Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اس کے بغیر

احمد علی

اس کے بغیر

احمد علی

MORE BYاحمد علی

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو موسم بہار میں تنہا بیٹھی اپنی پہلی محبت کو یاد کر رہی ہے۔ ان دنوں اس کی بہن کے بہت سے چاہنے والے تھے مگر اس کا کوئی محبوب نہیں تھا اور اسی بات کا اسے افسوس تھا۔ اچانک اس کی زندگی میں آنند آگیا جس نے اس کی پوری زندگی ہی بدل دی۔ انھوں نے مل کر ایک ٹرپ کا پروگرام بنایا۔ اس سفر میں ان دونوں کے ساتھ کچھ ایسے واقعے ہوئے جن کی وجہ سے وہ اس سفر کو کبھی نہیں بھلا سکی۔

    بہار پھر آ گئی۔

    ہوا میں ایک نرمی، ایک عجیب دلکش خوشگواری ہے۔ سارا باغ ولایتی مٹر کے رنگین پھولوں سے مہک رہا ہے اور کھیتوں میں سرسوں پھولی ہوئی ہے۔ یہی جی چاہتا ہے کہ بس دل آویز نیلگوں آسمان کے نیچے ہری ہری نرم گھاس پہ سر رکھ کے اس طرح فضا کے نشہ سے مست ہو کر لیٹ جاؤں کہ پھر کوئی مجھ کو اس دنیا کی دل شکن حقیقت میں کبھی بیدار نہ کر سکے۔

    ہماری بہار کتنی چند روزہ لیکن کس قدر جذبہ سے بھری ہوتی ہے۔ سارا عالم زندگی کے ابھار اور پیدائش کی امنگوں سے بےآپے ہوا جاتا ہے۔ زمین خوشی سے پھولی نہیں سماتی اور اپنے جوش اور رنگینی طبع کا اظہار ان سرسبز پتیوں اور پودوں، ان ننھے ننھے خوش رنگ پھولوں سے کرتی ہے جو اس کی سطح کو سر تاپا سرور کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ غالباً یہی وہ موسم ہے جس میں دنیا کا وجود ہوا ہوگا۔ یقیناً اسی موسم میں زندگی ظہور میں آئی ہوگی اور پرندوں کی آوازیں، گلہریوں کا کلکلانا، تیتریوں کا ادھر ادھر پھولوں میں مشغول ہونا کیسی عجیب کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔

    لیکن یہ بہار بھی کس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے۔ زندگی کے ابھار کے ساتھ ساتھ خواہشات کا زور اور ولولہ بھی بھڑک اٹھتا ہے۔ ان خوابوں اور خواہشات کا جو دل کو آہستہ آہستہ مسوستی ہیں، جن کا میٹھا میٹھا درد دل اور دماغ حتی کہ رگ رگ میں پیوست ہو جاتا ہے۔اور اس حالت میں تنہائی کا احساس، اس بات کا کہ زندگی محبت سے خالی ہے اور بھی غضب ہے۔ اس خلا کے احساس سے دل میں اس طرح ٹھیس لگتی ہے جیسے کوئی باریک باریک تیز سوئیاں چبھو رہا ہو اور اپنی بیکسی کا خیال سارے جسم کو نڈھال کیے دیتا ہے۔۔۔ لیکن مردے بھی بہار کے موسم میں اپنی قبروں سے کفن لپیٹے ہوئے نکل پڑتے ہیں۔ یاد کا دریا امڈ آتا ہے اور وہ باتیں یاد آتی ہیں جن کوانسان بھول چکا ہوتا ہے۔ ایسی ذرا ذرا سی باتیں جن کی ایک شخص کو روز مرہ کی زندگی میں پرواہ بھی نہیں ہوتی، مثلاً ایسی معمولی سی بات جیسے آنکھوں کا اٹھنا یا محض پلکوں کا جھپک جانا، یا کبھی دو ہاتھوں کا چھو جانا۔

