موت کا راز
اس بے ربط و ناہموار زمین کے شمال کی طرف نباتاتی ٹیلوں کے دامن میں، میں نے گندم کی بتیسویں فصل لگائی تھی اور سرطانی سورج کی حیات کش تمازت میں پکتی ہوئی بالیوں کو دیکھ کر میں خوش ہو رہا تھا۔ گندم کا ایک ایک دانہ پہاڑی دیمک کے برابر تھا۔ ایک خوشے کو مسل کر میں نے ایک دانہ نکالا۔ وہ کناروں کی طرف سے باہر کو قدرے پچکا ہوا تھا۔ اس کی درمیانی لکیر کچھ گہری تھی، یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ گندم اچھی ہے۔ اس میں خوردنی مادہ زیادہ ہے اور گورکھپور کی منڈی میں اس سال اس کی فروخت نفع بخش ہو گی۔
میرے خیالات کچھ یکسوئی اختیار کر رہے تھے۔ اس وقت زندوں میں سے میرے نزدیک کوئی نہ تھا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اگر زندوں میں سے کوئی تمھارے نزدیک نہ تھا تو کیا مردوں کی یاد تمھارے ویران خانۂ دل کو آباد کر رہی تھی؟ میرا جواب اثبات میں ہے۔ میں آپ سے ایک اور بات بھی اصرار سے منوانا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ میں مردوں کا تصوّر ہی نہیں کر رہا تھا، بلکہ ان کو اپنے سامنے، پیچھے، دائیں اور بائیں کتھا کلی انداز سے رقص کرتے، ہنستے اور خوف سے کانپتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ جس طرح آپ کی داڑھی کا بال بال مجھے علاحدہ نظر آتا ہے اور آپ کی تمازت زدہ آنکھوں کے سُرخ ڈورے دیکھ رہا ہوں، اسی طرح میں انھیں دیکھ رہا تھا۔ ان میں سے کسی کا چہرہ جموی موتیا کی اس کلی کی مانند، جس کا چہرہ صبح کے وقت کاشمیری بہار کی شبنم نے دھو دیا ہو، شگفتہ ہو کر چمک رہا تھا اور کسی کے چہرے پر جھُریاں اور گہری گہری لکیریں تھیں۔ شاید وہ کسی نتیجہ خیز تجربۂ زندگی کی نشانیاں تھیں۔
نہ وہ گندم کے کھیت کے کناروں پر کھیل رہے تھے، نہ ہی بتیس سالہ شیشم، جس کے گھنے سایہ دار پھیلاؤ کے نیچے میں آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا، اپنے ہلکے ہلکے پاؤں کو نچا رہے تھے، بلکہ وہ خود میرے جسم کے اندر تھے۔ ہائیں! آپ حیران کیوں کھڑے ہیں۔ آپ پوچھتے ہیں کہ میں کہاں تھا؟ سنیے تو۔ میں جسم کی اس حالت میں تھا، جسے انہماک کی آخری منزل کہنا چاہیے۔ میں خود اپنے جسم سے علاحدہ ہو کر اسے یوں دیکھ رہا تھا، جس طرح پرانی حکایتوں کا شہزادہ کسی اونچے اور نباتاتی ٹیلے پر کھڑا دور سے اس شہزادی کے محل کا اٹھتے ہوئے دھوئیں کے وجود سے اندازہ لگائے، جس نے اپنی شادی مشروط رکھی ہو۔
