گاندھی جی کی آواز
دلچسپ معلومات
(2 اکتوبر 1964ء)
سلام اے افق ہند کے حسیں تارو
سلام تم پہ سپہر وطن کے مہ پارو
سلام تم پہ مرے بچو اے مرے پیارو
بھلائے بیٹھے ہو تم مجھ کو کس لئے یارو
جلاؤ میرے پیامات کے دئے یارو
سنو کہ میری تمنا و آرزو تم ہو
سنو کہ مادر بھارت کی آبرو تم ہو
سنو کہ امن زمانہ کی جستجو تم ہو
خموش بیٹھے ہو کیوں اپنے لب سیے یارو
جلاؤ میرے پیامات کے دئے یارو
سلام تم پہ کہ میرے چمن کے پھول ہو تم
مری نظر مری فطرت مرا اصول ہو تم
مگر یہ کیا ہوا کس واسطے ملول ہو تم
یہ تم نے چند غلط کام کیوں کئے یارو
جلاؤ میرے پیامات کے دئے یارو
وطن میں خون کے دریا بہا دئے تم نے
سبھی نقوش اہنسا مٹا دئے تم نے
رواج کار محبت بھلا دئے تم نے
رسوم مہر و وفا ترک کر دئے یارو
جلاؤ میرے پیامات کے دئے یارو
سبق پڑھایا تھا تم کو عدم تشدد کا
تمہیں بتایا تھا میں نے گناہ ہے ہنسا
یہ تم نے کس لئے تیغ و تبر سے کام لیا
تمہارے ہاتھوں میں خنجر ہیں کس لئے یارو
جلاؤ میرے پیامات کے دئے یارو
تمہارے ذہنوں میں مکروہ سازش اور فساد
دلوں میں نفرت و کینہ ہے اور بغض و عناد
مگر لبوں پہ ہے بابائے قوم زندہ باد
مجھے یہ کھوکھلے نعرے نہ چاہیے یارو
جلاؤ میرے پیامات کے دئے یارو
زمین نانک و چشتی پکارتی ہے تمہیں
دیار بدھ کی تجلی پکارتی ہے تمہیں
سنو کنہیا کی بنسی پکارتی ہے تمہیں
اب اور دیر بھی کرنی نہ چاہیے یارو
جلاؤ میرے پیامات کے دئے یارو
اٹھو زمانۂ حاضر ہے اک پیام عمل
اٹھو کہ کانپ رہی ہے نوائے ساز غزل
اٹھو کہ ماند نہ ہو جائے حسن تاج محل
اٹھو کہ سینوں میں پھر روشنی جئے یارو
جلاؤ میرے پیامات کے دئے یارو
پھر اپنے ذہنوں میں لہکاؤ دوستی کا چمن
پھر اپنی سانسوں سے مہکاؤ پیار کا مدھوبن
پھر اپنے کاموں سے چمکاؤ سر زمین وطن
تمہارے میکدے میں دہر پھر پئے یارو
جلاؤ میرے پیامات کے دئے یارو
نہ چھوڑو زندہ وطن میں کسی لٹیرے کو
کچل دو بڑھ کے ہر اک سانپ کو سپیرے کو
مٹاؤ فرقہ پرستی کے ہر اندھیرے کو
بچاؤ دیش کو بھگوان کے لئے یارو
جلاؤ میرے پیامات کے دئے یارو
مجھے یہ کھوکھلے نعرے نہ چاہیے یارو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.