کھل بندھنا
کہانی کی کہانی
پورنماشی کو ایک مندر میں لگنے والے میلے کے گرد گھومتی یہ کہانی نسائی ڈسکورس پر بات کرتی ہے۔ مندر میں لگنے والا میلہ خاص طور سے خواتین کے لیے ہی ہے، جہاں وہ گھر میں چل رہے جھگڑوں، شوہروں، ساس اور نندوں کی طرف سے لگائے بندھنوں کے کھلنے کی منتیں مانگتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ خاندان اور سماج میں عورت کی حالت پر بھی بات چیت کرتی جاتی ہیں۔
مندر کے احاطے سے گزرتے ہوئے سیوا کارن، بانورے کو بڑ کے درخت تلے دیکھ کر رک گئی۔ بولی، ’’ارے تجھے کیا ہوا جو یوں ہانپ رہا ہے تو؟‘‘
بانورے نے ماتھے سے پسینہ پونچھا۔ بولا، ’’سیوا کارن سامان اٹھاتے اٹھاتے ہار گیا۔‘‘
’’کیسا سامان رے؟‘‘ سیوا کارن نے پوچھا۔
’’اب پورن ماشی میں اتنی چاتریاں آئی ہیں کہ حد نہیں۔ چالیس سے اوپر ہوں گی۔ ان کا سامان۔۔۔‘‘
’’چالیس سے اوپر۔۔۔؟‘‘ سیوا کارن نے حیرانی سے دہرایا۔
’’ہاں دیوی!‘‘ وہ بولا، ’’سب کچی عمر کی ہیں۔ لڑکیاں ہی لڑکیاں۔ پکی عمر کی بس چار ایک ہوں گی۔ پر وہ بھی لڑکی سمان دکھتی ہیں۔ مجھے تو یوں لگے ہے جیسے سارا کالج ہی ادھر آ گیا ہو۔‘‘
یہ سن کر سیوا کارن سوچ میں پڑ گئی۔ جیسے چپ لگ گئی ہو پھر بولی، ’’تپسنی مہامان کا کہنا سچ ہو رہا ہے۔ وہ کہا کرتی تھی، سیوا کارن کلجگ میں نہ استری رہے گی نہ ناری۔ صرف لڑکیاں رہ جائیں گی۔ ابلائیں، پھر وہ ممتا کا دھارا سوکھ جائے گا۔ ناتے ٹوٹ جائیں گے، پرش اور ناری کا فرق مٹ جائے گا، ایک کو دوسرے سے پرکھنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہو رہا ہے۔‘‘ بانورے نے دبی زبان سے کہا، ’’پر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آوے ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ انہیں نہ تو دیوی پر وشواس ہے نہ دیوتا پر۔
’’پورن ماشی پر بھی پانچ چھے آ جایا کرتی تھیں۔ اب کے چالیس کیسے آ گئیں؟ ہے بھگوان کیا بھید ہے!‘‘
سیوا کارن مسکرائی، ’’بھگوان کے بھیدوں کو کس نے جانا ہے بانورے۔‘‘
سیوا کارن جانے لگی تو مائی بھاگی دوڑی آئی، ’’دیوی کے چاتر بہتے ہیں اور مندر کی کوٹھڑیاں کم۔ انہیں کیسی ٹھکانہ دوں؟‘‘
’’جیسے کیسے پورن کر دے بھاگی۔‘‘ سیوا کارن نے جواب دیا، ’’بس ایک بات کا دھیان رکھیو کہ مندر میں کوئی نہ سوئے اور تپسنی مہامان کی کوٹھری میں کوئی پاؤں نہ دھرے۔
’’وہاں کون پاؤں دھر سکتا ہے بھلا؟‘‘ بانورا بولا، ’’مہمان کی کوٹھری تو سدا بند رہتی ہے۔ اندر سے کنڈی لگی رہتی ہے۔‘‘
سیوا کارن پھر سوچ میں پڑ گئی۔ اسے چپ لگ گئی۔ دیر تک مائی بھاگی اس کا منہ تکتی رہی۔ پھر سیوا کارن گویا اپنے آپ سے بولی، ’’ہاں کنڈی کا بھید نہ جانے کب تک رہے گا۔ جیون بھر تپسنی مہامان نے اندر سے کنڈی لگائے رکھی۔ پھر جب مرن بعد اس کی ارتھی اٹھانے گئے تو دیکھا کہ پھر اندر سے کنڈی لگی ہوئی ہے۔‘‘
’’کیا کہا۔ مرن کے بعد اندر سے کنڈی کس نے لگائی؟‘‘ بانورہ بولا۔
’’کون جانے۔‘‘ سیوا کارن نے مدھم آواز میں خود سے کہا، ’’گرو دیو کا کہنا ہے تپسنی مہامان کے مرن جیون کا بھید آج تک نہیں کھلا۔‘‘
’’ہے بھگوان۔‘‘ بھاگی نے ہاتھ جوڑ کر ماتھے پر رکھ لیے۔