وہ رقصاں، خنداں، لرزاں لوگ میرے بزرگ تھے۔ بچّہ اپنے والدین کی تصویر ہوتا ہے۔ میرا باپ اپنے باپ کی تصویر تھا۔ اس لیے میں اپنے دادا کی تصویر بھی ہو سکتا ہوں اور یوں ارتقائی منازل طے کرنے کی وجہ سے اپنے بزرگانِ سلف کی، اگر صاف نہیں تو دھندلی سی تصویر ضرور ہوں۔ ہندستانی تہذیب دو نسلوں سے شروع ہے۔ ایک دراوڑ اور دوسری آریہ۔ میں آریہ نسل سے ہوں۔ میرا دراز قد، سفید رنگ، سیاہ چشم، حساس خوش باش اور قدرے وہم پرست ہونا، اس بات کا ثبوت ہے۔یہ بات معلوم کرنے کی میری زبردست خواہش تھی کہ موت کا راز کیا ہے۔ مرتے وقت مرنے والے پر کیا کیا عمل ظہور پذیر ہوتا ہے۔ مجھے یہ یقین دلایا جا چکا تھا، کہ مادہ اور روح لافانی ہیں۔ ایسی حالت میں اگر وہ موت کے عمل میں اپنی ہیئت بدلتے ہیں، تو اس وقت ان کی کیا حالت ہوتی ہے۔ آخر مرنے والے گئے کہاں؟ وہ جا بھی کہاں سکتے ہیں، سوائے اس بات کے کہ وہ کوئی دوسری شکل اختیار کر لیں، جسے ہم لوگ آواگون کہتے ہیں۔ کیونکہ مختلف ہیئتوں میں ظہور پذیر ہونے کے بعد پھر اس ذرہ کو جس سے ہم پیدا ہوئے ہیں، آدمی کی شکل دی جاتی ہے۔
یہ بات سن کر شاید آپ بہت ہی متعجب ہوں گے کہ میں اپنے سامنے اپنی پیدا ہونے والی اولاد کو بھی دیکھ رہا تھا۔ میرے سامنے ایک گھنگریالے سیاہ بالوں اور چمکتے ہوئے دانتوں والا لحیم و شحیم بچّہ آیا،جو آج سے ہزاروں سال بعد پید ا ہو گا اور جو میری ایک دھندلی سی تصویر تھا۔ میں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور چھاتی سے لگا، بھینچ بھینچ کر پیار کرنے لگا۔ اسے پیار کرنے لگا۔ اسے پیار کرتے وقت مجھے فقط یہی محسوس ہوا، جیسے میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کندھے اور بایاں ہاتھ دائیں کندھے پر رکھ کر اپنے آپ کو بھینچ رہا ہوں۔ اس بچے نے کہا، ’’بڑے بابا۔پرنام۔ میں جا رہا ہوں۔‘‘
میرا ہونے والا بچّہ اور بزرگانِ سلف تمام واپس جا رہے تھے۔ اس انہماک کے عالم میں میں ابھی تک دور کھڑا یہی محسوس کررہا تھا کہ میرا جسم زمین کا ایک ایسا حصہ ہے،جس میں میرے بزرگان سلف کی غاریں اور آئندہ نسلوں کے شاندار محل ہیں، جن میں برسوں کے مردے اور نئے آنے والے اپنے قدیم اور جدید طریقوں سے جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں۔
گھبرائیے نہیں، اور سنیے تو۔ یہ میری باتیں جو بظاہر پاگلوں کی سی دکھائی دیتی ہیں۔ دراصل ہیں بڑی محنت خیز۔مجھے کچھ سمجھا لینے دو۔پھر میں آپ کو ادبی مضمون میں تشبیہ دینے کا طریقہ بتاؤں گا۔ کل ہی آپ کہہ رہے تھے کہ درختوں پر گدھ شام کے وقت بیٹھے یوں دکھائی دے رہے تھے، جیسے کسی اونچے شیشم پر سنہری تربوز اوندھے لٹک رہے ہوں۔کتنی بھونڈی تشبیہ کہی آپ نے!
