نہرو
میں نے تنہا کبھی اس کو دیکھا نہیں
پھر بھی جب اس کو دیکھا وہ تنہا ملا
جیسے صحرا میں چشمہ کہیں
یا سمندر میں مینار نور
یا کوئی فکر اوہام میں
فکر صدیوں اکیلی اکیلی رہی
ذہن صدیوں اکیلا اکیلا ملا
اور اکیلا اکیلا بھٹکتا رہا
ہر نئے ہر پرانے زمانے میں وہ
بے زباں تیرگی میں کبھی
اور کبھی چیختی دھوپ میں
چاندنی میں کبھی خواب کی
اس کی تقدیر تھی اک مسلسل تلاش
خود کو ڈھونڈا کیا ہر فسانے میں وہ
بوجھ سے اپنے اس کی کمر جھک گئی
قد مگر اور کچھ اور بڑھتا رہا
خیر و شر کی کوئی جنگ ہو
زندگی کا ہو کوئی جہاد
وہ ہمیشہ ہوا سب سے پہلے شہید
سب سے پہلے وہ سولی پہ چڑھتا رہا
جن تقاضوں نے اس کو دیا تھا جنم
ان کی آغوش میں پھر سمایا نہ وہ
خون میں وید گونجے ہوئے
اور جبیں پر فروزاں اذاں
اور سینے پہ رقصاں صلیب
بے جھجھک سب کے قابو میں آیا نہ وہ
ہاتھ میں اس کے کیا تھا جو دیتا ہمیں
صرف اک کیل اس کیل کا اک نشاں
نشۂ مے کوئی چیز ہے
اک گھڑی دو گھڑی ایک رات
اور حاصل وہی درد سر
اس نے زنداں میں لیکن پیا تھا جو زہر
اٹھ کے سینے سے بیٹھا نہ اس کا دھواں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.