سیوا کارن نے کہا، ’’پرنو جوتش والوں کو کہا ہے کہ کلجگ میں کسی پورن ماشی کو یہ بھید ضرور ملے گا۔ کھل کر رہے گا۔ گرو دیو کہتے ہیں۔ ہاں مہامان کے ابھاگ کا چکر اک دن ضرور ٹوٹے گا۔ پھر اسے شانتی مل جائے گی۔‘‘
’’سچ ہے سیوا کارن جی۔‘‘ بھاگی بولا، ’’اب بھی کئی بار آدھی رات کے سمے مندر سے مہامان کے بھجن کی آواز آتی ہے۔‘‘
’’کھل بندھنا۔ بندھ دے۔ کھل بندھنا۔۔۔‘‘
’’ہائیں یہ کیسے بول ہیں؟‘‘ بانورہ بولا۔ ’’جو دیوی بندھن کھولے ہے، اس کے چرنوں میں بیٹھ کر بندھ دے کی پرارتھنا کرنا۔ ہرے رام، ہرے رام، ہرے رام۔‘‘
سیوا کارن کو پھر چپ لگ گئی۔ اس وقت سورج مغرب میں غروب ہو رہا تھا جیسے مندر پر رنگ پچکاریاں چلا رہا ہو۔ مندر کے پرلے سرے پر گھنے بوھڑ کے درخت کے لمبے سائے میں بیٹھا شام مراری بانسری پر کلیان بجا رہا تھا۔ بادلوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ دوران پورنا کے گاؤں میں کوئی چکی کراہ کراہ تال دے رہی تھی۔ وہ سب چونک اٹھے، ’’ہائیں یہ کیا؟‘‘
’’یہ کیسی آواز ہے؟‘‘ سیوا کارن نے پوچھا۔
’’یہ چاتری ہیں۔‘‘ دیوی بھاگی بولی۔ ’’دیوی کھل بندھنا کے چرنوں میں بیٹھ کر گیان دھیان کی بجائے ہنس بول رہی ہیں۔‘‘
بانورہ ہنسا۔ کہنے لگا، ’’ان آج کل کی چھوکریوں کو کیا پتہ کہ دیوی کیا ہوے ہے۔ بندھن کیا ہووے۔ جیون کیا ہوے ہے۔‘‘
مندر سے ہنسی کا ایک اور ریلا اٹھا۔ کانتا کا منہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔ ’’یہ ہنسنے کی بات نہیں، رونے کی ہے۔ یہ سارے شبد دیوی، رانی، استری، شریمتی، عورت، وومن سب چھوٹے ہیں۔‘‘
’’تو پھر سچا لفظ کون سا ہے؟‘‘ کوشلیا نے پوچھا۔ کانتا بولی، ’’میری طرف دیکھو۔ میں نہ دیوی ہوں، نہ شریمتی ہوں، نہ وومن ہوں۔ میں اک باندی ہوں باندی۔ اے سیلو صرف میں ہی نہیں، تم ہم سب۔ وی آر آل سیلوز۔۔۔ سیلوز۔‘‘
’’سچ کہتی ہے۔‘‘ کنول بولی، ’’ہم سب اپنے ماسٹر کا دل خوش کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ ہم اپنے مالکوں کی خوش وقتی دیتی ہیں۔ اے مومنٹ آف جائے۔ اے مومنٹ آف اکسائٹ منٹ۔ ایک لذت کا لمحہ۔ وقتی چٹخارہ اور بس۔‘‘
’’نہ ابلا ایسا نہ کہو۔‘‘ دیہاتن بولی۔ ’’ا ناری داسی نہیں، مالکن ہوتی ہے۔‘‘
’’کھی کھی کھی کھی۔‘‘ کنول تمسخر سے ہنسی۔
’’مجھے بتا تو وہ کون عورت ہے جو داسی نہیں بلکہ مالکن ہے؟‘‘ کانتا نے پوچھا۔
’’میں ہوں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ دیہاتن نے فخر سے سر اٹھا کر کہا، ’’میں اپنے پتی کے من پر راج کرتی ہوں۔ مسکا کر دیکھوں تو وہ لہلہا اٹھے ہے۔ گھوری دکھاؤں تو مرجھا کر گر پڑے ہے۔ سوکھ جائے ہے۔‘‘
’’جو ایسا ہے۔۔۔‘‘ کانتا نے غصے میں کہا، ’’تو تو کھل بندھنا دیوی کی پورن ماشی میں جھک مارنے آئی ہے کیا؟‘‘
’’یہاں تو بندھن کھلوانے آتے ہیں۔‘‘ کوشلیا نے وضاحت کی۔ ’’تو کون سا بندھن کھلوانے آئی ہے۔‘‘
’’سچ کہو ابلا۔‘‘ سچ کہو دیہاتن نے جواب دیا، ’’میرے بھاگیہ کی گانٹھ پتی کے من میں نہیں پڑی۔ ساس کے من میں پڑی ہے۔ وہ ہمیں دیکھ نہیں سکھاوے ہے۔ جتنا پتی چاہے ہے، اتنا ہی ساس جلے ہے۔ بس گھولے ہے، اپنے پتر کو مجھے راسن کر کے دیوے ہے۔ ادھر وہ تڑپے ہے ادھر میں تڑپوں ہوں۔ بیچ میں ساس دیوار بن کر کھڑی ہے۔ بس یہی میرے نصیبے کا بندھن ہے۔ کیا پتہ اس پورن ماشی میں دیوی ماشی کھل بندھنا میرا یہ بندھن کھول دے۔‘‘ وہ ہاتھ باندھ کر اٹھ کھڑی ہوئی، ’’جے ہو دیوی کھل بندھنا کی۔‘‘
