عید
چلو ہم عید منائیں کہ جشن کا دن ہے
خوشی کے گیت سنائیں کہ جشن کا دن ہے
رخوں پہ پھول کھلائیں کہ جشن کا دن ہے
دلوں میں پریت جگائیں کہ جشن کا دن ہے
مگر رکو ذرا ٹھہرو یہ سسکیاں کیسی
خوشی کہ رت میں دکھوں کی یہ بدلیاں کیسی
سنو یہ غور سے مائیں بلک رہی ہیں کہیں
یہ دیکھو بچوں کی آنکھیں چھلک رہی ہیں کہیں
کسی کے عید کے جوڑے میں ہے کفن آیا
کہیں پہ زخموں سے لپٹا ہوا بدن آیا
کوئی تو کھلنے سے پہلے کلی کو لوٹ گیا
کہیں درخت ہی اپنی زمیں سے ٹوٹ گیا
کس نے کر دیے پامال سایہ دار شجر
جڑیں کہیں پہ کٹیں اور کہیں بچے نہ ثمر
کہاں ہیں وہ کہ جو خود کو خدا سمجھتے ہیں
وہ جو کہ امن و اماں کے فسانے کہتے ہیں
وہ جن کے ہاتھ میں رہتا ہے پرچم انساں
ہوئے ہیں ان کے سب افکار امن اب عریاں
اگر ہیں صاحب کردار تو زباں کھولیں
اگر ہیں صاحب ایماں تو پھر وہ سچ بولیں
ہیں مقتدر تو بس اب روک لیں حسام جور
یہ بہتی خون کی ندیاں مصیبتوں کا دور
پہ ان سے کوئی امید وفا کرے کیسے
جو بد دعا ہو مجسم دعا کرے کیسے
جہاں میں چار طرف چیخ ہے کراہے ہیں
ستم رسیدہ دلوں سے نکلتی آہیں ہیں
ہے شور نالہ و آہ و بکا چہار طرف
کہاں کی عید ہے ماتم بپا چہار طرف
منائے کیسے کوئی عید ہر طرف غم ہے
منائے کیسے کوئی عید آنکھ پر نم ہے
سنائے کیسے کوئی گیت ساز ٹوٹ گئے
جگائے کیسے کوئی آس اپنے چھوٹ گئے
مگر یہ عید کا دن بھی تو اک حقیقت ہے
کہ وجہ عید سمجھنا بھی اک عبادت ہے
چلو کہ روتے ہوؤں کو ہنسا کے عید منائیں
کسی کے درد کو اپنا بنا کے عید منائیں
دلوں سے اپنے عداوت مٹا کے عید منائیں
کسی کے لب پہ تبسم سجا کے عید منائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.