یہ تو میں جانتا ہی تھا کہ روح کے علاوہ مادہ بھی فنا نہیں ہوتا۔ مگر اس بات کو دیکھنے کی ایک آگ سی ہر وقت سینہ میں سلگتی رہتی تھی، کہ موت کے عالم میں بظاہر فنا ہوتے ہوئے شخص، یعنی ذرہ کی مجموعی صورت کو کن کن تخریبی و تعمیری مدارج سے گزر کر دوسری ہیئت میں آنا پڑتا ہے۔ یعنی آخر۔موت کا راز کیا ہے؟
وہ ذرۂ عظیم، وہ جزو لایتجزّیٰ، جو کہ تمام ارضی و سماوی طاقت کا مغز ہے، کیسا منظم ہے۔ مثال کے طور پر اجرام فلکی کی گردش کا نظام لیجیے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی جرم اپنے مخصوص راستہ سے ایک انچ بھی ادھر ادھر ہٹ جائے، تو کیسی قیامت بپا ہو۔ چاند گرہن کے موقع پر ہم لوگ دان پُن بھی کرتے ہیں، تو اسی لیے کہ وہی ایک ایسا وقت ہو سکتا ہے، جب کہ اجرام فلکی کا کشش ثقل سے ادھر ادھر ہو کر اور آپس میں ٹکرا کر مادۂ ہیولیٰ کی شکل اختیار کر لینا ممکن ہے۔ ہم آریہ۔ حساس، من موجی اور توہم پرست لوگ یہ نہیں چاہتے کہ ہم کوئی برا کام کرتے ہوئے تباہ ہو جائیں اور وہ مادہ ہیولیٰ کا ایک حصّہ بن جائیں۔ دان پُن سے اچھا کام اور کیا ہو گا؟
آپ اسے تصوّف، وہم، اور خشک اور ترش مضمون کہیں، مگر یہ ان ہرسہ اقسام سے بالاتر ہے۔ ہاں ہاں! آپ نے پوچھا تھا کہ ذرۂ عظیم کیا ہے۔ یہ جاندار شئے کی ابتدائی صورت ہے۔ یہ عورت اور مرد دونوں میں زندہ ہے۔ تمام ارضی و سماوی طاقت کا مرکز ہے۔ شاید اس سے بہتر اس کی کوئی تعریف نہیں کرسکتا۔ اس کے متعلق میں ایک قیاس غیر مصدق، جو بظاہر یاوہ گوئی دکھائی دیتا ہے، مگر ہے بہت جامع اور درست۔دہرا دینا چاہتا ہوں۔ وہ قیاسِ غیر مصدق ریاضی طبیعیات کے ایک بڑے ماہرنے کہا تھا، ’’ذرہ۔جزو لایتجزّیٰ۔ہم نہیں جانتے کیا۔کیا کچھ کرتا ہے۔ہم نہیں جانتے کیسے؟‘‘
شاید ریاضی دانوں نے ریاضی قواعد ضرب و تقسیم اس ذرّے سے ہی سیکھے ہیں، وہ دو سے چار، چار سے آٹھ اور آٹھ سے چوگنا ہو جاتا ہے۔اور پھر ہزاروں سے حیران کن طور پر ایک۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ وہ یہ سے وہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس بات سے پردۂ راز نہیں اٹھا، کہ وہ کیسے؟جس دن یہ پردۂ راز اٹھے گا، تو موت کا راز منکشف ہونے میں باقی رہ ہی کیا جائے گا؟
چند دن ہوئے میں اسی اضطرابِ ذہنی میں مبتلا بیٹھا تھا اور سرطانی سورج گندم کی بالیوں کو پکا رہا تھا۔ بالیاں بالکل سوکھ چکے تھے اور ان کی داڑھی اس قدر خشک ہو گئی تھی، ایک ایک بال کانٹے کی مانند چبھتا تھا۔ کچھ دبانے سے بال خود بخود جھڑنے لگتے۔ سٹے کو مسلتے مسلتے اس کا ایک بال میرے ناخن میں اتر گیا اور لاکھوں ذرات، جن کی میں مجموعی صورت ہوں، ان میں سے ایک ذرّے کو جو کہ انفرادی طور پر ذرہ عظیم سے کم نہیں، اس نے آگے دھکیل دیا۔ وہ ذرّہ جو آگے دھکیلا گیا نامعلوم گذشتہ زمانے میں میرا کوئی بزرگ تھا، یا شاید آئندہ نسلوں میں سے کوئی۔یہ میں جان نہ سکا۔ بہرحال سِٹے کا بال ان دونوں میں سے نہ تھا۔ وہ ایک بیرونی خارجی چیز تھی، جس کو میرے نظامِ جسم میں چلے آنا اس مسافر کی مداخلت بے جا کی مانند تھا جو لفظ ’’شارع عام نہیں ہے‘‘ پڑھتے ہوئے بھی اندر گھس آئے۔ یہ قطعی ممانعت کی وجہ ہی تھی کہ درد کی ٹیس اٹھ اٹھ کر مجھے لرزہ بر اندام کر رہی تھی۔