’’کھی کھی کھی کھی۔‘‘ کنول ہنسی۔ ’’بھولی عورت یہ جو ساس نند ہیں، یہ تو پتی کی ویہڑے کے چاند ہیں۔ ان کی اپنی روشنی نہیں، مانگے کی ہے۔ پتی مہاراج کی دین ہے۔ سارا چمتکار سورج مہاراج کا ہے۔ چاہے تو ساس کا چاند چمکا کر بہو سر پر لٹکا دے۔ چاہے تو نند کا ہانڈا چلا کر بھاوج کی آنکھیں چندھیا دے۔‘‘
’’سچ کہتی ہو۔‘‘ سندری بولی، ’’سب کھیل مداری کا ہے، چاہے تو بندریا نچا دے، چاہے تو مینا سے ٹیں ٹیں کرا دے۔‘‘
کانتا سنجیدہ ہو کر بولی، ’’پگلی ساس نند تو پتلیاں ہیں۔ پتی دیو کے ہاتھ میں ڈوری ہے۔ جسے چاہے نچا دے۔ بچارے مات پتا کا کیا دوش۔‘‘
’’مات پتا۔۔۔‘‘ سینے ماتھے پر گھوری تن گئی۔ ’’سکھیو عورت کا کوئی اپنا نہیں۔ بھائی بہن نہ مات پتا۔ یہ وہ ناؤ ہے جس کا کوئی پتوار نہیں۔ بس ڈولن ہی ڈولن ہے۔ جیون بھر کاڈولن۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر ایک ہچکی نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’تیری بپتا کیا ہے ری؟‘‘ سندری نے پوچھا۔
’’مت پوچھ۔ شکنتلے چیخی، ’’دکھیا کو نہ چھیڑ، پھوڑے کو ہاتھ نہ لگا۔‘‘
’’میری بپتا۔ سیسے گنگنائی۔ میں اک بکاؤ مال ہوں۔ مات پتا مجھے دو بار بیچ چکے ہیں۔ اب تیجی بار کے داؤ میں بیٹھے ہیں۔ پہلے بیچتے ہیں، پھر بسنے نہیں دیتے کہ پھر سے بیچ سکیں۔‘‘
سیسے اٹھ بیٹھی۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر مورتی کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ بولی، ’’ہے کھل بندھنا دیوی۔۔۔ بتا، کیا میرے بھاگیہ میں بکنا ہی لکھا ہے۔ بول جو ایسا ہی ہے تو بتا کہ میں خود اپنے کو بیچوں۔ کھلے بندوں بیچوں۔ روج کے روج بیچوں۔ مجھے یہ دکھ تو نہ رہے کہ مات پتا اپنی پیٹ جائی کو بکاؤ مال بنائے بیٹھے ہیں۔ کنول اٹھی۔ اس نے سیسے کو کلاوے میں بھر لیا۔ بولی، ’’جی برا نہ کر بہنا، اک تو ہی نہیں، ہم سب بکاؤ مال ہیں۔ کوئی خود کو اک ہی مرد کے ہاتھ روز کے روز بیچتی ہے، کوئی رنگ رنگ کے پرش کے ہاتھ بکتی ہے۔‘‘
’’کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ کانتا نے کہا۔ ’’ایک کے ہاتھ بار بار بکو یا ہر رات نئے گاہک کے ہاتھ بکو۔ بکنا ہمارا بھاگیہ ہے۔ کتنا بڑا بندھن ہے۔‘‘
’’صرف ایک نہیں، بندھن ہی بندھن ہیں۔‘‘ کنول غصے سے چلائی۔
’’اٹھو بہنا سب بندھن توڑ دو۔ اپنی ہمت سے توڑ دو۔‘‘ شکنتلے چلائی۔
’’ایک بھی باقی نہ رہے۔ یہ پتھر کی دیوی کھل بندھنا بے چاری کیا کرے گی۔‘‘
’’ہوش کرو لڑکیو۔ یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔‘‘ مائی بھاگی بات کئے بغیر نہ رہ سکی۔ ’’مندر میں کھل بندھنا کے چرنوں میں بیٹھ کر تم پورن ماشی سے ایک رات پہلے دیوی کے خلاف اپنے من میں بس گھول رہی ہو۔‘‘
’’کیوں نہ بس گھولیں۔‘‘ کانتا بولی۔ ’’ہم تو دیوی کے پاس صرف اس لئے آئی ہیں کہ پروٹسٹ کریں۔ کیا دیوی کو نظر نہیں آتا کہ بندھوں نے عورت کا بند بند لہولہان کر رکھا ہے۔ کیا عورت سارے بندھنوں سے کبھی آزاد نہ ہو گی۔‘‘
