مرے دیس کی ان زمینوں کے بیٹے جہاں صرف بے برگ پتھر ہیں صدیوں سے تنہا
جہاں صرف بے مہر موسم ہیں اور ایک دردوں کا سیلاب ہے عمر پیما
پہاڑوں کے بیٹے
چنبیلی کی نکھری ہوئی پنکھڑیاں سنگ خارا کے ریزے
سجل دودھیا نرم جسم اور کڑے کھردرے سانولے دل
شعاعوں ہواؤں کے زخمی
چٹانوں سے گر کر خود اپنے ہی قدموں کی مٹی میں اپنا وطن ڈھونڈتے ہیں
وطن ڈھیر اک ان منجھے برتنوں کا
جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں در بہ در ڈھونڈھتی ہیں
وطن وہ مسافر اندھیرا
جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے کناروں پہ شاداب شہروں میں رک کر
کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے
ندی بھی زر افشاں دھواں بھی زر افشاں
مگر پانیوں اور پسینوں کے انمول دھارے میں جس درد کی موج ہے عمر پیما
ضمیروں کے قاتل اگر اس کو پرکھیں
تو سینوں میں کالی چٹانیں پگھل جائیں!
- کتاب : Kulliyaat-e-majiid Amjad (Pg. 407)
- Author : Majiid Amjad
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.