مہمان
آج کی رات اور باقی ہے
کل تو جانا ہی ہے سفر پہ مجھے
زندگی منتظر ہے منہ پھاڑے
زندگی خاک و خون میں لتھڑی
آنکھ میں شعلہ ہائے تند لیے
دو گھڑی خود کو شادماں کر لیں
آج کی رات اور باقی ہے
چلنے ہی کو ہے اک سموم ابھی
رقص فرما ہے روح بربادی
بربریت کے کاروانوں سے
زلزلے میں ہے سینۂ گیتی
ذوق پنہاں کو کامراں کر لیں
آج کی رات اور باقی ہے
ایک پیمانہ مے سر جوش
لطف گفتار گرمئی آغوش
بوسے اس درجہ آتشیں بوسے
پھونک ڈالیں جو میری کشت ہوش
روح یخ بستہ ہے تپاں کر لیں
آج کی رات اور باقی ہے
ایک دو اور ساغر سرشار
پھر تو ہونا ہی ہے مجھے ہشیار
چھیڑنا ہی ہے ساز زیست مجھے
آگ برسائیں گے لب گفتار
کچھ طبیعت تو ہم رواں کر لیں
آج کی رات اور باقی ہے
پھر کہاں یہ حسیں سہانی رات
یہ فراغت یہ کیف کے لمحات
کچھ تو آسودگی ذوق نہاں
کچھ تو تسکین شورش جذبات
آج کی رات جاوداں کر لیں
آج کی رات اور آج کی رات
- کتاب : Kulliyaat-e-Majaz (Pg. 171)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.