’’نہ نہ نہ نہ۔‘‘ بھاگی کے منہ سے عجیب سی آوازیں نکلیں۔ اس کا رنگ ہلدی کی طرح پیلا پڑ گیا۔ خوف کے مارے آنکھیں باہر نکل آئیں۔ ’’نہ نہ نہ نہ۔‘‘ وہ بولی، ’’دیوی سے ایک بندھن کھولنے کی مت کرو۔ کوئی ایک بندھن۔ پرنتو وہ باہر کا بندھن ہو، بھیتر کا نہیں۔ جو تم نے سارے بندھن کھولنے کی پرارتھنا کی تو۔۔۔ نہ نہ نہ نہ۔ ایسا نہ کرو۔ جو دیوی نے تمہاری سن لی تو۔۔۔ تو کیا ہو گا؟‘‘
ایک ساعت کے لیے سب ڈر گئیں۔
’’کیا مطلب ہے؟‘‘ کنول نے ہمت کر کے پوچھا۔
’’جو باہر بھیتر کے سارے بندھن ٹوٹ گیے تو۔۔۔‘‘ بھاگی نے خوف زدہ ہو کر کہا۔
’’ٹوٹ گئے تو۔۔۔؟‘‘ سبھی بوکھلا سی گئیں۔ تو کہا۔
’’تو تم بھی مہامان کے سمان ہو جاؤ گی۔‘‘ بھاگی رک گئی۔ جیسے اس کے گلے میں آواز نہ رہی ہو۔
’’مہامان کے سمان۔‘‘ سب نے دہرایا۔
عین اس وقت سیوا کارن کی آواز سنائی دی، ’’۔۔۔ بھاگی!‘‘
آواز سن کر بھاگی جیسے جاگ اٹھی۔ طلسم ٹوٹ گیا۔ شرمندہ سی ہو گئی۔ دانتوں میں زبان دیے بھاگی۔ اس کے جانے کے بعد کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔ پھر کنول بولی، ’’یہ کون تھی؟‘‘
’’کوئی مندر کی ہے۔‘‘
’’کیا کہہ رہی تھی؟‘‘
’’پتہ نہیں کیا کہہ رہی تھی۔‘‘
دیہاتن بولی، ’’کہہ رہی تھی اگر دیوی نے تمہاری مانگ پوری کر دی۔ سارے بندھن کھول دیئے تو پھر کیا کرو گی۔‘‘
’’نان سنس۔‘‘ کانتا نے ناک چڑھائی۔
’’مجھے یہ مندر وندر، دیوی ویوی۔ سب پاکھنڈ معلوم ہوتا ہے۔‘‘ پیلی ساڑھی والی پہلی مرتبہ بولی۔
’’جو ایسا ہے تو کیوں آئی ہو؟‘‘ کنول نے پوچھا۔
’’چاندی کے رسے کو کھلتے دیکھنے آئی ہوں۔‘‘ پیلی ساڑھی والی نے کہا۔
’’کیا واقعی رسہ کھلتا ہے؟‘‘
’’کہتے ہیں، یوں تار تار ہو جاتا ہے جیسے دھو کر سوکھنے کے بعد بال کھلتے ہیں۔‘‘
پیلی ساڑھی والی اٹھی۔ بولی، ’’سب پاکھنڈ ہے۔ نہ پرارتھنا سے کچھ ہو گا، نہ ماتھا ٹیکنے سے۔ نہ منتوں ترلوں سے۔ اگر اس سدا کی غلامی سے نجات پانا ہے تو اٹھو جدوجہد کرو۔ جان لڑا دو ورنہ اس مرد کی دنیا میں عورت کا کوئی مقام نہیں۔‘‘
’’بالکل بالکل۔‘‘ چاروں طرف سے شور مچ گیا۔
شہر سے دور، شاہراہ سے دور، شوالک پہاڑیوں میں بجھی ہوئی پگڈنڈیوں کے بیچ درختوں سے گھرا ہوا ایک گاؤں ہے۔ ان پورنا۔۔۔ اس گاؤں سے ایک میل جنوب کی طرف ایک کھلا میدان ہے جس کے درمیان میں ایک بہت پرانا مندر ہے جسے کھل بندھنا کا مندر کہتے ہیں۔ یہ مندر اتنا پرانا ہے کہ کسی کو پتہ نہیں کہ کب تعمیر ہوا۔ اس کی بناوٹ بھی مندر کی سی نہیں۔ نہ مندر کا مخروطی گنبد نہ کلس۔
صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک بہت بڑا ہال کمرہ ہے جس کی چھت نیچی ہے۔ ہال کمرے درمیان میں ایک چبوترے پر پتھر سے بنا ہوا قد آدم دیوی کا مجسمہ ہے جس کے خد و خال وقت کی خرد برد کی وجہ سے گھسے پٹے ہوئے ہیں۔ صرف آنکھیں واضح ہیں جو لمبی اور ترچھی ہونے کی وجہ سے یوں ڈولتی محسوس ہوتی ہیں جیسے کشتیاں ہوں۔ دیوی کے قریب ہی ایک موٹا سا چاندی کا رسہ چھت سے لٹک رہا ہے جو چاندی کی پتلی پتلی تاروں کو باٹ کر بنایا گیا ہے۔ ہال کمرے کے ارد گرد تینوں طرف چھوٹی چھوٹی کوٹھریاں بنی ہوئی ہیں جن کے ارد گرد ایک چھوٹا سا برآمدہ چاروں طرف سے گھومتا ہے۔ دیکھنے میں ایسا لگتا ہے جیسے وہ مندر نہیں، بدھ مت کے پجاریوں کا پاٹھ شالہ ہو۔
