ننھی کی نانی
ننھی کی نانی کا ماں باپ کانام تو اللہ جانے کیا تھا۔ لوگوں نے کبھی انہیں اس نام سےیاد نہ کیا۔ جب چھوٹی سی گلیوں میں ناک سڑسڑاتی پھرتی تھیں تو بفاطن کی لونڈیا کے نام سے پکاری گئیں۔ پھر کچھ دن ’’بشیرے کی بہو‘‘ کہلائیں پھر ’’بسم اللہ کی ماں‘‘ کےلقب سے یاد کی جانےلگیں۔ اور جب بسم اللہ چاپے کے اندر ہی ننھی کو چھوڑ کر چل بسی تو وہ ’’ننھی کی نانی‘‘ کے نام سے آخری دم تک پہچانی گئیں۔
دنیا کا کوئی ایسا پیشہ نہ تھا جو زندگی میں ’’ننھی کی نانی‘‘ نے اختیار نہ کیا۔ کٹورا گلاس پکڑنے کی عمر سے وہ تیرے میرے گھر میں دو وقت کی روٹی اور پرانے کپڑوں کے عوض اوپر کے کام پر دھرلی گئیں۔ یہ اوپر کا کام کتنا نیچا ہوتا ہے۔ یہ کچھ کھیلنے کودنےکی عمر سے کام پر جوت دیے جانے والے ہی جانتے ہیں۔ ننھے میاں کےآگے جھنجھنا بجانے کی غیر دلچسپ ڈیوٹی سے لے کر بڑے سرکار کے سرکی مالش تک اوپر کے کام کی فہرست میں آجاتی ہے۔
زندگی کی دوڑ بھاگ میں کچھ بھنومنا بھلسنا بھی آگیا اور زندگی کے کچھ سال ماما گیری میں بیت گئے۔ پر جب دال میں چھپکلی بگھار دی اور روٹیوں میں مکھیاں پرونے لگیں تو مجبوراً ریٹائر ہونا پڑا۔ اس کے بعد تو ننھی کی نانی بس لگائی بجھائی کرنے ادھر کی بات ادھر پہنچانے کے سوا اور کسی کرم کی نہ رہیں۔ یہ لگائی بجھائی کا پیشہ بھی خاصہ منافع بخش ہوتاہے۔ محلہ میں کھٹ پٹ چلتی رہتی ہے۔ مخالف کیمپ میں جاکر اگر ہوشیاری سے مخبری کی جائے تو خوب خوب خاطرمدارات ہوتی ہے۔ لیکن یہ پیشہ کے دن چلتا، نانی لتری کہلانے لگیں اور دال گلتی نہ پاکر نانی نے آخری اور مفید ترین پیشہ یعنی مہذب طریقہ پر بھیک مانگنا شروع کردی۔
کھانے کے وقت نانی ناک پھیلا کر سونگھتیں کہ کس گھر میں کیا پک رہا ہے۔ بہترین خوشبو کی ڈور پکڑ کر وہ گھر میں آن بیٹھتیں۔
’’اے بیوی گھیاں ڈالی ہیں گوش میں‘‘، وہ بے تکلفی سے پوچھتیں۔
’’نہیں بوا گھیں نگوڑی آج کل گلیں کہاں ہیں۔۔۔ آلو ڈالے ہیں۔‘‘
’’اےسبحان اللہ۔ کیا خوشبو ہے۔ اللہ رکھے بسم اللہ کے باوا کو آلوؤں سے عشق تھا۔ روز یہی کہ بسم اللہ کی ماں آلو گوش جو آنکھوں سے بھی دکھ جاوے۔۔۔ اے بیوی کو تھمیر چھوڑ دیا؟‘‘وہ ایک دم فکرمند ہو جاتیں۔
’’نہیں بوا کو تھمیر نگوڑا سب مارا گیا، مواسقے کا کتا کیاری میں لوٹ گیا۔‘‘
’’ہے ہے بغیر کو تھمیر کے بھلاآلو گوش کیا خاک مزہ دے گا۔ حکیم جی کے یہاں منوں لگاہے۔‘‘
’’اے نہیں نانی حکیم جی کے لونڈے نے کل شبن میاں کی پتنگ میں کٹکی لگادی۔ اس پر میں نے کہا خبردار جو چھجے پہ قدم رکھا تو۔۔۔‘‘
