نیا ہاتھی
شادیاں ہوتی تھیں جب پہلے کسی دیہات میں
چند ہاتھی بھی منگائے جاتے تھے بارات میں
تاکہ کچھ ساراتیوں پر رعب سمدھی کا پڑے
اور اس کے نام کا اطراف میں جھنڈا گڑے
ہاتھیوں کو دیکھ کر اطراف میں ہوتی تھی دھوم
گھیر لیتا تھا انہیں اہل تماشا کا ہجوم
ان کی خورش پر مگر ہوتی تھی خرچ اتنی رقم
صاحب خانہ بچارے کا نکل جاتا تھا دم
گاڑیوں برگد کے پتے ایک من پختہ اناج
ایک ہاتھی کو ملا کرتا تھا روزانہ خراج
جب عدم آباد کی جانب زمیں داری گئی
رفتہ رفتہ ہاتھیوں کی گرم بازاری گئی
اور اب ان کے عوض ہر گاؤں ہر دیہات میں
نا خدایان سیاست جاتے ہیں بارات میں
آج کل شوبھا بڑھانے کے لئے بارات کی
ہر لگن میں مانگ ہوتی ہے انہیں حضرات کی
ان کی آمد سے بھی مچ جاتی ہے چاروں سمت دھوم
گھیر لیتا ہے انہیں بھی گاؤں والوں کا ہجوم
میزباں کے گھر کی رونق شان و شوکت رعب داب
دفعتاً بڑھتے ہیں بے پایاں و بے حد و حساب
ایک ہاتھی پر جو پہلے خرچ ہوتی تھی رقم
ایک نیتا پر وہی ہوتی ہے صرف اب بیش و کم
فرق صرف یہ ہے کہ وہ کھاتا تھا گلا یہ پلاؤ
اس کا حصہ ایک من تھا ان کا حصہ تین پاؤ
اس کے آگے ٹوکرا تھا ان کے آگے خاص دان
وہ چبا جاتا تھا پتے یہ چبا جاتے تھے پان
پانچ میں ملتا تھا پہلے ایک من گلے کا ڈھیر
سینکڑوں کی اب چپت ہے مرغ و ماہی و بٹیر
مانگتے ہیں دعوت شادی میں سب ہر بار مرغ
اب حساب اس کا لگا لو ایک نیتا چار مرغ
اس ترازو میں برابر ہیں وہ نیتا ہوں کہ فیل
کھاتے ہیں جنتا کا حصہ بھی یہ جنتا کے وکیل
خواہ نیتا ہو کہ ہاتھی نام باراتی کا ہے
الغرض دیوالیہ ہر حالت میں ساراتی کا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.