پرانے زمانے سے پتھر کی بنی ہوئی عمارت دیوی کھل بندھنا کے مندر کے نام سے مشہور ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ دیوی کا اصل نام کیا ہے۔ سارے علاقے میں مشہور ہے کہ وہ بندھن کھول دیتی ہے۔ ہر سال بیساکھ کی پورن ماشی کے دن ارد گرد کے علاقے سے عورتیں دیوی کے آگے سیس نوانے کے لئے آتی ہیں۔ کوئی پتی کہ من میں پڑی ہوئی گرہ کھولنے کے لئے پرارتھنا کرتی ہے۔ کوئی بیٹے کے دل میں پریم بندھن کے خلاف ہاہا کار مچاتی ہے۔ کوئی ساس بہو کے کرودھ کھولنے کی بنتی کرتی ہے۔ کوئی اولاد کی روک کا رونا روتی ہے۔
پورن ماشی کی رات شام ہی سے دیوی کا بھجن شروع ہو جاتا ہے۔ جوں جوں رات بھیگتی ہے، مجمعے پر ایک کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔ پھر آدھی رات کے قریب ماتری درت لے شروع ہوتی ہے۔
’’دیوی۔۔۔ کھل بندھنا۔‘‘
اس پر سارے یاتری اٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان پر وجدان کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ دل پر وجدان طاری ہو جائے تو سارے اعضاء رقص کرنے لگتے ہیں۔ کوئی برمال، کوئی گپت۔ جب یہ رقص اپنی انتہا پر پہنچتا ہے تو مندر میں ایک عجیب سی آواز پیدا ہوتی ہے۔ یوں جیسے آکاش سے گھنگھرو گرے ہوں۔
اس پر پجاری ساکت ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ ٹھمک ٹھمک گھنگھرو بندھے پاؤں قدم قدم قریب آتے ہیں اور دیوی کے پاس آ کر رک جاتے ہیں۔ عین اس وقت مندر کا مہا منتری سنکھ بجاتا ہے۔ سنکھ کی آواز سن کر پھر سے کھل بندھنا کا بھجن شروع ہو جاتا ہے۔ سنکھ روتا ہے ڈھولک سر پیٹتی ہے اور لوگ بھجن کے پردے میں آہ زاری کرتے ہیں۔
عین اس وقت سیوا کارن جوگیا دھوتی میں ملبوس موتیے کے ہار لپیٹے دیوی کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ تیز۔۔۔ تیز۔۔۔ اور تیز۔ ساتھ ہی چھت سے لٹکا ہوا چاندی کا رسہ جھومنے لگتا ہے۔ اس جھولن جھومن میں رسے کے بل کھولنے لگتے ہیں۔ کھلتے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ چاندی کی تاریں یوں ایک ہو کر لٹکنے لگتی ہیں جیسے کسی مٹیار نے سکھانے کے لئے بال کھول رکھے ہیں۔ یہی دیوی کا معجزہ ہے۔ اسی لیے دیوی کا نام کھل بندھنا مشہور ہے۔
ساری چاتریاں ایک ایک کر کے مندر سے جاچکی تھیں۔ صرف کانتا، کنول اور سیسے عورت کے بندھنوں کی شکایت کی زنجیر میں بندھی بیٹھی تھیں کہ مندر کی گھنٹی بجی۔ وہ تینوں چونکیں۔ ان کے سامنے سیوا کارن کھڑی تھی۔ بولی، ’’مندر کے دوار بند کرنے کا سمے ہو گیا۔ اب تم اپنا ٹھکانہ کر لو۔‘‘
’’کہاں ہے ہمارا ٹھکانہ؟‘‘ کنول نے پوچھا۔
’’جس کوٹھری میں بھی جگہ ملے۔‘‘
’’اور جو کوٹھریوں کے دروازے بند ہوئے تو۔۔۔‘‘ کانتا نے پوچھا۔
’’تو کھٹکھٹاؤ۔ مندر میں کوئی رات بھر نہیں رہ سکتا۔ دیوی کی یہی آ گیا ہے۔‘‘
’’جب وہ مندر سے باہر نکلیں اور ایک نظر لمبے برآمدے پر ڈالی تو سیسے بولی، ’’سب کوٹھڑیوں کے کواڑ بند ہیں۔ کسے کھٹکھٹائیں؟‘‘
