ڈپریشن
خوف کے جزیرے میں۔۔ قید ہوں میں برسوں سے
دور تک فصیلیں ہیں
اور ان پہ لوہے کی اونچی اونچی باڑیں ہیں،
نوک دار کیلیں ہیں
ڈالتا کمندیں ہوں۔۔۔ جیل کے کناروں پر۔۔۔
خار دار تاروں پر
سیٹیاں سی بجتی ہیں دیر تک سماعت میں
پہرے دار آتے ہیں
بیڑیاں سی سجتی ہیں
پاؤں کو اٹھانا، بھی ہاتھ کو ہلانا بھی
جسم بھول جاتا ہے
جرم بھی نہیں معلوم، عمر بھی نہیں معلوم
کچھ پتا نہیں مجھ کو۔۔۔ اس طرف فصیلوں کے
کس قدر سمندر ہے
کشتیاں بھی چلتی ہیں، بادباں بھی کھلتے ہیں
نور کے جہاں بھی ہیں، جسم کے مکاں بھی ہیں،
آدمی وہاں بھی ہیں
چھوڑیئے، نہیں جاتے
کیا کریں گے باہر بھی۔۔۔
ٹھیک ہے فصیلوں میں
آنسوؤں کی جھیلوں میں چاند کو اتاریں گے
بے حسی کے ٹیلوں پر نقش پا ابھاریں گے
موت کے گلیمر میں ڈوب ڈوب جائیں گے
قبر کے اندھیرے سے رات کو سجائیں گے
موت کا فسردہ پن کتنا خوب صورت ہے
اک جہاں اداسی کا بس مری ضرورت ہے!
- کتاب : Quarterly TASTEER Lahore (Pg. 364)
- Author : Naseer Ahmed Nasir
- مطبع : H.No.-21, Street No. 2, Phase II, Bahriya Town, Rawalpindi (Volume:15, Issue No. 1, 2, Jan To June.2011)
- اشاعت : Volume:15, Issue No. 1, 2, Jan To June.2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.