دیوالی ۱۹۵۸
دیپاولی آتی ہے جو ہر سال پھر آئی
پیغام مسرت کا جہاں کے لئے لائی
مقصود ہے کچھ جشن بھی کچھ اس سے بھلائی
برسات کا موسم گیا لازم ہے صفائی
پیغام نفاست ہے بہ ہر گام دیوالی
دنیا نہیں بھولی ہے ابھی رام کا آنا
فرقت زدہ بھائی کو کلیجے سے لگانا
مشتاق تھی خلقت اسے دیدار دکھانا
پھر خلق کا فرط خوشی سے جشن منانا
بچھڑوں کو ملانے کا ہے پیغام دیوالی
تا سال یہ لازم ہے کہ محنت سے کمائیں
کچھ نیک و بد ایام کی خاطر بھی بچائیں
ہر روز خدا جتنی بھی توفیق دے کھائیں
پھر سال کے تہوار پہ ہم جشن منائیں
اک سال کی محنت کا ہے انعام دیوالی
بازار میں سجتی ہیں مٹھائی کی دکانیں
کھیلوں کے کہیں ڈھیر بتاشوں کی قطاریں
مٹی کے کھلونے ہیں جو منہ سے ابھی بولیں
ہر چیز پہ وہ حسن کہ سب جان کو واریں
ہے دل کی خوشی جان کا آرام دیوالی
روشن ہیں دیے جیسے زمیں پر ہوں ستارے
قندیل کے سائے کہیں بجلی کے بھبھوکے
وہ لکشمی پوجن وہ عقیدت کے بلاوے
تم آ کے رہو گھر میں کہ رونق ہے تمہیں سے
تم آؤ تو ظلمت کو کرے رام دیوالی
جو چاہتے ہیں لکشمی ہو جلد ہماری
ہے جتنی بھی دولت ہمیں مل جائے وہ ساری
تہوار یہ جوئے سے مناتے ہیں جواری
ہو ہار کہ ہو جیت ہے دونوں میں ہی خواری
ان کے لئے ہے باعث الزام دیوالی
وابستہ دیوالی سے ہیں ماضی کے فسانے
کچھ شوق کے قصے بھی ہیں کچھ ہجر کے صدمے
کچھ باعث تسکیں ہیں شفاؔ آج کے جلوے
ماحول یہ کب تک ہے اسے کیا کوئی جانے
ہے رنگ میں ڈوبی ہوئی اک شام دیوالی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.