’’باری باری سب کو بجا دو۔‘‘ کنول نے کہا۔
عین اس وقت برآمدے کے درمیان کی کوٹھڑی کا دروازہ چوں کر کے آپ ہی کھل گیا۔ اندر سے دیئے کی مدھم روشنی باہر آنے لگی۔
انہوں نے کھلے کواڑ سے اندر جھانکا۔ کوٹھڑی خالی پڑی تھی۔ فرش پر سوکھی گھاس بچھی ہوئی تھی۔ دیوار کے آلے میں اک دیا ٹمٹما رہا تھا۔
جب وہ لیٹنے لگیں تو سیسے نے ڈر سے چیخ سی مار دی۔ ’’وہ دیکھو وہ۔۔۔‘‘
’’محراب کے پیچھے کوٹھری کے پچھلے حصے میں ایک کھاٹ بچھی ہوئی تھی جس پر کوئی کالی چادر لپیٹے سو رہا تھا۔
’’کون ہے یہ؟‘‘ سیسے نے پوچھا۔
’’کوئی ہو گی۔‘‘ کانتا نے بے پرواہی سے کہا۔
’’آج تو ساری کوٹھریاں بھری ہوئی ہیں۔‘‘ کنول بولی۔
’’کنول۔۔۔‘‘ کانتا نے کہا۔ ’’یہ مہامان کون تھی جس کا ذکر مندر والے کر رہے تھے۔‘‘
’’وہی جس کے سارے بندھن کھل گیے تھے۔‘‘
’’یہ طوطا مینا کہانی تم مان گئیں کیا؟‘‘ سیسے نے کہا، ’’سب جھوٹ ہے۔۔۔ جھوٹ۔‘‘
’’اوں ہوں۔ جھوٹ نہیں۔‘‘ کوٹھری کے پچھلے حصے سے بھاری بھرکم آواز آئی۔
وہ تینوں چونک اٹھیں۔
’’تو کون ہے؟‘‘ سیسے نے بلند آواز سے پوچھا۔
’’میں ہی ہوں۔‘‘
’’اس کی آواز کو کیا ہے؟‘‘ کنول نے زیر لب پوچھا، ’’عورت کی سی نہیں۔‘‘
’’رو رو کے میرا گلا رندھ گیا ہے۔‘‘ کالی چادر والی نے کہا۔
’’تو مہامان کو جانتی ہے کیا؟‘‘ کانتے نے پوچھا۔
’’جانتی ہوں۔ میں اس کی بالکی ہوں۔‘‘ کالی چادر والی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ لیکن وہ کوٹھڑی کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھی۔
’’مہامان کے سارے بندھن ٹوٹ گیے تھے کیا؟‘‘
’’مہامان کون تھی؟‘‘
’’اس پر کیا بیتی؟‘‘
کوئی کچھ نہ کچھ پوچھ رہی تھی۔ پھر کوٹھری میں خاموشی چھا گئی۔ دفعتاً کالی چادر والی بولی، ’’مہامان کے مات پتا نذر کوٹ کی ریاست میں رہتے تھے۔ گھر کھانے کو سوکھی روٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔ جب مہمان ان کے گھر پیدا ہوئی تو ماں باپ کے دل میں امید کا دیا ٹمٹمایا کہ پتری بڑی ہو گئی تو ریاست کے مہاراجہ کی بھینٹ کریں گے۔ چھوٹی موٹی جاگیر مل جائے گی۔ جیون سکھی ہو جائے گا۔‘‘
’’مہاراجہ کی بھینٹ؟‘‘ کنول نے حیرت سے دہرایا۔
’’ہاں مہاراجہ کی بھینٹ۔ ان دنوں یہ رواج تھا۔ ماں باپ سندر پتریاں مہاراجہ کی بھینٹ کر دیتے تھے۔ مہاراج چار ایک روج کلی کا رس چوستے۔ پھر اسے پرانے محل میں پھینک دیتے جہاں مہاراج کے نوکر چاکر پھول کی پنکھڑیاں نوچتے اور پھر جب وہ ڈنٹھل بن جاتی تو کال کوٹھری میں دھکیل دیتے۔ یہی ان دنوں کی ریت تھی۔ پتری سندر تھی۔ مات پتا نے اس کا نام شوبھا رکھ دیا۔‘‘ کالی چادر والی نے آہ بھر کر کہا۔
’’شوبھا کون؟‘‘ سیسے گنگنائی۔
’’وہی۔۔۔‘‘ کالی چادر والی نے آہ بھر کر کہا۔ ’’جو مندر میں آ کر تپسیا کرتے کرتے مہامان بن گئی۔‘‘ وہ تینوں چپ چاپ بات بنے بیٹھی تھیں۔
’’مات پتا نے شوبھا کے پیٹ اور گالوں پر حلوہ باندھ باندھ کر پتری کو بڑا کیا کہ پیٹ ملائم رہے۔ گال چکنے ہو جائیں۔ رانوں پر گھیر کی مالشیں کیں کہ لچک بڑھے۔ کمر پر کمر بند کس دیا کہ ربٹ کے گیند کی طرحیوں ابھر ابھر کر جھٹکے۔‘‘
’’توبہ ہے۔‘‘ سیسے نے آہ بھری۔
