اسکول آف بال روم اینڈ ٹیپ ڈانسنگ‘ کا بورڈ لگا دیا گیا۔ امریکی فلمی رسالوں سے تراش کر جین کیلی، فریڈ اسٹر، فرینک سینا ٹرا، ڈورس ڈے وغیرہ کی رنگین تصویریں ہال کی بوسیدہ دیواروں پر آویزاں کردی گئیں اور اسکول چالو ہوگیا۔ ریکارڈوں کا تھوڑا سا ذخیرہ خان صاحب دلّی سے ساتھ لیتے آئے تھے۔ گرامو فون اور سیکنڈ ہینڈ فرنیچر فاروق سے روپیہ قرض لے کر انہوں نے یہاں خرید لیا۔ کالج کے منچلے لونڈوں اور نئی دولت مند سوسائٹی کی تازہ تازہ فیشن ایبل بیگمات کو خدا سلامت رکھے۔ دو تین سال میں ان کا کام خوب چمک گیا۔
فاروق کی دوستی کی وجہ سے میرا اور ان کا کچھ بھاوج اور جیٹھ کا سا رشتہ ہوگیا تھا۔ وہ اکثر میری خیر خبر لینے آجاتے، ان کی بی بی گھنٹوں میرے ساتھ پکانے، ریندھنے، سینے پرونے کی باتیں کیا کرتیں۔ بے چاری مجھ سے بالکل جٹھانی والا شفقت کا برتاؤ کرتیں۔ یہ میاں بیوی لا ولد تھے۔ بڑا اُداس، بے رنگ، بے تُکا سا غیر دل چسپ جوڑا تھا۔ ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں۔۔۔
کالج میں نئی امریکہ پلٹ نک چڑھی پرنسپل سے میرا جھگڑا ہوگیا۔ اگر وہ سیر تو میں سوا سیر۔ میں خود ابو الحسن تانا شاہ سے کون کم تھی۔ میں نے استعفیٰ کالج کمیٹی کے سرپر مارا۔ اور پھر سنت نگر لاہور واپس آگئی۔ میں پڑھاتے پڑھاتے اکتا چکی تھی۔ میں کوئی وظیفہ لے کر پی ایچ ڈی کے لیے باہر جاسکتی تھی۔ مگر اس ارادے کو بھی کل پر ٹالتی رہی۔ کل امریکنوں کے دفتر جاؤں گی جہاں وہ وظیفے بانٹتے ہیں۔ کل برٹش کونسل جاؤں گی۔ کل ایجوکیشن منسٹری میں اسکالر شپ کی درخواست بھیجوں گی۔
مزید وقت گزر گیا۔ کیا کروں گی کہیں باہر جاکر۔۔۔؟ کون سے گڑھ جیت لوں گی۔۔۔؟ کون سے کدّو میں تیر مار لوں گی۔۔۔؟ مجھے جانے کس چیز کا انتظار تھا۔۔۔؟ مجھے معلوم نہیں۔
اس دوران میں ایک روز وقار بھائی میرے پاس حواس باختہ آئے اور کہنے لگے۔۔۔ ’’تمہاری بھابی کے دماغ میں پھر سودا اٹھا۔ وہ ویزا بنوا کر انڈیا واپس چلی گئیں۔ اور اب کبھی نہ آئیں گی۔‘‘
’’یہ کیسے ۔۔۔ ؟‘‘ میں نے ذرا بے پروائی سے پوچھا۔ اور ان کے لیے چائے کا پانی اسٹوو پر رکھ دیا۔ ’’بات یہ ہوئی کہ میں نے انہیں طلاق دے دی۔ ان کی زبان بہت بڑھ گئی تھی۔ ہر وقت ٹرٹر۔۔۔ ٹرٹر۔۔۔‘‘ پھر انہوں نے سامنے کے کھرّے پلنگ پر بیٹھ کر خالص شوہروں والے انداز میں بیوی کے خلاف شکایات کا ایک دفتر کھول دیا اور خود کو بے قصور اور حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔
میں بے پروائی سے یہ ساری کتھا سنا کی۔ زندگی کی ہربات اس قدر بے رنگ، غیر اہم، غیر ضروری اور بے معنیٰ تھی۔۔۔
کچھ عرصے بعد وہ میرے یہاں آکر بڑ بڑائے، ’’نوکروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کبھی اتنا بھی تم سے نہیں ہوتا کہ آکر ذرا بھائی کے گھر کی حالت ہی درست کرجاؤ۔ نوکروں کے کان امیٹھو۔ میں اسکول بھی چلاؤں اور گھر بھی۔۔۔ ‘‘انہوں نے اس انداز سے شکایتاً کہا گویا ان کے گھر کا انتظام کرنا میرا فرض تھا۔
چند روز بعد میں اپنا سامان باندھ کر وقار صاحب کے کمروں میں منتقل ہوگئی اور ناچ سکھانے کے لیے ان کی اسسٹنٹ بھی بن گئی۔ اس کے مہینے بھر بعد پچھلے اتوار کو وقار صاحب نے ایک مولوی بلوا کر اپنے دو چُرکٹوں کی گواہی میں مجھ سے نکاح پڑھوا لیا۔
اب میں دن بھر گھر کے کام میں مصروف رہتی ہوں۔۔۔ میرا حسن و جمال ماضی کی داستانوں میں شامل ہوچکا ہے۔ مجھے شور و شغف پارٹیاں ہنگامے مطلق پسند نہیں۔ لیکن گھر میں ہر وقت ’چاچا‘ اور کلپسو‘ اور ’راک اینڈ رول‘ کا شور مچتا رہتا ہے۔ بہر حال یہی میرا گھر ہے۔
میرے پاس اس وقت کئی کالجوں میں کیمسٹری پڑھانے کے اَوفر ہیں مگر بھلا خانہ داری کے دھندوں سے کہیں فرصت ملتی ہے۔ نوکروں کا یہ حال ہے کہ آج رکھو، کل غائب۔ میں نے زیادہ کی تمنّا کبھی نہیں کی۔ صرف اتنا ہی چاہا کہ ایک اوسط درجے کی کوٹھی ہو۔ سواری کے لیے موٹر۔ تاکہ آرام سے ہر جگہ آسکیں۔ ہم چشموں میں بے عزتی نہ ہو۔ چار ملنے والے آئین توبٹھانے کے لیے قرینے کا ٹھکانہ ہو، اور بس۔
اس وقت ہماری ڈیڑھ دو ہزار ماہوار آمدنی ہے جو دو میاں بیوی کے لیے ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ انسان اپنی قسمت پر قانع ہوجائے تو سارے دکھ آپ سے آپ مٹ جاتے ہیں۔
شادی کر لینے کے بعد لڑکی کے سر کے اوپر چھت سی پڑ جاتی ہے۔ آج کل کی لڑکیاں جانے کس رَو میں بہہ رہی ہیں۔ کس طرح یہ لوگ ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں۔ جتنا سوچوں، عجیب سا لگتا ہے اور حیرت ہوتی ہے۔
میں نے تو کبھی کسی سے فلرٹ تک نہ کیا۔ خوشوقت، فاروق اور اس سیاہ فام دیوزاد کے علاوہ جو میرا شوہر ہے، میں کسی چوتھے آدمی سے واقف نہیں۔ میں شدید بدمعاش تو نہیں تھی، نہ معلوم میں کیا تھی اور کیاہوں۔۔۔ ریحانہ، سعدیہ، پربھا اور یہ لڑکی جس کی آنکھوں میں مجھے دیکھ کر دہشت پیدا ہوئی، شاید وہ مجھ سے زیادہ اچھی طرح مجھ سے واقف ہوں۔
اب خوش وقت کو یاد کرنے کا فائدہ۔۔۔؟ وقت گزر چکا۔ جانے اب تک وہ بریگیڈیر میجر جنرل بن چکا ہو، آسام کی سرحد پر چینیوں کے خلاف مورچہ لگائے بیٹھا ہو، یا ہندستان کی کسی ہری بھری چھاؤنی کے میس میں بیٹھا مونچھوں پر تاؤ دے رہا ہو، اور مسکراتا ہو، شاید وہ کب کا کشمیرکے محاذ پر مارا جاچکا ہو، کیا معلوم۔۔۔
اندھیری راتوں میں میں آنکھیں کھولے چپ چاپ پڑی رہتی ہوں۔ سائنس نے مجھے عالمِ موجودات کے بہت سے رازوں سے واقف کردیا ہے۔ میں نے کیمسٹری پر اَن گنت کتابیں پڑھی ہیں۔ پہروں سوچا ہے، پر مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔۔۔ اندھیری راتوں میں مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔
خوش وقت سنگھ۔۔۔ خوشوقت سنگھ! تمہیں اب مجھ سے مطلب؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.