    اور اس وقت مجھ کو وہ باتیں یاد آ رہی ہیں جن کو میں قطعی بھول چکی تھی۔ میں سمجھتی تھی کہ اب میری زندگی میں ان کا کوئی کام نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ مجھ سے بہت دور ہو چکی ہیں۔ میری نظروں سے بھی اوجھل۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ میرا خیال خام تھا۔ میرے دل میں اس وقت بھی وہی کیفیت ہے جو اس وقت تھی، جب اس نے پہلی مرتبہ اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ میرے ہونٹ بھی جذبہ سے اسی طرح کانپ رہے ہیں جیسے اس وقت جب اس نے پہلی بار مجھے پیار کیا تھا۔۔۔ مگر اب مجھے ان باتوں سے کیا نسبت؟ جب خواب ایک مرتبہ برہم ہو جاتا ہے تو اس کو کون جوڑ سکتا ہے؟ جب بانسری ٹوٹ چکی ہوتی ہے تو کون اس سے موسیقی پیدا کر سکتا ہے؟ تا ہم اس وقت میری پچھلی زندگی خواہشات و یاد کا ایک طوفان بن کے مجھ میں سرایت کر آئی ہے اور میں اس کی موجوں کے زور کو روک نہیں سکتی۔ مجھے اس وقت کسی کی عدم موجودگی کا احساس ہے، اس کی عدم موجودگی کا اور اپنی زندگی مجھ کو خالی اور بے سود معلوم ہوتی ہے، بیکس اور بیکار۔

    (۲)

    ہماری زندگی کی ندیاں جو اب تک الگ الگ بہ رہی تھیں، ایک رات کو یکجا ہوئیں۔ وہ ایک عجیب رات تھی۔ بہار کی رات تو نہیں، لیکن بہار کی رات سے بھی کہیں زیادہ حامل اور پراسباب۔۔۔ خزاں کا موسم تھا اور آخیر اکتوبر کی رات، جس کی بڑھتی ہوئی خنکی میں دھویں کی خوشبو بسی ہوئی تھی، اپنا جادو سارے میں پھیلائے تھی۔ چاند آسمان پر پڑی متانت اور غرور سے اپنا سر اونچا کیے تھا اور افسردگی کسی کی خاموش یاد کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ خزاں اور بہار میں کتنا کم فرق ہوتا ہے۔ خزاں اپنے اندر بہار کو چھپائے رہتی ہے اور بہار میں خزاں کا وجود پوشیدہ ہوتا ہے۔ وہی درد اور گداز جو بہار کی خواہشات اور رنگ و بو میں ہوتے ہیں۔ خزاں کے موسم میں ایک یاد اور رنج بن کر پنہاں رہتے ہیں۔۔۔

    لیکن اس وقت جب ہم دونوں ریل میں بیٹھ گئے اور گاڑی دہاڑتی چنگھاڑتی رات کی پرفضا وادیوں میں سے ایک مست ناگ کی طرح تیز روی سے جا رہی تھی، تو میں سب رنجوں کو بھول گئی۔ خزاں بہار میں بدل گئی اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک نئی اورخوبصورت زندگی کا آغاز ہو رہا ہے۔ جب تک آنند میری زندگی میں نہیں آیا تھا، تو میں ہمیشہ افسوس اور ملال میں رہا کرتی تھی، اس کڑھن میں کہ مجھ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ میں پہروں اپنے اوپر آنسو بہاتی کہ میں کیوں نہ حسین ہوئی، جو لوگ مجھے بھی پوچھتے۔ میری بہن کے بہت سے چاہنے والے تھے، لیکن میں اکیلی تھی اور میری کوئی بھی پروا نہ کرتا تھا۔ مگر آنند نے میرے بہت سے خوابوں کو پورا کر دیا۔ اس کی نظروں نے میری سوئی ہوئی روح کو جگایا اور اس کی توجہ کی کشش نےمجھ کو اس طرح اپنی طرف کھینچ لیا جیسے مقناطیس لوہے کو کھینچ لیتا ہے اور میں نے طے کر لیا کہ اس کو کبھی بھی اپنے ہاتھوں سے نہ جانے دوں گی۔