’’جب شوبھا بڑی ہوئی تو اس میں وہ سب کچھ تھا جو مات پتا نے چاہا تھا۔ جسم تیار تھا پر من میں اڑان تھی۔‘‘
’’اڑان کیوں؟‘‘ کنول نے پوچھا۔
جب شوبھا کو پتہ چلا کہ اسے بھینٹ بنایا جا رہا ہے تو اس کے من نے کہا۔ میں سب کچھ بنوں گی پر بھینٹ نہ بنوں گی۔ مجھے تھالی میں پروس کر دوجے کے سامنے نہ دھرا جائے۔ میں کنیا ہوں۔ کھا جا نہیں ہوں۔
جب وہ اسے راجہ کے محل میں لے کر گئے تو حواریوں نے اسے اچھی طرح دیکھا کہ راجہ کے لائق ہے بھی یا نہیں۔ پھر وہ اسے مہاراج کی سیج پر بٹھا کر چلے گیے کہ مہاراج ابھی آتے ہیں۔ وہ وہاں سے اٹھ بھاگی۔ کھڑکی سے باہر نکلی۔ پر نصیبے کا لکھا کون مٹا سکے ہے۔ باہر کے کواڑ کی بجائے بھیتر کے کواڑ میں سے ہو کر پرانے محل میں جا پہنچی جہاں مہاراج کے نوکر تاک میں بیٹھے تھے۔ پتہ نہیں کتنے روج بھیڑیے اسے بھنبھوڑتے رہے۔ پر ایک دن وہ وہاں سے بھی نکل بھاگی۔
پریم کا گریا جگہ جگہ سے ترخ چکی تھی۔ اب اس میں دودھ بھرنے کی بات نہ رہی تھی۔ اس لئے وہ سیدھی شارجا نائیکہ کے پاس پہنچی۔ بولی۔ لے نائکہ مجھے بیچ اور کھا۔ اپنی جھولی بھر۔ اب میں کسی اور کام کی نہیں رہی۔‘‘ کالی چادر والی خاموش ہو گئی۔ دیر تک کوٹھری گم سم رہی جیسے اوپر چپ کا تنبو تنا ہو۔ صرف دل دھک دھک کر رہے تھے۔ کروٹیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ سینوں کی نوکیں ابھر کے کانٹے بن گئی تھیں۔ پھر کالی چادر والی نے ایک لمبی آہ بھری۔ بولی، ’’شوبھا کا وہ چرچا ہوا، وہ چرچا ہوا کہ مہاراج کے درباری بھی اس کے دوار پر کھڑے ہو کر انتجار کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک دن مہاراج خود چوبارے پر آ پہنچے۔
شوبھا کے پاس گیا نہ تھا۔ پوشاکیں، جیور، ہیرے جواہرات اور دھن۔ دھن ہی دھن۔ اوپر سے وہ پھول سمان کھلی کھلی تھی پر بھیتر میں ایک کانٹا لگا تھا۔ سوچتی کتنی اپرادھن ہوں میں کہ جگہ جگہ بوٹیاں تڑوائیں۔ بکی پر مات پتا کو جاگیر نہ لینے دی۔ ان کا کہنا سودا کھونا کر دیا۔ پتہ نہیں اب کس حال میں ہیں۔ اس کانٹے نے اس کے بھیتر کو لہولہان کر دیا۔ خود اپرادھن جاننے لگی تو پھر رہا نہ گیا۔ گہنے پاتے کی گٹھری باندھی اور چوری چوری چوبارے سے نکل گئی۔ مات پتا کو اپنی قیمت چکانے کے لئے گاؤں پہنچی تو پتہ چلا کہ وہ بھوک کے مارے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیے۔‘‘ کالی چادر والی پھر رک گئی۔
تینوں چھوکریاں یوں بیٹھی تھیں جیسے مایا اتر گئی ہو۔ استری ٹوٹ گئی ہو۔ جیسے پاپڑے سے کڑاکا نکل گیا ہو۔
’’شوبھا کی آنکھوں میں دنیا اندھیر ہو گئی۔‘‘ کالی چادر والی یوں بولی جیسے آواز بھیگ گئی۔ ’’دو سریں اور گر گئی ہو۔‘‘ کالی چادر والی پھر رک گئی۔
’’پھر۔۔۔؟‘‘ ستے گھگیائی۔
’’پھر‘‘ کالی چادر والی نے دہرایا، ’’پھر شوبھا کی نظر میں جیسے سب کچھ، کچھ بھی نہیں ہو گیا۔ دھن دولت بانٹ دی اور کھل بندھنا کے دوار پر آ بیٹھی۔ دیوی باہر کے بندھن پر ٹوٹ گئے۔ بھیتر کے بھی کھول دے۔‘‘ کالی چادر والی آہ بھر کر بولی۔
’’بھیتر کے دو بندھن اسے جکڑے ہوئے تھے۔ اک یہ کہ اس نے مات پتا کا اپمان کیا تھا۔‘‘
’’اور دوجا۔۔۔؟‘‘ کانتا کے ہونٹ ہلے پر کالی چادر والی چپ رہی۔
