وقت کا مارا ہوا انساں رعونت کا شکار
جس کی محنت کا نتیجہ عظمت سرمایہ دار
اصل میں ہندوستاں کا بادشہ لیکن غلام
زندگی کی دوسری منزل میں ہے گرم خرام
پھر رہا ہے چلچلاتی دھوپ میں دیوانہ وار
بال بچوں کا تصور کر رہا ہے بے قرار
خون پانی ایک کر کے دام جب ملتے نہیں
ہاتھ پھیلا کر بھی کیا دے گا کوئی نان جویں
ابتدا ہے تیسرے فاقے کی گھر میں کچھ نہیں
سوچ کر کچھ گھر کی جانب چل پڑا مرد حزیں
دیکھتا کیا ہے کہ بچہ بھوک سے ہے بے قرار
جیسے کوئی مار کھا کے بھاگنے والا شکار
گود میں بٹھلا کے ماں سمجھا رہی ہے پیار سے
آتے ہی ہوں گے ترے ابا ابھی بازار سے
اس سے یہ افلاس کا منظر نہ دیکھا جا سکا
بے تحاشا چیخ ماری سر پٹک کر مر گیا
ایک سناٹا زمیں سے آسماں تک چھا گیا
وقت کے ماتھے پہ ہلکا سا پسینہ آ گیا
حیف اے ارض مقدس مادر ہندوستاں
تیرے بچے اور یوں ہو جائیں بے نام و نشاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.