    مگر اس رات کو میں نے وہ لغزش کھائی کہ ابھی تک اپنےآپ کو نہیں سنبھال سکی ہوں اور ممکن ہے کہ میں اس کے اثر کو جو اس نے پچھلے تین برس میں میرے اوپر قائم کر لیا ہے، کبھی دور نہ کر سکوں۔ کاش کہ اس نے میری زندگی کے میدان میں قدم نہ رکھا ہوتا۔ اگر۔۔۔ میں اس سے نہ ملی ہوتی تو میری زندگی کس قدر خوشگوار ہوتی۔ لیکن جو سچ پوچھو تو اسی نے میری تمام پوشیدہ قوتوں کو جگا کر زندگی بخشی ہے۔ آنند نے تو مجھے صرف نیند سے بیدار کیا تھا۔ لیکن اس نے میری زندگی میں نغمہ کا جادو پھونک کر میرے مرے ہوئے دماغ کو تروتازہ کر دیا۔ لیکن پھر میرے دل کے بیابان میں اپنی موسیقی سے آگ لگانے کے بعد وہ غائب ہو گیا۔ مگر میں محسوس کرتی ہوں کہ ابھی تک شعلے اسی طرح بھڑک رہے ہیں، ابھی تک اس کی زندگی کا نغمہ میرے کانوں میں گونج رہا ہے، ابھی تک اس کی موجودگی میرے دماغ میں دورہ کر رہی ہے۔۔۔

    اور اس سب کشمکش کی ابتدا اس زمزمہ خیز رات کو ہوئی، جب وہ اور میں ساتھ سفر کر رہے تھے اور شاید چونکہ یہ سب چلتی گاڑی میں پیش آیا، اس لیے میں ہمیشہ حیران و پریشان رہوں گی، اس تیز رفتار گاڑی کی طرح۔۔۔ اس ڈبے میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور نہ تھا اور جب گاڑی روانہ ہو گئی تو ہم دونوں خاموش ہو کر اپنے اپنے خیالات میں محو ہو گئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ہم دونوں کا ساتھ تنہائی میں ہوا اور باتیں شروع کرنے کے لیے میں نے اس سے پوچھا، ’’کیا آپ آنند کو جانتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا، ’’جی ہاں۔ وہ اور میں یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتے تھے۔‘‘ اس کو اس بات کا گمان بھی نہ تھا کہ میری آنند سے اتنی دوستی ہے۔

    میں نے اس کی اکثر تصانیف پڑھی تھیں۔ چنانچہ میں نے اس سے اس بات کی فرمائش کی کہ اپنی نظمیں سناؤ۔ وہ ذرا جھجکا اور بجائے اپنی نظمیں سنانے کے اس نے مجھ سے کہا، ’’پہلے آپ گا کر سنائیے۔‘‘ میں اس اچانک فرمائش کے لیے تیار نہ تھی اور ہم دونوں میں اس بات پر اصرار اور کشمکش ہونے لگی کہ کون شروع کرے۔ آخرکار تھک کے ہم دونوں خاموش ہو گئے۔ میں کھڑکی کے باہر منہ نکال کر چلتے ہوئے منظر اور چاند اور ٹھنڈی لطیف ہوا کا لطف اٹھانے لگی۔ اس نے پیچھے سے آکر مجھ سے انگریزی میں پوچھا، ’’یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘ میں نےجواب دیا، ’’میں چاند کا لطف اٹھا رہی ہوں۔‘‘ لیکن وہ بولا، ’’نہیں آج رات کو یہ حماقتیں نہیں کر سکتیں۔ ادھر آکے بیٹھو۔‘‘ اور اس نے میری کمر میں ہاتھ ڈال کے مجھے کھڑکی سے پرے گھسیٹ لیا اور گدی پر اپنے پاس بٹھا لیا۔

    میں نے محسوس کیا کہ اس میں نرمی آ چلی تھی اور جب میں نے پھر اس سے نظمیں سنانے کی فرمائش کی تو وہ پسیج گیا۔ بڑی دیر تک وہ مجھ کو اپنی نظمیں سناتا رہا اور میں محو ہوکر اس کے جذبات کی شیرینی کا مزہ لیتی رہی۔ پھر اس تھوڑی دیرکی خاموشی میں جو ہم پر طاری ہو گئی تھی، اس نے میرے لیے ایک نظم کہی، مجھے ہمیشہ افسوس رہےگا کہ میں نےاس نظم کی ایک نقل کیوں نہ لے لی۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہوتا تھا،