بھلا ایک کتا اپنی گلی میں دوسرے کتے کو نہیں آنے دیتا، تو میرے قابلِ پرستش بزرگوں اور معرکۃ الآرا کام کرنے والی آئندہ نسلوں کی عظیم الشان ہستیاں اس خارجی چیز کی مداخلتِ بے جا کو کب برداشت کرسکتی تھیں۔ اف درد! ماسوا اس چیز کے۔اس ذرے کے جو کہ ہماری آئندہ نسلوں کا اپنی ضرب و تقسیم کے ساتھ روحانی اور جسمانی بُت بنے، یا ہمارے بزرگوں سے ہمیں ورثہ میں آئے، کسی اور چیز کو مطلق دخل نہیں۔ مادہ اور روح دونوں اس وقت تک چین نہیں پاتے جب تک خارجی مادے کو ہر ایک تکلیف سہ کر جسم سے باہر نہیں پھینک دیا جاتا۔
وہ ذرہ تو ہر جنبش سے اثرپذیر ہوتا ہے۔ اگر آپ نے غلط روی سے اپنے جسم و روح کے نامناسب استعمال سے انھیں کسی طرح مفلوک اور ناتواں بنا دیا ہے، تو آپ کے وہ ذرّے جنھوں نے آپ کے بیٹے اور پوتے بننا ہے، مفلوک اور ناتواں حالت میں آپ کے سامنے آ کر آپ کے دلی اور ذہنی اضطراب کا باعث ہوں گے۔ وہ اسے قسمت و تقدیر کہیں گے۔ لیکن اگر قسمت کی تعریف مجھ سے پوچھیں، تو وہ یہ ہے ’’صحبت نیک و بد کے اثر کے علاوہ جو چیز پوری ذمہ داری سے ہمارے بزرگوں نے ہمیں دی ہے۔ وہ ہماری قسمت ہے‘‘۔ اس لیے آپ جو بھی فعل کریں، سوچ کر کریں۔ انگلی بھی ہلائیں تو سوچ کر۔یاد رکھیے۔ یہ ایک معمولی بات نہیں ہے۔اب شاید آپ ذرے کے قول و فعل سے کچھ واقف ہو گئے ہوں گے۔
جس دن سٹے کا بال میرے ناخن میں داخل ہوا، میں بہت مضطرب رہا۔شام کو میں گھبرایا ہوا قریب ہی شہر کے ایک بڑے اختر شناس کے پاس گیا۔ اس نے میری راس وغیرہ دیکھتے ہوئے قیافہ لگایا اور مجھے کہا کہ برہسپت کا اثر تمھیں ہر بلا سے محفوظ رکھے گا اور تمھاری عمر بہت لمبی ہے۔ اس کا شاید خیال ہو کہ درازیِ عمر کی پیشین گوئی سن کر یہ مالدار زمیندار اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی میں چمکتی ہوئی طلائی انگوٹھی اتار کر دے گا۔ مگر یہ بات سن کر مجھے سخت بے چینی ہوئی۔ مایوسی کے عالم میں مَیں نے اسے اس کی قلیل فیس۔ایک ناریل، آٹا اور پانچ پیسے دے دیے۔ میں تو مرنا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا کہ اس حالت میں مجھ پر کیا عمل ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا بھی شوق تھا کہ میں اس راز کو، جس کی بابت بڑے بڑے حکیم اور طبیعیات کے ماہر کہہ چکے ہیں۔’’وہ کرتا ہے کچھ۔ہم نہیں جانتے کیسے۔‘‘ طشت از بام کر دوں اور دنیا میں پہلا شخص بنوں جو کہ دوسری ہیئت میں آتے ہوئے اپنی حیرت انگیز یاد داشت کے ذریعہ سے دنیا پر واضح کر دے کہ ذرے کو یہ حالت پیش آتی ہے۔اور وہ اس شکل میں تبدیل ہوتا ہے۔
