میں ٹیوٹر تھا
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
کہیں میں صوفے پہ بیٹھا کہیں چٹائی پر
کہیں ٹکایا گیا کھری چارپائی پر
کہیں سے نکلا کسی لعل کی پٹائی پر
کسی عزیز نے ٹرخا دیا مٹھائی پر
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
نہ کوئی شام مری اپنی شام ہوتی تھی
کہ میری شام تو بچوں کے نام ہوتی تھی
پہ جب کسی کی ممی ہم کلام ہوتی تھی
تو میرے علم کی ترکی تمام ہوتی تھی
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
جو چھوٹا بھائی بھی شاگرد کا کوئی ہوتا
تو وہ بھی آن کے میری ہی گود میں سوتا
بڑے کے پٹنے پہ چھوٹا جو پھوٹ کر روتا
میں شیروانی کے دھبوں کو دیر تک دھوتا
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
ہر اک قماش کے بچے پڑھا دیے میں نے
متاع علم کے نلکے لگا دیے میں نے
جو کھوٹے سکے تھے وہ بھی چلا دیے میں نے
جو اے ایس ایس تھے سی ایس ایس بنا دیے میں نے
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
نہ قدر داں نہ کوئی صاحب نظر پایا
نہ گھاٹ ہی کا رہا میں نہ کوئی گھر پایا
خطاب پایا تو سوکھا سڑا سا ''سر'' پایا
میں اپنی قوم کے بچے پڑھا کے بھر پایا
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
- کتاب : Anwar Masood Se Khalid Masood Tak (Pg. 63)
- Author : Hassan Abbasi
- مطبع : Nastaleeq Matbuaat (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.