میرا وطن
دل ربا لالہ ہو فضا تیری
مجھ کو بھائی نہ اک ادا تیری
لطف سے بڑھ کے ہے جفا تیری
واہ رے ہندوستاں وفا تیری
میں نہ مانوں کبھی ترا کہنا
میں نہ بخشوں کبھی خطا تیری
برتر از خار ہے ترا گلشن
زہر سے کم نہیں ہوا تیری
خالی از کیفیت تری ہر چیز
بات ہر ایک بے مزا تیری
درد دل میں تڑپ کے مر جاؤں
میں نہ ڈھونڈوں کبھی شفا تیری
کون سی بات تیری لطف آمیز
کون سی چیز دل کشا تیری
تجھ کو جنت نشان کہتے ہیں
ہم جہنم کی جان کہتے ہیں
تجھ کو کس بات پر ہے ناز بتا
کیا نہیں اور ملک تیرے سوا
تیری آب و ہوا لطیف سہی
تجھ سے بڑھ کر سپین کا خطہ
تجھ کو اپنی زمین کا ہے گھمنڈ
تجھ سے افضل کہیں ہے امریکہ
حسن پر اپنے ناز ہے تجھ کو
حسن تجھ سے سوا اطالیہ کا
تجھ کو گنگا کا اپنی دھوکا ہے
تو نے دیکھا نہیں ہے سین کو جا
موسیقی پر تجھے ہے ناز بہت
اس میں جز درد و غم دھرا ہے کیا
فلسفہ تیرا اگلے وقتوں کا
فلسفہ دیکھ جا کے یورپ کا
تجھ میں پھر آن کیا رہی باقی
تیری محفل نہ کچھ نہ کچھ ساقی
ہاں مروت کا تجھ میں نام نہیں
ہاں اخوت کا تجھ میں نام نہیں
تجھ سے بد نام عشق سا استاد
اور محبت کا تجھ میں نام نہیں
آشتی سیکھے تجھ سے آ کے کوئی
ہاں خصومت کا تجھ میں نام نہیں
تیری ہر بات میں صفائی ہے
اور کدورت کا تجھ میں نام نہیں
تجھ کو اور حریت سے کیا نسبت
اس ضرورت کا تجھ میں نام نہیں
شاد ہیں تیرے اپنے بیگانے
اور شکایت کا تجھ میں نام نہیں
تیری تہذیب تجھ کو موجب فخر
ہاں جہالت کا تجھ میں نام نہیں
بات دنیا سے ہے جدا تیری
واہ اے ہندوستاں ادا تیری
تیرے رسم و رواج نے مارا
اس مرض کے علاج نے مارا
تیری غیرت نے کر دیا برباد
خاندانوں کے لاج نے مارا
کیا کریں ہر گھڑی یہی ہے فکر
روز کی احتیاج نے مارا
آئے دن کال کا ہے ذکر اذکار
اک ذرا سے اناج نے مارا
اور سب پر وبا کا اک طرہ
اس انوکھے خراج نے مارا
بخت برگشتہ آرزوئیں بہت
ہوس سیم و عاج نے مارا
نہ کریں کام کچھ تو کھائیں کیا
روز کے کام کاج نے مارا
تو تو رہنے کا کچھ مقام نہیں
تجھ میں انسانیت کا نام نہیں
قید تو نے کیا حسینوں کو
مہ جبینوں کو نازنینوں کو
زیور علم سے رکھا عاری
تو نے قدرت کے ان نگینوں کو
اختیار و پسند کی اے ہند
کیا ضرورت نہ تھی حسینوں کو
خوب پہچانی تو نے قدر ان کی
خوب سمجھا تو ان خزینوں کو
کنویں جھنکوائے نازنینوں سے
زہر کھلوایا مہ جبینوں کو
ڈوبے جاتے ہیں کون آ کے بچائے
بحر ہستی کے ان سفینوں کو
تو مکاں تھا مکان ہو کے دیا
خوف آرام ان مکینوں کو
تجھ پہ تہذیب طعن کرتی ہے
تجھ پہ الزام خلق دھرتی ہے
آرزو ہے تجھے حکومت کی
جاہ و ثروت کی شان و شوکت کی
کیوں نہ ہو تجھ میں ہمت عالی
دھوم ہر سو ہے تیری جرأت کی
تو نے کسب فنون جنگ کیا
سب میں شہرت ہے تیری قوت کی
قسمیں کھاتے ہیں لوگ دنیا میں
تیری ملت تری اخوت کی
ملک داری میں ملک گیری میں
واہ کیا پیدا قابلیت کی
تو تو استاد سے بھی بڑھ نکلا
حیرت انگیز تو نے محنت کی
آپ عالم میں تو ہے اپنی مثال
آدمیت کی اور شجاعت کی
ہم سری کی کسی کو تاب نہیں
ترا آفاق میں جواب نہیں
داغ دل کے کسے دکھائیں ہم
ایسا مشفق کہاں سے لائیں ہم
دل میں ہے اپنے ہم نشیں اک روز
آپ رو کر تجھے رلائیں ہم
اس طبیعت کو کس طرح بہلائیں
دل کو کس چیز سے لگائیں ہم
کب تلک روز کے کہیں صدمے
کب تلک آفتیں اٹھائیں ہم
زہر کیوں اے فلک نہ ہم کھا لیں
جی سے اپنے گزر نہ جائیں ہم
جو شکایت ہو کیوں نہ لب پر آئے
ایک دکھ ہو اسے چھپائیں ہم
اے تمدن کے راحت و آرام
ہائے کس طرح تم کو پائیں ہم
لوگ اٹھاتے ہیں زندگی کے مزے
ہم اٹھاتے ہیں ناخوشی کے مزے
- کتاب : Hamari Qaumi Shaeri (Pg. 415)
- Author : Ali Jawad Zaidi
- مطبع : Uttar Pradesh Urdu Acadmi (Lucknow) (1998)
- اشاعت : 1998
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.