اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
دلچسپ معلومات
جناب رئیس امروہوی کی اس معروف نظم کا سن تصنیف عموماً 1972ء سمجھا جاتا ہے مگر کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ نظم روزنامہ جنگ کراچی میں پہلی مرتبہ 7 مارچ 1952ء کو شائع ہوئی تھی ۔ جناب رئیس امروہوی نے یہ نظم بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دئیے جانے کے مطالبے کے خلاف تحریر کی تھی۔
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالۂ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدۂ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میت غم دہلی مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اے تاج محل نقش بہ دیوار ہو غم سے
اے قلعۂ شاہی یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے خاک اودھ فائدہ کیا شرح ستم سے
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
سایہ ہو جب اردو کے جنازے پہ ولیؔ کا
ہوں میر تقیؔ ساتھ تو ہم راہ ہوں سوداؔ
دفنائیں اسے مصحفیؔ و ناسخؔ و انشاؔ
یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
بد ذوق ہے احباب سے گو ذوق ہیں رنجور
اردوئے معلیٰ کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور
فریاد دل غالبؔ مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہے مرثیہ خواں قوم ہیں اردو کے بہت کم
کہہ دو کہ انیسؔ اس کا لکھیں مرثیۂ غم
جنت سے دبیرؔ آ کے پڑھیں نوحۂ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے
پہلے کوئی سرسیدؔ اعظم کو خبر دے
وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کے جنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزادؔ و نذیرؔ و شررؔ و شبلیؔ و حالیؔ
فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.