    ’’زندگی ایک سودا ہے پیاری۔ اس کو حاصل کر لینا کوئی آسان کام نہیں۔ اگر اس کو لینا چاہتی ہو تو اس ہاتھ دو اس ہاتھ لو۔ زندگی ایک صحرا ہے پیاری جس میں آندھیاں بھی چلتی ہیں اور کانٹے بھی اگتے ہیں۔ اس کو بچوں کا کوئی کھیل نہ جان لینا۔ زندگی ایک تلخ شراب ہے پیاری۔ اس کو تو صرف وہی پی سکتا ہے جس کے منہ میں تلخی کا مزا بس چکا ہو۔ یہ کوئی شربت نہیں ہے جس کو ہر شخص پی سکے۔ زندگی ایک طوفان ہے پیاری جس کا لطف صرف ان ہی کو آ سکتا ہے جو اس سمندر کے اندر ہیں۔ کنارے پر چلنے والے اس کو کیا جان سکتے ہیں؟ اور یہ واقعہ ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے مصیبت نہیں اٹھائی، راحت کو نہیں پہچان سکے، جنہوں نے محبت نہیں کی وہ نفرت بھی نہیں کر سکتے۔ جنہوں نے حسن و عشق اور غربت و رنج کی دشوار گزار وادیوں میں سفر نہیں کیا ہے۔ وہ زندگی کی اصلیت سے بے بہرہ ہیں۔۔۔‘‘

    اس کی شخصیت اور شاعرانہ اداؤں کا جادو تو چپکے ہی چپکے مجھ پر اپنا اثر کر چلا تھا۔ لیکن اس وقت یکایک میرا دل اس کی محبت سے بھر آیا۔ بس یہی جی چاہتا تھا کہ وہ ہمیشہ میرے پاس رہے اور اس کو اور اس کی روح کو جاننے کی خواہش نے ایک جذبہ کی طرح مجھ پر قابو پا لیا۔ جب اس کے تخیل میں یہ پاکیزگی اور حسن ہے تو وہ خود کتنا حسین اور خوبصورت ہوگا۔ بس یہی خیال میرے دماغ میں سمایا ہوا تھا۔ لیکن پھر اس خیال نے کہ یہ سب لطف صبح ہوتے جب دونوں کے راستے کٹ کر علیحدہ ہوں گے، ختم ہو جائےگا۔ مجھ کو افسردہ کر دیا۔ میں اپنے نئے رنج سے اس قدر بےبس ہوگئی کہ اپنے جذبات کو نہ روک سکی اور بولی، ’’کیا زندگی کی دل فریب گھڑیاں ایک پھول کی زندگی کی طرح جلد ختم ہو جاتی ہیں؟‘‘

    ’’ہاں۔ ایک حسین اور دل لبھانے والے تصور کی تیزی سے بھی جلد، کہیں جلد۔‘‘

    ’’اور ہمارے جذبات، ہماری سب خوشی صبح ہوتے ختم ہو جائےگی؟‘‘

    ’’کون جانتا ہے۔ لیکن صبح ابھی دور ہے۔ اس کے خیال کو پاس لانے سے فائدہ؟ اس وقت تو ہمارے اندر زندگی کی موج لہریں مار رہی ہے۔ اس وقت تو ہم اس کی شیرینی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ باقی سب وہم و خیال ہے۔‘‘ میں نے اپنے خیال میں محو جواب دیا، ’’لیکن یہ سب ایک خواب معلوم ہوتا ہے اور جب صبح آنکھ کھلے گی۔ تو کچھ بھی نہ ہوگا۔‘‘

    اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور میرے نزدیک ہوکر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ کی حرارت میرے جسم میں نشہ کی طرح سرایت کرنے لگی۔ وہ بڑی دیر تک مجھ سے حسن اور وقت اور زندگی کے لطف کی باتیں کرتا رہا۔ میں اس کے جذبات کے اثر اور جادو سے اتنی بے خود ہو گئی کہ میں بھی اس سےاسی طرح باتیں کرتی رہی، جیسے ہم دونوں ہمیشہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے آئے ہیں۔ وہ میری آنکھوں اور بالوں کی تعریف کرنے لگا۔ میں ازحد خوش تھی اور اپنےآپ کو کھو چلی تھی۔ اس نےمیرے ہاتھ کو ذرا زور سے بھینچا اور میری طرف جھکا۔ شاید وہ مجھے پیار کرنا چاہتا تھا۔ یکایک میرے دماغ میں بجلی کی طرح یہ خیال کوند گیا کہ وہ مجھ سے کھیل رہا ہے اور اس خیال کے آتے ہی میں کانپ گئی۔ فوراً میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور ذرا تیزی سے بولی، ’’شاید تمہیں کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے۔‘‘