اس بات کے مشاہدہ کے لیے خود مرنا لازمی تھا۔ مگر عاقل اخترشناس نے اس کے برعکس درازیِ عمر کی روح فرسا خبر سنائی تھی۔ آتم گھات، خود کشی ایک پاپ تھا، جس کا ارتکاب نہ صرف میرے بزرگوں کے نام پر دھبہ لگاتا تھا، بلکہ موجودہ بچّوں اور آئندہ نسلوں پر بھی اثرانداز ہوتا تھا۔ چنانچہ میں نے خودکشی کے خیال کو بالکل باطل گردانا۔
میں جنگل میں ایک ٹیلے پر بیٹھا تھا۔ وہاں سے دریائے گنڈک کے کسی معاون کے ایک آبشار کی آواز صاف طور پر کانوں میں آ رہی تھی اور چونکہ مجھے وہی بات خوش کرسکتی تھی جو کہ میرے دل کو مضطرب کرے، اس لیے گنڈک کے معاون کے آبشار کی دل کو بٹھا دینے والی آواز مجھے بھا رہی تھی۔ ایک پتھر کو الٹاتے ہوئے میں نے بہت سے کیڑے مکوڑے دیکھے۔ پھر میں نے کہا، ’’شاید اس آبشار کی آواز اور موت کے راگ میں کچھ مشابہت ہو۔‘‘ شام ہو چکی تھی، سورج مکمل طور پر ڈوبا بھی نہیں تھا کہ سر پر چاند کا بے نور اور کاغذی رنگ کا جسم دکھائی دینے لگا۔ پتھروں میں سے ایک جلا دینے والی بھڑاس نکل رہی تھی۔ یکایک مجھے ایک خیال آیا۔ ایک ترکیب سوجھی جس سے میں ذرے کی ہیئت بدلنے کا مشاہدہ کرسکتا تھا۔ یعنی موت کا عمل بھانپ سکتا تھا۔ اسے ہم خودکشی بھی نہیں کہہ سکتے۔ وہ صرف مشاہدہ کی آخری منزل ہے۔ وہ یہ کہ گنڈک کے معاون کے آبشار سے آدھ میل بہاؤ کی طرف، جہاں پانی کی خوفناک لہریں ایک پتھریلے ٹیلے کو عموداً ٹکرا کر اپنا دم توڑتے ہوئے جنوب مشرق کی طرف گنڈک سے ملنے کے لیے بہ نکلتی ہیں، نہانے کے لیے اتر جاؤں اور غیر ارادی طور پر پانی کے اندر ہی اندر گہرائی اور تیز بہاؤ کی طرف آہستہ آہستہ چلتا جاؤں اور یہ صورت پیدا ہو، کہ یا میرا پاؤں کسی آبی جھاڑی میں اڑ جائے، یا کوئی جانور مجھے کھینچ لے، یا پانی کا کوئی زبردست ریلا وہ عمل میرے سامنے لے آئے جس سے ذرہ کو کوئی دوسری صورت ملے۔ شاید آپ اسے بھی خودکشی کہیں مگر اس غیر ارادی فعل کو میں تو قدرتی موت کہوں گا۔
چنانچہ مرنے سے بہت پہلے میں نے اپنے تصوّر میں کنکھل۔ گنگا مائی کے چرنوں پر سر رکھا، اور سوگند لی کہ میں ضرور اس غیر ارادی فعل کو پایۂ تکمیل تک پہنچاؤں گا۔ گنڈک کی معاون، آبشار سے ایک میل بہاؤ کی طرف بھی اس تیز رفتاری سے بہ رہا تھا، باوجودیکہ عموداً چٹان سے ٹکراتے ہوئے اس کی لہریں اپنا دم توڑ چکی تھیں۔ میں کمر تک مکتی ناتھ اور دھولاگری کے ارد گرد کی پہاڑیوں سے آئے ہوئے برفانی پانی میں داخل ہو چکا تھا۔ میں جلدی جلدی آگے بڑھنا نہ چاہتا تھا، کیونکہ ایسا کرنا ارادتاً اپنے آپ کو مار ڈالنا تھا۔ کچھ آگے بڑھتے ہوئے میں نے آہستہ آہستہ پاؤں کو اقلیدسی نصف دائرہ کی شکل میں گھمانا شروع کیا اور تقریباً پانچ منٹ تک ایسا کرتا رہا، تاکہ کوئی پانی کا ریلا مجھے بہا لے جائے، یا کوئی تیندوا یا گھڑیال پانی میں ٹانگ پکڑ کر مجھے گھسیٹ لے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔
معاً میرا پاؤں ایک آبی جھاڑی میں الجھ گیا۔ اور میں پانی میں غوطے کھانے لگا۔ میرا پاؤں پھسلا اور دوسرے لمحہ میں پانی کے ریلے بڑے زور شور سے میرے سر سے گزر رہے تھے۔
