ساون کے مہینے
فردوس بنائے ہوئے ساون کے مہینے
اک گل رخ و نسریں بدن و سرو سہی نے
ماتھے پہ ادھر کاکل ژولیدہ کی لہریں
گردوں پہ ادھر ابر خراماں کے سفینے
مینہ جتنا برستا تھا سر دامن کہسار
اتنے ہی زمیں اپنی اگلتی تھی دفینے
اللہ رے یہ فرمان کہ اس مست ہوا میں
ہم منہ سے نہ بولیں گے اگر پی نہ کسی نے
وہ مونس و غم خوار تھا جس کے لیے برسوں
مانگی تھیں دعائیں مرے آغوش تہی نے
گل ریز تھے ساحل کے لچکتے ہوئے پودے
گل رنگ تھے تالاب کے ترشے ہوئے زینے
بارش تھی لگاتار تو یوں گرد تھی مفقود
جس طرح مئے ناب سے دھل جاتے ہیں سینے
دم بھر کو بھی تھمتی تھیں اگر سرد ہوائیں
آتے تھے جوانی کو پسینے پہ پسینے
بھر دی تھی چٹانوں میں بھی غنچوں کی سی نرمی
اک فتنۂ کونین کی نازک بدنی نے
گیتی سے ابلتے تھے تمنا کے سلیقے
گردوں سے برستے تھے محبت کے قرینے
کیا دل کی تمناؤں کو مربوط کیا تھا
سبزے پہ چمکتی ہوئی ساون کی جھڑی نے
بدلی تھی فلک پر کہ جنوں خیز جوانی
بوندیں تھیں زمیں پر کہ انگوٹھی کے نگینے
شاخوں پہ پرندے تھے جھٹکتے ہوئے شہ پر
نہروں میں بطیں اپنے ابھارے ہوئے سینے
اس فصل میں اس درجہ رہا بے خود و سرشار
میخانے سے باہر مجھے دیکھا نہ کسی نے
کیا لمحۂ فانی تھا کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا
دی کتنی ہی آواز حیات ابدی نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.