    وہ بولا، ’’کیسے؟ یہ کیا؟‘‘ میں نے کہا، ’’لیکن میں سمجھتی ہوں ضرور تمہیں کچھ دھوکا ہو گیا ہے۔‘‘

    ’’نہیں تو کس بات کا دھوکا؟ میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘

    ’’شاید میری باتوں سے تم نے کچھ اور مطلب نکالا۔‘‘

    ’’نہیں۔ میں نے کوئی نیا مطلب نہیں نکالا۔ آخر یکایک ایسی باتیں کیوں کرنے لگیں؟‘‘ میں فضول کا جھگڑا مول لینا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے بات کاٹ کر کہا، ’’اب بہت دیر ہو گئی ہے۔ لیٹ جاؤ۔‘‘

    ’’لیکن مجھے نیند نہیں آ رہی ہے اور اب تو ہرگز نہیں آ سکتی۔‘‘ میرے منہ سے نکلا، ’’نیند تو مجھے بھی نہیں آ سکتی۔‘‘

    ’’تو پھر لیٹنے سے کیا فائدہ؟‘‘

    ’’نہیں میرے خیال میں اچھا یہی ہے کہ اب لیٹ جاؤ۔‘‘

    وہ بولا، ’’اچھا اگر تمہاری یہی خوشی ہے تو میں لیٹ جاتا ہوں۔‘‘ وہ ایک گدی پر لیٹ گیا اور میں کھڑکی کے باہر اپنا منہ نکال کر ان سب باتوں کے بارے میں سوچنے لگی، جو ان چند گھنٹوں میں پیش آئی تھیں۔ لیکن یہ خیال کہ وہ مجھ سے اور میرے جذبات سے محض کھیلنے کی کوشش کر رہا تھا، مجھ کو کھائے جاتا تھا۔ اس حالت میں مشکل سے پندرہ ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ کانپور کا اسٹیشن آ گیا۔ ہمیں دوسری گاڑی بدلنی تھی اور چونکہ اس کے جانے میں کچھ گھنٹے باقی تھے۔ ہم نے اپنا اسباب ویٹنگ روم میں رکھوا دیا۔ اس نے بستر کھول کے بچھائے اور مجھ سے بولا کہ اب تھوڑی دیر کے لیے سو جاؤ۔ میں لیٹ گئی، لیکن نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ آخرکار میں اٹھ کر باہر چاندنی میں ٹہلنے لگی۔ یہ خیال کہ وہ مجھ سے کھیل رہا تھا، مجھے چین نہ لینے دیتا تھا۔

    اس سے نہ رہا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی باہر نکل آیا اور میرے ساتھ ٹہلنے لگا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد وہ بولا، ’’اچھا اب بتاؤ یہ تم کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے تو کچھ نہیں۔ تمہیں غلط فہمی ہو گئی ہے۔‘‘ اس نے پوچھا، ’’کس بات کی غلط فہمی؟‘‘ میں نےجواب دیا، ’’تمہاری باتوں کے لہجہ سے ظاہر ہوتا تھا کہ تم میری باتوں یا لہجہ کو غلط طریقے سے سمجھے۔‘‘ وہ بولا، ’’ہرگز نہیں۔ میں تو تمہاری باتوں کو دہرا رہا تھا۔ تم نے ہی پہلے مجھ سے اپنی نظمیں سنانے کی فرمایش کی۔ تم نے ہی پہلے اس تمام لطف اور خوشی کے ختم ہو جانے کا تدکرہ کیا۔‘‘ میں بولی، ’’لیکن اس تمام گفتگو سے میرا کوئی خاص مطلب نہ تھا۔ میں تو عام طور پر باتیں کر رہی تھی اور اس تمام وقت میرا خیال کہیں اور تھا۔‘‘

    ’’لیکن تم سارے وقت ’ہم‘ کا لفظ استعمال کر رہی تھیں۔ اس میں غلط فہمی کی گنجایش نہیں۔ دوسرے جب میں نے تمہارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا تو اس وقت تم کچھ نہ بولیں اور اچھا اگر تم مجھ سے ’عشق بازی‘ بھی کر رہی تھیں تو کیا ہرج ہے؟‘‘