’’پھر۔۔۔؟‘‘ کنول کی آواز سنائی دی۔ پر وہ بت بنی بیٹھی رہی۔ بیٹھی رہی۔
پھر دور کوئی بالک رویا تو کالی چادر والی چونکی، ’’سنو سنو۔ دوجا بندھن آپ ہی بول پڑا۔ اس کے من میں اک بالک روتا تھا۔ ممتا سر پیٹتی تھی۔ چھاتیاں سر اٹھا اٹھا کر بین کرتی تھیں۔ وہ تھیلی تڑپتی تھی جہاں بالک آنا چاہے تھا۔ من لہو کے آنسو روتا تھا۔ جوں جوں بالک روتا، توں توں شوبھا کے چرنوں میں تڑپ تڑپ کر بنتی کرتی۔ آدھی آدھی رات کے سمے دیوی کے بھجن گاتا۔ دیوی۔۔۔ کھل بندھنا۔
اس نے اتنی تپسیا کی، اتنی تپسیا کی کہ مہامان بن گئی۔
پھر ایک رات وہ دیوی کے چرنوں میں سیس نوانے بیٹھی تھی تو مندر میں اک ہلکی آواز ابھری، ’’چپ۔‘‘ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو دیوی نے اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھی ہوئی تھی اور سارا مندر ’’چپ، چپ گنگنا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اس نے الٹا اپنی مانگ کر دہرانا شروع کر دیا۔ پھر ایک کرودھ بھری آواز ابھری۔ اندھی منگتی اپنی مانگ کو جان۔ اس پر بھی وہ نہ سمجھی۔ تو دیوی بولی، ’’استری بندھن ہی بندھن ہوتی ہے۔ جو بھیترے کے بندھن بھی کھل گئے تو استری، استری نہ رہے گی۔‘‘ یہ سن کر وہ ڈر گئی پر سمجھی پھر بھی نہیں۔
دیوی بولی، ’’استری لیروں کے کھدو سمان ہوتی ہے۔ لیریں نکال دو تو کھدو کہاں رہے گا؟‘‘
وہ پھر بھی نہ سمجھی۔ الٹی پھر سے بھجن رٹنے لگی، ’’دیوی کھل بندھنا۔‘‘ ناچ نچان کر دیوی کو منانے لگی۔
پھر دیوی جیسے کرودھ میں بولی، ’’جا تیری بھیتر کے بندھن کھل گیے۔‘‘
’’اس پر مندر ڈولنے لگا جیسے بھونچال آ گیا ہو اور مہامان گر پڑی۔‘‘ کالی چادر والی نے چادر لپیٹی اور اٹھ بیٹھی اور قدم قدم ان کی طرف چل پڑی۔
جب وہ محراب کے نیچے پہنچی تو سیسے بولی، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
وہ رک گئی، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ہاں ہاں۔۔۔ پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر۔۔۔‘‘ کالی چادر والی نے اپنے منہ سے چادر اٹھا دی، ’’پھر یہ ہوا۔۔۔ یہ۔۔۔‘‘
انہوں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ دہشت سے ان کی چیخیں نکل گئیں۔ ان کے سامنے پتہ نہیں کون سی مخلوق کھڑی تھی۔ نہ وہ عورت تھی نہ مرد۔ تینوں نے سیوا کارن کا دروازہ زور سے کھٹکھٹایا۔ ’’سن رہی ہو سیوا کارن۔ سن رہی ہو؟ وہ دیوی کے چرنوں میں بھجن بھینٹ کر رہی ہے۔‘‘
سیوا کارن بھاگی بھاگی باہر نکلی۔ دونوں مندر کے بڑے دروازے کی طرف دوڑیں۔ مہامان کی کوٹھڑی کی کنڈی کھل گئی۔ ’’مجھے پتہ تھا کہ اک دن ابھاگنی کا چکر ٹوٹ جائے گا۔‘‘ سیوا کارن سن تو سہی۔ بھاگی چلائی، ’’کھل بندھنا۔۔۔ بندھ دے۔‘‘
’’سنا تو نے۔‘‘ بھاگی چیخی، ’’مہامان نے بول بدل دیے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ سیوا کارن بولی، ’’مہا جوگی کہتے تھے، ایک دن آئے گا جب چاندی کا رسہ نہیں کھلے گا۔‘‘
’’اے دیوی تیری جے ہو۔‘‘
سیوا کارن نے ہاتھ جوڑ کر ماتھے پر رکھ لئے، اندر کوئی گائے جا رہی تھی۔
’’کھل بندھنا۔۔۔ بندھ دے۔ کھل بندھنا!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.