’’اے میں کوئی تمائے نام سےتھوڑی مانگوں گی۔‘‘ اور نانی برقع سنبھال سلیپریں سٹپٹاتی حکیم جی کےیہاں جاپہنچتیں۔ دھوپ کھانے کے بہانے کھسکتی گھسٹتی کیاری کے پاس منڈیر تک پہنچ جاتیں۔ پہلے ایک پتی توڑ کر سونگھنے کے بہانے چٹکی میں مسلتیں۔ حکیم جی کی بہو کی آنکھ بچی اور مارا نانی نے کو تھمیر پربکٹا۔ کوتھمیر مہیا کرنے کے بعد ظاہر ہے دو نوالے کی حقدار ہو ہی جاتیں۔
نانی اپنے ہاتھ کی صفائی کےلیے سارے محلہ میں مشہور تھیں۔ کھانے پینے کی چیز دیکھی اور لقمہ مار گئیں۔ بچے کےدودھ کی پتیلی منہ سے لگائی وہ گھونٹ غٹ لیے۔ شکر کی پھنکی مار لی۔ گڑکی ڈیلی تالو سے چپکالی مزے سے دھوپ میں بیٹھی چوس رہی ہیں۔ ڈلی اٹھائی نیفے میں اڑس لی۔ دو چپاتیاں لیں اور آدھی نیفے کے ادھر آدھی اوپر سے، موٹا کرتا آہستہ آہستہ حسبِ معمول کراہتی کو نکتی کھسک گئیں۔ سب جانتے تے پر کسی کومنہ کھولنےکی ہمت نہ تھی کیونکہ نانی کے بوڑھے ہاتھوں میں بجلی کی سی سرعت تھی اور بے چبائے نگل جانے میں وہ کوئی عیب نہ سمجھتی تھیں۔ دوسرے ذراسے شے پر ہی فیل مچانے پر تل جاتی تھیں اور اتنی قسمیں کھاتی تھیں۔ قرآن اٹھانے کی دھمکیاں دیتی تھیں کہ توبہ بھلی۔ اب کون ان سے جھوٹا قرآن اٹھوا کر اپنی قبر میں بھی کیڑے پڑوائے۔
لتری، چور اور چکمہ باز ہونے کے علاوہ نانی پر لے درجہ کی جھوٹی بھی تھیں۔ سب سے بڑا جھوٹ تو ان کا وہ برقعہ تھا جو ہر دم ان کے اوپر سوار رہتا تھا۔ کبھی اس برقعہ میں نقاب بھی تھی۔ پر جوں جوں محلہ کے بڑے بوڑھے چل بسے یا نیم اندھے ہوگئے تو نانی نےنقاب کو خیرباد کہہ دیا۔ مگر گنگوروں دار فیشن ایبل برقعہ کی ٹوپی ان کی کھوپڑی پر چپکی رہتی۔ آگے چاہے مہین کرتے کے نیچے بنیان نہ ہو پر پیچھے برقعہ بادشاہوں کی جھول کی طرح لہراتا رہے اور یہ برقعہ صرف ستر ڈھانکنے کےلیے ہی نہیں تھا بلکہ دنیا کا ہر ممکن اور ناممکن کام اسی سے لیا جاتا تھا۔ اوڑھنے بچھانے اور گڑی مڑی کرکے تکیہ بنانے کے علاوہ، جب نانی کبھی خیر سے نہاتیں تو اسے تولیہ کے طور پر استعمال کرتیں۔ پنج وقتہ نماز کے لیے جائےنماز اور جب محلہ کے کتے دانت نکوسیں تو ان سے بچاؤ کے لیے اچھی خاصی ڈھال۔ کتا پنڈلی پر لپکا اور نانی کے برقعہ کا گھیرا اس کے منہ پر پھنکارا۔ نانی کو برقعہ بہت پیارا تھا فرصت میں بیٹھ کر حسرت سے اس کے بڑھاپے پر بسورا کرتیں۔ جہاں کوئی چندی کترملی اور احتیاطاً پیوند چپکا لیا۔ وہ اس دن کے خیال سے ہی لرزاٹھتی تھیں جب یہ برقعہ بھی چل بسے گا۔ آٹھ گز لٹھا کفن کو جڑجاوے یہی بہت جانو۔
نانی کا کوئی مستقل ہیڈ کوارٹر نہیں۔ سپاہی جیسی زندگی ہے آج اس کے دلان میں تو کل اس کی صحنچی میں جہاں جگہ ملی پڑاؤ ڈال دیا۔ جب دھتکار پڑی کوچ کرکے آگے چل پڑیں۔ آدھا برقعہ اوڑھا آدھا بچھایا لمبی تان لی۔
مگر برقعہ سے بھی زیادہ وہ جس کی فکر میں گھلتی تھیں وہ تھی ان کی اکلوتی نواسی ننھی۔ کڑک مرغی کی طرح نانی پر پھیلائے اسے پوٹے تلے دابے رہتیں۔ کیا مجال جو نظر سے اوجھل ہوجائے مگر جب ہاتھ پیروں نے جواب دے دیا اور محلہ والے چوکنے ہوگئے ان کی جوتیوں کی گھس گھس سن کر ہی چاق چوبند ہوکر مورچہ پر ڈٹ جاتے۔ ڈھٹائی سے نانی کے اشارے کنایہ سے مانگنے کو سنا ان سنا کرجاتے تو نانی کو اس کے سوا کوئی چارا نہ رہا کہ ننھی کو اس کے آبائی پیشے یعنی اوپر کے کام پر لگادیں۔ بڑے سوچ بچارکے بعد انہوں نے اسے ڈپٹی صاحب کے یہاں روٹی کپڑا اور ڈیڑھ روپیہ مہینہ پر چھوڑ ہی دیا۔ پر وہ ہر دم سائے کی طرح لگی رہتیں۔ ننھی نظر سے اوجھل ہوئی اور بلبلائیں۔ پر نصیب کا لکھا کہیں بوڑھے ہاتھوں سے مٹا ہے۔ دوپہر کاوقت تھا۔ ڈپٹیائن اپنے بھائی کے گھر بیٹے کا پیغام لے کر گئی ہوئی۔ سرکار خش خانہ میں قیلولہ فرما رہے تھے۔ ننھی پنکھے کی ڈوری تھامے اونگھ رہی تھی۔ پنکھا رک گیا اور سرکار کی نیند ٹوٹ گئی۔ شیطان جاگ اٹھا اور ننھی کی قسمت سوگئی۔
کہتے ہیں بڑھاپے کے آسیب سے بچنے کے لیے مختلف ادویات اور طلاؤں کےساتھ حکیم بید چوزوں کی یخنی بھی تجویز فرماتے ہیں۔ نو برس کی ننھی چوزہ ہی تو تھی۔
مگر جب ننھی کی نانی کی آنکھ کھلی تو ننھی غائب۔ محلہ چھان مارا کوئی سراغ نہ ملا مگر رات کو جب نان تھکی ماندی کوٹھری کو لوٹی تو کونےمیں دیوار سے ٹکی ہوئی ننھی زخمی چڑیا کی طرح اپنی پھیکی پھیکی آنکھوں سے گھور رہی تھی۔ نانی کی گھگی بندھ گئی اور اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے وہ اسے گالیاں دینے لگیں۔ ’’مالزادی اچھا چھکا۔ میاں آن کر مری ہے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے پنڈلیاں سوجھ گئیں۔ ٹھہر تو جا سرکار سے کیسی چار چوٹ کی مار لگواتی ہوں۔‘‘
مگر ننھی کی چوٹ زیادہ دیر نہ چھپ سکی۔ نانی سر پر دوہتڑ مار مار کر چنگھاڑنے لگی۔ پڑوسن نے سنا تو سرپکڑ کر رہ گئیں۔ اگر صاحبزادے کی لغزش ہوتی تو شاید کچھ ڈانٹ ڈپٹ ہوجاتی۔ مگر ڈپٹی صاحب۔۔۔ محلے کے مکھیا ،تین نواسوں کے نانا۔ پنج وقتہ نمازی۔ ابھی پچھلے دنوں مسجد میں چٹائیاں اور لوٹے رکھوائے۔ منہ سے پھوٹنے والی بات نہیں۔
لوگوں کے رحم و کرم کی عادی نانی نے آنسو پی کر ننھی کی کمر سینکی، آٹے گڑ کا حلوا کھلایا اور اپنی جان کو صبر کرکے بیٹھ رہی۔ دوچار دن لوٹ پیٹ کر ننھی اٹھ کھڑی ہوئی اور چند دنوں ہی میں سب کچھ بھول بھال گئی۔
