اعظم کریوی کے افسانے
پریم کی چوڑیاں
نورپور گنگا جی کے کنارے الہ آباد کے ضلع میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ پنڈت گردہاری لال اس گاؤں کے زمیندار تھے۔ راماشنگر ان کا اکلوتا لڑکا تھا۔ کھیتی باڑی میں بڑی برکت تھی۔ گھر میں غلہ کاانبار لگا رہتا تھا۔ کسی بات کی کمی نہ تھی۔ پنڈت رام لال کا لڑکا رام
بھکارن
’’ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جو بچپن میں بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتی تھی۔ بھیک مانگتے ہوئے ایک بار اسے ایک لڑکا ملا اور وہ لڑکا اسے اپنے گھر لے گیا۔ وہاں اس لڑکے کے باپ نے کہا کہ اگر یہ لڑکی کسی شریف خاندان کی ہوتی تو بھیک مانگ کر گزارہ کیوں کرتی۔ ان کی یہ بات اس لڑکی کے دل کو اتنی لگی کہ وہ پڑھ لکھ کر شہر کی مشہور لیڈی ڈاکٹر بن گئی۔‘‘
کنول
’’ایک برہمن لڑکی کی کہانی ہے، جسے ایک مسلم لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے۔ چونکہ لڑکا الگ مذہب اور ذات کا تھا اسلیے لڑکی اس سے شادی کرنے سے انکار تو کر دیتی ہے لیکن وہ ایک پل کے لیے بھی اسے بھول نہیں پاتی۔ اس لڑکی کی شادی کہیں اور ہو جاتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو بھی اپنی اس محبت کے بارے میں سچ سچ بتا دیتی ہے۔ یہ سچائی جان کر اس کے شوہر کی اس صدمے سے موت ہو جاتی ہے اور وہ لڑکی اپنے عاشق کے پاس لوٹ جاتی ہے۔‘‘
پنچایت
یہ ایک بوڑھی برہمنی کی کہانی ہے، جو اپنے پتی کے انتقال کے بعد تیرتھ یاترا پر جاتی ہے۔ تیرتھ یاترا پر جانے سے پہلے وہ بغیر رسید کے اپنی جمع پونجی گاؤں کے ساہوکار کے پاس رکھ جاتی ہے۔ واپس لوٹ کر جب وہ ساہوکار سے اپنی امانت واپس مانگتی ہے تو ساہوکار انکار کر دیتا ہے۔ ساہوکار کے انکار پرگاؤں کی پنچائت بلائی جاتی ہے۔ پنچایت میں بوڑھی برہمنی ساہوکار کی بیوی کو ہی اپنا گواہ بنا لیتی ہے۔
محبت کی ٹھوکر
ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جسے لڑکپن میں ایک لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس کے باپ کو جب اس بات کا پتہ چلتا ہے تو وہ اس لڑکے سے ملنے سے منع کر دیتا ہے۔ ایک روز لڑکی لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ جاتی ہے، لیکن لڑکا اس سے وفا نہیں کرتا۔
انقلاب
’’یہ امریا نام کے ایک گاؤں کی کہانی ہے، جہاں ہوائی جہاز کا کارخانہ بننے کی خوشی اور امیر بننے کی چاہت میں زمیندار اپنی زمین خوشی خوشی سرکار کو دے دیتے ہیں۔ لیکن جب کارخانہ بننا شروع ہوتا ہے تو گاؤں کے نظام میں ایسی تبدیلی ہوتی ہے کہ ان زمینداروں کی حالت مزدوروں سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔‘‘
کھویا ہوا پیار
یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے، جو ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے اپنی بیوی کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ بیوی کے گھر سے جانے کے بعد جب اسے اپنی بیوی کی کمی کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے، لیکن وہ اسے کہیں نہیں ملتی۔ جب وہ ملتی ہے تو ملنے کے بعد بھی وہ اس سے مل نہیں پاتا ہے۔
ہولی
یہ دو چچازاد بھائیوں کی کہانی ہے، جو ہمیشہ خلوص اور محبت کے ساتھ رہتے تھے۔ اپنے سبھی مسئلے آپس میں مل بیٹھ کر سلجھا لیتے تھے۔ جب پرانے دشمن اہیروں کے سردار کا ان کے یہاں آنا جانا ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ تباہ ہو گیا اور دونوں بھائی ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے۔
محبت کی یادگار
’’ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جسے گاؤں کے زمیندار کے بیٹے سے محبت ہو جاتی ہے۔ لڑکا جب بنارس میں پڑھنے جاتا ہے تو وہ وہاں سے اس کے لیے ایک تحفہ لاتا ہے، جسے وہ اپنے گلے میں پہن لیتی ہے۔ جب لڑکی کی شادی کسی اور کے ساتھ ہو جاتی ہے تب بھی وہ اس یادگار کو اپنے گلے سے نہیں اتارتی۔ اس یادگار نشان کی حسد میں اس کے شوہر کی موت ہو جاتی ہے۔‘‘
اچھوت
’’ایک ایسے برہمن سیٹھ کی کہانی ہے، جس کے یہاں کام کرتے ہوئے ایک چمار ذات کے مزدور کی جان چلی جاتی ہے۔ چمار مزدور کی موت پر قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے سیٹھ آناً فاناً اس مزدور کی لاش اپنے یہاں سے ہٹوا دیتا ہے۔ سالوں بعد جب اس چمار کا بیٹا ضلع کا حاکم بن کر اس شہر میں آتا ہے تو اس سیٹھ سے ملنے جاتا ہے۔ جب وہ سیٹھ کو بتاتا ہے کہ وہ اسی اچھوت کا بیٹا ہے، تو سیٹھ کو یہ بات برداشت نہیں ہوتی ہے اور وہ وہیں گر کر مر جاتا ہے۔‘‘
فٹ پاتھ
یہ فٹ پاتھ پر زندگی گزار رہے ایک ایسے بچے کہ کہانی ہے، جسے ایک امیر شخص گھر کے اوپری کام کاج کے لیے اپنے یہاں نوکر رکھنے کے لیے سوچتا ہے۔ وہ اس بچے کو خوب کھلاتا پلاتا ہے۔ نئے کپڑے دیتا ہے اور رات میں سونے کے لیے کمبل بھی۔ مگر بچہ کمبل لینے سے انکار کر دیتا ہے اور اگلے دن فٹ پاتھ پر جاکر اپنی چادر لانے کی اجازت مانگتا ہے۔ ایک بار جب وہ گھر سے جاتا ہے تو پھر لوٹ کر نہیں آتا۔