    ’’کیا!‘‘ میں نے تکلیف سے چیخ کر کہا۔

    ’’کیا ایک عورت کوعشق بازی کرنے کا حق حاصل نہیں ہے؟‘‘

    عشق بازی کا لفظ سن کر مجھ کو حد درجہ تکلیف ہوئی۔ اب تک میں سمجھتی تھی کہ شاید وہ میری کچھ پروا کرتا ہے۔ لیکن اس لفظ کو سن کر مجھے دھکا سا لگا اور میں لڑکھڑا گئی۔ ہم عورتیں کبھی اس بات کی روا دار نہیں کہ اپنے دلی جذبات کو ایک مرد کے منہ سے اس طرح بے باکانہ دہراتے ہوئے سنیں۔ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ مرد ہمیشہ ہم سے میٹھی میٹھی باتیں کیا کریں اور خاموشی سے ہماری خواہشات اور مرضی کو محسوس کر کے پورا کرتے رہیں۔ لیکن جب ہمارا سابقہ کسی ایسے شخص سے پڑ جاتا ہے جو ہم کو ایک ناچیز سی شے سمجھ کر دوبدو بات چیت کرے تو ہمارا سارا غصہ اس خواہش میں تبدیل ہو جاتا ہے کہ ہم اس پراس طرح حاوی ہو جائیں کہ وہ پھر ہم کو ناچیز نہ سمجھ سکے اور ہم اپنے تمام جادو اور سب اداؤں کو اس بات کے حاصل کرنےمیں صرف کر دیتے ہیں اور حالانکہ اس وقت اس کی گفتگو سے مجھے دلی صدمہ پہنچا لیکن پھر اس پر قابو پا لینے کی خواہش مجھ پر حاوی آ گئی اور آخر کار ہم دونوں نے صلح کر لی۔

    (۳)

    جب ہماری گاڑی کا وقت قریب آیا تو صبح کے چار بجے ہم ویٹنگ روم سے نیچے اترے۔ میں نئی چپلیں پہنے ہوئے تھی اور کچھ تو سوچنے اور کچھ رات جاگنے سے میرا دماغ چکرا رہا تھا۔ جب ہم زینہ سے اتر رہے تھے تو ایک چکنی سیڑھی پر میرا پیر پھسلا اور میں گر پڑی۔ وہ بہت پریشان ہو گیا اور افسوس کے لہجہ میں مجھ سے پوچھنے لگا، ’’چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ جوں توں کر کے میں زینہ سے اتری۔ چوٹ کی تکلیف بڑھ گئی تھی اور میں لڑکھڑائی۔ وہ میری کمر میں اپنا ہاتھ ڈال کر مجھے دوسرے پلیٹ فارم تک لے گیا۔ جب ہم اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے تو اس نےمجھے لٹا دیا۔ اس کےچہرہ سے رنج اور پشیمانی ظاہر ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگا، ’’مجھ کو بےحد افسوس ہے کہ میری وجہ سے تم کو اتنی تکلیف پہنچی ہے۔ لیکن اب تم سو جاؤ۔‘‘

    ’’نہیں، نہیں، فضول کی بات مت کرو۔‘‘

    اس نے مجھ سے پھر کہا، اب تھوڑی دیر آرام کر لو اور میں یہ کہہ کر کہ جب گنگا پل آئے تو مجھے جگا دینا آنکھیں بند کرکے لیٹ گئی۔۔۔ جب گاڑی دریا کے پل پر گزری تو اس نے مجھے ہلکے سے جگایا۔ میں پیٹ کے بل لیٹ گئی اور کھڑکی کے باہر دیکھا۔ کچھ کچھ اجالا ہو چلا تھا اور آسمان پر ہلکے ہلکے رنگین اور شربتی بادل چھائے ہوئے تھے۔ دریا اپنا حسین اور پر سکون اجلا سینہ کھولے ہوئے فضا کی بڑھتی ہوئی روشنی کو آہستہ آہستہ اپنے اندر جذب کر رہا تھا۔ دور دور جدھر نگاہ دوڑتی تھی، زندگی رات کے نشہ سے چور، انگڑائی لے رہی تھی۔