کچھ دیر تک تو میں نے اپنا دم سادھے رکھا۔ مگر کب تک؟ بے ہوش ہونے سے پہلے مجھے چند ایک باتیں یاد تھیں کہ میری ٹانگیں اور ہاتھ تیز پانی میں کانپتے ہوئے ادھر ادھر چل رہے تھے۔ باہر نکلتے ہوئے سانس سے چند بلبلے اٹھ کر سطح کی طرف گئے۔ میرے دماغ میں زندہ رہنے کی ایک زبردست خواہش نے اکساہٹ پیدا کی۔ اس کوشش میں مَیں کسی چیز کو پکڑنے کے لیے پانی میں ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے لگا، مگر اب میں پانی کی زد سے باہر نہ آسکتا تھا، اگرچہ میں نے اس کے لیے بہت کچھ جد و جہد کی۔
اس کے بعد میری یاد داشت مختل ہونے لگی۔ میرے بزرگان،کنکھل،پرانی حکایتوں کا شہزادہ، موت کا راز،مکتی ناتھ،کنکھل،موت کا راز۔اس کے بعد ایک نیلا سا اندھیرا چھا گیا۔ اندھیرے میں کبھی کبھی روشنی کی ایک جھلک ایک بڑے سے کیڑے کی شکل میں دکھائی دیتی۔پھر پرانی حکایتوں کا شہزادہ۔۔۔ ذرّہ۔۔۔ موت کا عمل۔خاموشی اور اندھیرا ہی اندھیرا۔
اس مکمل بے ہوشی میں مجھے ایک نقطہ سا دکھائی دیا، جو کہ برابر پھیلتا گیا۔ شاید یہ وہی ذرۂ عظیم تھا جس کی بابت میں نے بہت کچھ کہا ہے۔ جو بسیط ہوتا گیا۔پھیل کر ایک جھلی کی سی صورت میں میرے جسم کے اردگرد لپٹ گیا۔ اس طرح کہ اب پانی اس میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے میں کسی خلا میں ہوں۔ جہاں سانس لینا بھی ایک تکلف ہے۔
ذرّۂ عظیم سے آواز آنے لگی۔
موت کے عمل میں تین حالتیں ہوتی ہیں۔ قبل از موت، موت ، بعد از موت۔ اول حالت میں ہو سکتا ہے کہ دوسری حالت تم پر طاری ہونے سے پہلے تم زندہ رہ جاؤ۔ قدرتاً اس میں تمھیں دوسری حالت کا احساس نہیں ہو سکتا۔ دوسری حالت میں تم اس بات کو ایک عارضی عرصہ کے لیے جان سکتے ہو، جس کی تم اتنی خواہش لیے ہوئے ہو، مگر اس کا اظہار نہیں کرسکتے۔ مابعد موت تمھیں زندگی کی پہلی نشانی گویائی کی قوت عطا کی جاتی ہے۔ پھر یادداشت کو جو اول دوم حالت میں تمھارے ساتھ ہوتی ہے، اسے خیرباد کہنا ہوتا ہے۔ ذرّے کو فراموشی عطا کر کے اس پر مہربانی کی جاتی ہے۔ عین اسی طرح جیسے آدمی کو غیب سے نا آشنا رکھ کر اس پر کرم کیا جاتا ہے۔ وہ راز یادداشت کی مکمل تحلیل میں پنہاں ہے۔
’’یادداشت کی مکمل تحلیل۔‘‘ میں نے ان الفاظ کو ذہن میں دہراتے ہوئے کہا ’’یادداشت کی تحلیل۔ کیا ہماری نسلیں بھی ہماری یادداشت ہیں؟ اور کیا اس کی مکمل تحلیل پر میں وہ راز دنیا والوں کے سامنے طشت از بام کرسکتا ہوں؟ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
زندگی کی اس خواہش کے ساتھ ہی میں نے اپنے آپ کو مکتی ناتھ اور دھولاگری کے ارد گرد کی پہاڑیوں میں سے بہ کر آتے ہوئے برفانی پانی کی سطح پر پایا۔ جھلّی سی میرے جسم پر سے اتر چکی تھی۔ زندگی کی ایک اور خواہش کے پیدا ہوتے ہی گنڈک کے معاون کے ایک ریلے نے مجھے کنارے پر پھینک دیا۔ اس وقت چاندنی رات میں ہوا تیزی سے چل کر سانس کی صورت میں میرے ایک ایک مسام میں داخل ہو رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.