مگر محلہ کی شریف زادیاں نہ بھولیں۔ چھپ چھپ کر ننھی کو بلاتیں۔
’’نئیں۔۔۔ نانی مارے گی‘‘، ننھی ٹالتی۔
’’لے یہ چوڑیاں پہن لیجو۔ نانی کو کیا خبر ہوگی۔۔۔‘‘ بیویاں بے قرار ہوکر پھسلاتیں۔۔۔
’’کیا ہوا۔۔۔ کیسے ہوا۔۔۔‘‘ کی تفصیل پوچھی جاتی۔ ننھی کچی کچی معصوم تفصیلیں دیتیں۔ بیویاں ناکوں پر دوپٹے رکھ کر کھلکھلاتیں۔
ننھی بھول گئی۔۔۔ مگر قدرت نہ بھول سکی۔ کچی کلی قبل از وقت توڑ کر کھلانے سے پنکھڑیاں جھڑ جاتی ہیں۔۔۔ ٹھونٹھ رہ جاتا ہے۔ ننھی کے چہرے پر سے بھی نہ جانےکتنی معصوم پنکھڑیاں جھڑ گئیں۔ چہرے پر پھٹکار اور روڑاپن۔ ننھی بچی سے لڑکی نہیں بلکہ چھلانگ مار کر ایک دم عورت بن گئی۔ وہ قدرت کے مشاق ہاتھوں کی سنواری بھرپور عورت نہیں بلکہ ٹیڑھی میڑھی عورت جس پر کسی دیو نے دو گز لمبا پاؤں رکھ دیا ہو۔ ٹھنگنی موٹی کچورا سی جیسے کٹی مٹی کا کھلونا کمہار کے گھٹنے تلے دب گیا ہو۔
میلی صافی سے کوئی ناک پونچھے چاہے کولہے، کون پوچھتا ہے۔ راہ چلتے اس کے چٹکیا ں بھرتے۔ مٹھائی کے دونے پکڑاتے۔ ننھی کی آنکھوں میں شیطان تھڑک اٹھتا۔۔۔ مگر اب نانی بجائےاسے حلوے ماڈے ٹھسانے کے اس کا دھوبی گھاٹ کرتی، مگر میلی صافی کی دھول بھی نہ جھڑتی۔ جانور بڑ کی گیند، پٹاکھا یا او اچھل گئی۔
چند سال ہی میں ننھی کی چومکھی سےمحلہ لرز اٹھا۔ سنا کی ڈپٹی صاحب اور صاحبزادے میں کچھ تن گئی۔ پھر سنا مسجد کے ملاجی کو رجوا کمہار نے مارتے مارتے چھوڑا۔ پھر صدیق پہلوان کا بھانجہ مستقل ہوگیا۔
آئے دن ننھی کی ناک کٹتے کٹتے بچتی اور گلیوں میں لٹھ پونگا ہوتا۔
اور پھر ننھی کے تلوے جلنے لگے۔ پیر دھونے کی رتی بھر جگہ نہ رہی۔ صدیق پہلوا ن کے بھانجے کی پہلوانی اور ننھی کی جوانی نے محلہ والوں کا ناطقہ بند کردیا۔ سنتے ہیں دلی، بمبئی میں اس مال کی تھوک میں کھپت ہے۔ شاید دونوں وہیں چلے گئے۔
جس دن ننھی بھاگی اس دن نانی کے فرشتوں کو بھی شبہ نہ ہوا۔ دو تین دن سے نگوڑی چپ چپ سی تھی۔ نانی سے یاد ِ زبانی بھی نہ کی۔ چپ چاپ آپ ہی آپ بیٹھی ہوا میں گھورا کرتی۔
’’اے ننھی روٹی کھالے‘‘، نانی کہتی۔
’’نانی بی بھوک نہیں!‘‘
’’اےننھی اب دیر ہوگئی سوجا۔‘‘
’’نانی بی نیند نہیں آتی۔‘‘
رات کو نانی کے پیر دبانے لگی۔
’’نانی بی۔۔۔ اے نانی بی‘‘، سبحانک اللہم سن لو یاد ہے کہ نہیں۔ نانی نے سنا فر فر یاد۔
’’جا بیٹی اب سوجا‘‘، نانی نے کروٹ لے لی۔
’’اری مرتی کیوں نہیں‘‘، نانی نے تھوڑی دیر بعد اسے صحن میں کھٹ پٹ کرتے سن کر کہا۔ سمجھی خانگی نے اب آنگن بھی پلید کرنا شروع کیا۔ کون حرامی ہے جسے آج گھر میں گھسا لائی ہے۔ پر صحن میں گھور گھور کر دیکھنے پر نانی سہم کر رہ گئی۔ ننھی عشاء کی نماز پڑھ رہی تھی اور صبح ننھی غائب ہوگئی۔
کبھی کوئی دور دیس سے آتا ہے تو خبر آجاتی ہے ،کوئی کہتا ہےننھی کو ایک بڑے نواب صاحب نے ڈال لیا ہے ٹم ٹم ہے منوں سونا ہے۔ بیگموں کی طرح رہتی ہے۔
کوئی کہتا ہے ہیرا منڈی میں دیکھا ہے۔
کوئی کہتا ہے فارس روڈ پر کسی نے اسے سوناگاجی میں دیکھا۔
مگر نانی کہتی ہے ننھی کو ہیضہ ہوا تھا۔ چار گھڑی لوٹ پوٹ کر مرگئی۔
ننھی کاسوگ منانے کے بعد نانی کچھ خبطن بھی ہوگئیں۔ لوگ راہ چلتے چھیڑ خانی کرتے۔
’’اےنانی نکاح کرلو۔۔۔‘‘ بھابی جان چھیڑتیں۔
’’کس سے کلوں؟ لا اپنے خصم سے کرادے‘‘، نانی بگڑتیں۔
’’اے نانی ملاجی سے کرلو۔ اللہ قسم تم پر جان دیتے ہیں۔‘‘ اور نانی کی مغلظات شروع ہوجاتیں۔ وہ وہ پینترے گالیوں میں نکالتیں کہ لوگ بھونچکے رہ جاتے۔
’’مل تو جائے بھڑوا۔۔۔ داڑھی نہ اکھیڑلوں تو کہنا۔‘‘ مگر جب ملاجی کبھی گلی کے نکڑ پہ مل جاتے تو نانی سچ مچ شرماسی جاتیں۔
علاوہ محلہ کے لڑکوں بالوں کے نانی کے ازلی دشمن تو موئے نگوڑے بندر تھے جو پیڑھیوں سے اسی محلے میں پلتے بڑھتےآئے تھے۔ جو ہرفرد کا کچا کٹھا جانتے تھے۔ مرد خطرناک ہوتے ہیں اور بچے بدذات، عورتیں تو صرف ڈرپوک ہوتی ہیں۔ پرنانی بھی انہیں بندروں میں پل کر بڑھیائی تھیں۔ انہوں نے بندروں کو ڈرانے کے لیے کسی بچے کی غلیل ہتھیالی تھی۔ اور سر پر برقعہ کا پگڑ باندھ کر وہ غلیل تان کر جب اچکتیں تو بندر تھوڑی دیر کو ششدر ضرور رہ جاتے اور پھر بے توجہی سے ٹہلنے لگتے۔
اور بندروں سےآئے دن ان کی باسی ٹکڑوں پر چخ چلتی رہتی۔ محلہ میں جہاں کہیں شادی بیاہ چلا سالیسواں ہوتا، نانی جھوٹے ٹکڑوں کا ٹھیکہ لے لیتیں۔ لنگر خیرات بٹتی تو بھی چار چار مرتبہ چکمہ دے کر حصہ لیتیں۔ منوں کھانا بٹور لانے کے بعد وہ اسے حسرت سے تکتیں! کاش ان کے پیٹ میں بھی اللہ پاک نے کچھ اونٹ جیسا انتظام کیا ہوتا تو کتنے مزے رہتے۔ مزے سے چار دن کی خوراک معدے میں بھرلیتیں۔ چھٹی رہتی۔ مگر اللہ پاک نے رزق کا اتنا اوٹ پٹانگ انتظام کرنے کے بعد پیٹ کی مشین کیوں اس قدر ناقص بناڈالی کہ ایک دو وقت کے کھانے سے زیادہ ذخیرہ جمع کرنے کا ٹھور ٹھکانا نہیں۔ اس لیے نانی ٹاٹ کے بسیروں پر جھوٹے ٹکڑے پھیلا کر سکھاتیں پھر انہیں مٹکوں میں بھرلیتیں۔ جب بھوک لگی ذرا سے سوکھے ٹکڑے چومر کیے، پانی کا چھینٹا دیا ،چٹکی بھر لون مرچ برکا اور لذیذ ملغوبہ تیار۔
لیکن گرمیوں اور برسات کے دنوں میں بارہا یہ نسخہ ان پر ہیضہ طاری کرچکا تھا۔ چنانچہ بس جانے پر طوعا و کرہاان ٹکڑوں کو اونے پونے بیچ ڈالتیں تاکہ لوگ اپنے کتوں اور بکریوں وغیرہ کو کھلادیں۔ مگر عموماً کتوں اور بکریوں کے معدے نانی کے ڈھیٹ معدے کامقابلہ نہ کرپاتے اور لوگ مول تو کیا تحفۃً بھی ان فواکہات کو قبولنے پر تیار نہ ہوتے۔ وہی عزیز از جان جوٹھے ٹکرے جنہیں بٹورنے کے لیے نانی کو ہزاروں صلواتیں اور ٹھوکریں سہنا پڑتیں اور جنہیں دھوپ میں سکھانے کے لیے انہیں پوری بندر جاتی سے جہاد مول لینا پڑتا۔ جہاں ٹکڑے پھیلائے گئے اور بندروں کے قبیلے کو بے تار برقی خبر پہنچی۔ اب کیا ہے غول درغول دیواروں پر ڈٹے بیٹھے ہیں۔ کھپریلوں پر دھماچوکڑی مچارہے ہیں۔ چھپڑ کھسوٹ رہے ہیں اور آتے جاتے یہ خوخیا رہے ہیں۔ نانی بھی اس وقت مرد ِمیدان بنی سر پر برقعہ کا ڈھاٹا بندھے ہاتھ میں غلیل لیے مورچہ پر ڈٹ جاتیں۔ سارا دن ’’لگے۔ لگے‘‘ کرکے شام کو بچا کھچا کوڑا بٹور بندروں کی جان کو کوستی، نانی اپنی کوٹھری میں تھک کر سو رہتیں۔
بندروں کو ان سے کچھ ذاتی قسم کی پرخاش ہوگئی تھی۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو کیوں جہان بھر کی نعمتوں کو چھوڑ کر صرف نانی کے ٹکڑوں پر ہی حملہ آور ہوتے اور کیوں بدذات لال پچھائے والا ان ہی کا عزیز از جان تکیہ لے بھاگتا۔ وہ تکیہ جو ننھی کے بعد نانی کا واحد عزیز اور پیارا دنیا میں رہ گیا تھا، وہ تکیہ جو برقعہ کے ساتھ ان کی جان پر ہمیشہ سوار رہتا تھا، جس کی سیویوں کو وہ ہر وقت پکا ٹانکہ مارتی رہتی تھیں۔ نانی کسی کونے کھدرے میں بیٹھی تکیہ سے ایسے کھیلا کرتیں جیسے وہ ننھی سی بچی ہوں اور وہ تکیہ ان کی گڑیا، وہ اپنے سارے دکھ اس تکیے ہی سے کہہ کر جی ہلکا کرلیا کرتی تھیں۔ جتنا جتنا انہیں تکیہ پر لاڈ آتا وہ اس کے ٹانکے پکے کرتی جاتیں۔
قسمت کے کھیل دیکھیے نانی منڈیر سے لگی برقعہ کی آڑ میں نیفہ سے جوئیں چن رہی تھیں کہ بندر دھم سے کودا اور تکیہ لے یہ جا وہ جا۔ ایسا معلوم ہوا کہ کوئی نانی کا کلیجہ نوچ کر لے گیا۔ وہ دھاڑیں اور چلائیں کہ سارا محلہ اکٹھا وہ گیا۔
بندروں کا قاعدہ ہے کہ آنکھ بچی اور کٹورا گلاس لے بھاگے اور چھجے پر بیٹھے دونوں ہاتھوں سے کٹورا دیوار پر گھس رہے ہیں۔ کٹورے کامالک نیچے کھڑا چمکا ررہا ہے۔ پیاز دے روٹی دے جب بندر میاں کا پیٹ بھر گیا کٹورا پھینک اپنی راہ لی۔ نانی نے مٹکی بھر ٹکڑے لٹادیے پر حرامی بندر نے تکیہ نہ چھوڑنا تھا نہ چھوڑا۔ سوجتن کیے گئے مگر اس کا جی نہ پگھلا۔ اور اس نے مزے سے تکیہ کے غلاف پیاز کے چھلکوں کی طرح اتارنے شروع کیے۔ وہی غلاف جنہیں نانی نے چندھی آنکھوں سے گھور گھور کر پکے ٹانکوں سے گونتھا تھا۔
جوں جوں غلاف اترتے جاتے نانی کی بدحواسی اور بلبلاہٹ میں زیادتی ہوتی جاتی اور آخری غلاف بھی اتر گیا۔ اور بندر نے ایک ایک کرکے چھجہ پر سے ٹپکانا شروع کیے۔ روٹی کے گالے نہیں بلکہ شبن کی فتوئی۔ بنو سقے کا انگوچھا۔۔۔ حسینہ بی کی انگیا۔۔۔ منی بی کی گڑیا کا غرارہ۔ رحمت کی اوڑھنی اور خیراتی کا کچھنا۔۔۔خیرن کے لونڈے کا طمنچہ۔۔۔ منشی جی کا مفلر اور ابراہیم کی قمیض کی آستین معہ کف۔۔صدیق کی تہمد کا ٹکڑا۔ آمنہ بی کی سرمہ دانی اور بفاطن کی کجلوٹی۔ سکینہ بی کی افشاں کی ڈبیہ۔۔۔ ملا جی کی تسبیح کا امام اور باقر میاں کی سجدہ گاہ۔۔۔
بسم اللہ کا سوکھا ہوا نال اور کلاوہ میں بندھی ہوئی ننھی کی پہلی سال گرہ کی ہلدی کی گانٹھ، دوب اور چاندی کا چھلا۔ اور بشرخاں کا گلٹ کا تمغہ جو اسے جنگ سے زندہ لوٹ آنے پر سرکار ِعالیہ سے ملا تھا۔
مگر کسی نے ان چیزوں کو نہ دیکھا۔۔۔ بس دیکھا تو اس چوری کے مال کو جسے سالہا سال کی چھاپہ ماری کے بعد نانی نے لکھ لوٹ جوڑا تھا۔
’’چور۔۔۔ بے ایمان۔۔۔ کمینی۔‘‘
’’نکالو بڑھیا کو محلے سے۔‘‘
’’پولیس میں دے دو۔‘‘
’’ارےاس کی توشک بھی کھولو اس میں نہ جانے کیا کیا ہوگا۔‘‘ غرض جو جس کے منہ میں آیا کہہ گیا۔
نانی کی چیخیں ایک دم رک گئیں۔ آنسو خشک۔ سرنیچا اور زبان گنگ! کاٹو تو خون نہیں۔ رات بھی جوں کی توں دونوں گھٹتے مٹھیوں میں دابے ہل ہل کر سوکھی سوکھی ہچکیاں لیتی رہیں کبھی اپنے ماں باپ کا نام لے کر کبھی میاں کو یاد کرکے کبھی بسم اللہ اور ننھی کو پکار کر بین کرتیں۔۔۔ دم بھر کو اونگھ جاتی پھر جیسے پراے ناسوروں میں چیونٹے چٹکنے لگتے اور وہ بلبلا کر چونک اٹھتیں۔ کبھی چہکی پہکی روتیں کبھی خود سے باتیں کرنے لگتیں۔ پھر آپ ہی آپ مسکرا اٹھتیں اور پھر تاریکی میں سے کوئی پرانی یاد کا بھالا کھینچ مارتا اور وہ بیمار کتے کی طرح نیم انسانی آواز سے سارے محلے کو چونکا دیتیں۔
دو دن اسی حالت میں بیت گئے، محلہ والوں کو آہستہ آہستہ احساس ندامت ہونا شروع ہوا۔ کسی کو بھی تو ان چیزوں کی اشد ضرورت نہ تھی۔ برسوں کی کھوئی چیزوں کو کبھی کا رو پیٹ کر بھول چکے تھے۔ وہ بیچارے خود کون سے لکھ پتی تھے۔ تنکے کا بوجھ بھی ایسے موقع پر انسان کو شہتیر کی طرح لگتا ہے۔ لوگ ان چیزوں کے بغیر زندہ تھے۔ شبن کی فتوئی اب سردیوں سے دھینگا مشتی کرنے کے قابل کہاں تھی، وہ اس کے ملنے کے انتظار میں اپنی پڑھوار تھوڑی روک بیٹھا تھا۔ حسینہ بی نے انگیا چولی کی اہمیت کو بیکار سمجھ کر اسے خیرباد کہہ دیا تھا۔ مٹی کی گڑیا کا غرارہ کس مصرف کا وہ تو کبھی کی گڑیوں کی عمر سے گزر کر ہنڈکلیوں کی عمر کو پہنچ چکی تھی۔ محلے والوں کو نانی کی جان لینا تھوڑی منظور تھی۔
پرانےزمانہ میں ایک دیو تھا۔ اس دیو کی جان تھی ایک بھونرے میں۔ سات سمندر پار ایک غار میں صندوق تھا۔ اس صندوق میں ایک صندوق اور اس صندوق میں ایک ڈبیہ تھی جس میں ایک بھونراتھا۔ ایک بہادر شہزادہ آیا۔۔۔ اور اس نے پہلے بھونرے کی ایک ٹانگ توڑ دی، ادھر دیو کی ایک ٹانگ جادو کے زور سے ٹوٹ گئی ،پھر اس نے دوسری ٹانگ توڑی اور دیو کی دوسری ٹانگ بھی ٹوٹ گئی، پھر اس نے بھونرے کو مسل ڈالا اور دیو مرگیا۔
نانی کی جان بھی تکیہ میں تھی اور بندر نے وہ جادو کا تکیہ دانوں سے چیر ڈالا۔ اور نانی کے کلیجے میں گرم سلاخ اتر گئی۔
دنیا کا کوئی دکھ کوئی ذلت کوئی بدنامی ایسی نہ تھی جو نصیب نے نانی کو نہ بخشی ہو۔ جب سہاگ کی چوڑیوں پر پتھر گرا تھا تو سمجھی تھیں اب کوئی دن کی مہمان ہیں پر جب بسم اللہ کو کفن پہنانے لگیں تو یقین ہوگیا کہ اونٹ کی پیٹھ پر یہ آخری تنکا ہے اور جب ننھی منہ پر کالکھ لگا گئی تو نانی سمجھیں بس یہ آخری گھاؤ ہے۔
زمانہ بھر ی بیماریاں پیدائش کے وقت سے جھیلیں۔ سات بار تو چیچک نے ان کی صورت پہ جھاڑو پھیری۔ ہر سال تیج تہوار کے موقع پر ہیضہ کا حملہ ہوتا۔
تیرا میرا گو موت دھوتے دھوتے انگلیوں کے پورے سڑ گئے۔ برتن مانجھتے ہتھیلیاں چھلنی ہوگئیں۔ ہر سال اندھیرے اجالے اونچی نیچی سیڑھیوں سے لڑھک پڑتیں۔ دوچار دن لوٹ پوٹ کر پھر گھسٹنےلگتیں۔ پچھلے جنم میں نانی ضور کتے کی کلی رہی ہوں گی۔ جبھی تو اتنی سخت جان تھیں۔ موت کا کیا واسطہ جو ان کے قریب پھٹک جائے۔ بسریاں لگائے پھریں گی مگر مردہ کا کپڑا تن سے نہ چھو جائے۔ کہیں مرنے والا سلوٹوں میں موت نہ چھپا گیا ہو جو نازوں کی پالی نانی کو آن دبوچے! مگر یوں عاقبت بندروں کے ہاتھوں لٹے گی، اس کی کسے خبر تھی۔
صبح سویرے بہشتی مشک ڈالنے گیا تھا، دیکھا نانی کھپریل کی سیڑھیوں پر اکڑوں بیٹھی ہیں منھ کھلا ہے۔ مکھیاں نیم وا آنکھوں کے کونوں میں گھس رہی ہیں۔ یوں نانی کو سوتا دیکھ کر لوگ انہیں مردہ سمجھ کر ڈر جایا کرتے تھے۔ مگر نانی ہمیشہ بڑبڑاکر بلغم تھوکتی جاگ پڑتی تھیں اور ہونسنے والے کو ہزار صلواتیں سنا ڈالتی تھیں۔
مگر اس دن سیڑھیوں پر اکڑوں بیٹھی ہوئی نانی دنیا کو ایک مستقل گالی دے کر چل بسیں! زندگی میں کوئی کل سیدھی نہ تھی۔ کروٹ کروٹ کانٹے تھے۔ مرنے کے بعد کفن میں بھی نانی اکڑوں لٹائی گئی۔ ہزار کھینچ تان پر بھی اکڑا ہوا جسم سیدھا نہ ہوا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.