    اس وقت یکایک مجھے اپنی کمزوری کا ایسا احساس ہوا کہ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دعا میں مشغول ہو گئی۔ اس وقت تک مجھے خیال بھی نہ آیا تھا کہ میں آنند کو بالکل بھلائے دے رہی ہوں۔ مگر میں اس میں اس قدر محو تھی کہ آنند کے لیے میری زندگی میں کوئی جگہ باقی نہ رہی تھی اور حالانکہ ہماری گفتگو آنند سے شروع ہوئی تھی، لیکن اس نے آنند کو اس طرح میرے دماغ سے الگ کر دیا جیسے وہ ایک وہم و گمان تھا۔ مگر اس وقت جب وہ میرے پہلو میں اپنا ایک ہاتھ میری کمر میں ڈالے ہوئے بیٹھا تھا، تو یکایک مجھے خیال آیا کہ یہ سب ایک دھوکا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ الگ چلا جائےگا اور میں الگ اور گو میں اپنے آپ کو کھو چکی ہوں گی، وہ شاید پھر کبھی میرا خیال بھی نہ کرےگا۔ اس وقت میں کیا کروں گی؟ یکایک آنند کی تصویر میری آنکھوں میں پھر گئی اور میں نے اپنی آنکھیں بند کرکے اپنی مضبوطی اور آنند کی محبت کے لیے دعا مانگی۔

    شاید میں نے اس صدق دلی سے دعا مانگی تھی کہ وہ قبول ہو گئی۔ لیکن اب مجھ کو اس کے قبول ہو جانے کی کوئی خوشی نہیں۔ اس کے بغیر میری زندگی کتنی بےسود اور خالی ہے، مردہ اور بےآرزو۔۔۔ جب میں دعا مانگ چکی تو اس کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہ عجیب کیفیت تھی کہ اس کے اثر سےمیرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ وہ کچھ دیر مجھے اسی طرح دیکھتا رہا اور اس کے جذبات کی گرمی نے مجھ میں بھی ہیجان پیدا کر دیا۔ اس وقت اس کے دل میں بھی محبت کی لہر دوڑ رہی تھی۔ اس کےاندر بھی جذبات کا طوفان امڈا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہ نرمی اور نشہ تھا جس کو میں ہرگز نہ بھولوں گی اور ایک ہی خیال ہمارے دلوں میں پنہاں تھا۔ ایک ہی جذبہ ہمارے اندر موجزن تھا۔۔۔ پھر ایک ساتھ ہم دونوں نے کھڑکی کے باہر دیکھا۔ یکایک بادلوں کے پیچھے سےسورج نے اپنا سنہری منہ نکالا اور اس کی رقص کرتی ہوئی کرنیں ہمارے اوپر پڑیں اور ساری زمین اور فضا زندگی کی امنگ اور محبت سے کھل کھلاکر ہنسنے لگی۔

    مگر وہ رات ختم ہو گئی۔ نہیں، ختم نہیں ہوئی۔ وہ میری زندگی کا راز بن کر میرے اندر پنہاں ہو گئی ہے۔ اس کے تاثرات سے ابھی تک میں لطف اندوز ہو رہی ہوں۔ اس کا اور میرا ساتھ عمر بھر کا ہے اور جہاں بھی میں ہوں گی، جس حال میں بھی ہوں گی، وہ میرے سائے کی طرح میرے ساتھ رہےگی۔ نہ میں اس رات کو بھول سکتی ہوں اور نہ اس کو۔ خزاں اور بہار انسان کی زندگی کے ساتھ ہیں۔ خزاں بہار کی ہراول بن کے آتی ہے اور بہار خزاں سے خالی نہیں اور عرصہ ہوا۔ اس نے مجھے اپنے آخری خط میں لکھا تھا، ’’میں خزاں کے موسم میں تمہاری زندگی کی بہارمیں آیا تھا اور اب پھر خزاں کا موسم ہے اور میں تمہاری زندگی کی بہار سے رخصت ہوتا ہوں۔۔۔‘‘ لیکن اسی طرح محبت اور نفرت، اچھائی اور برائی میں جدوجہد ہمیشہ سے چلی آئی ہے اور ہمیشہ جاری رہےگی۔

    اور حالانکہ میری زندگی خالی اور بیکار ہے، اس میں خزاں کا کیڑا لگ چکا ہے، لیکن بہار اسی طرح اپنے پورے جوش اور جشن میں ہے۔ وہی دل آویز نیلگوں آسمان ہے، وہی ولایتی مٹر کے رنگین پھولوں کی مہک سارے میں بسی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے