آدمی اور جانور
شام کو جب گھر میں آئے ہم مڈل اسکول سے
ایک صاحب ملنے آئے شہر آسنسول سے
ہم نے پوچھا نام تو بولے محمد افتخار
خیریت پوچھی تو وہ کہنے لگے بے اختیار
آپ ہیں بازغؔ بہاری شاعر طنز و مزاح
سن اٹھتر میں ہوا جن کا ظرافت سے نکاح
مستیٔ طنز و ظرافت جب سے ہے سر پر سوار
شاعری کے فیلڈ میں ہیں آپ شتر بے مہار
میری باتوں کا نہ ہرگز آپ جو مانیں برا
آپ کو بازغؔ بہاری ہے یہ میرا مشورہ
آپ اب صنف ظرافت سے تعلق توڑیئے
اور شہناز غزل سے اپنا رشتہ جوڑئیے
بڑھ نہیں سکتا ظرافت سے وقار شاعری
طنز سے چلتا نہیں ہے کاروبار شاعری
اب ہزل گوئی تو اک بازیچۂ اطفال ہے
بھیرویں ملہار ٹھمری شیوۂ قوال ہے
آپ دیکھیں گے غزل کی صنف اپنانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد
مسئلہ ہو سامنے تو اس کا حل بھی چاہئے
جب گلا اچھا ہو تو اچھی غزل بھی چاہئے
دست بستہ پھر تو ہم نے عرض کی اے محترم
قادر مطلق کا ہے انسان پہ کتنا کرم
آج بھی نازاں ہے جس پر فطرت پروردگار
منفرد ہے آدمی اللہ کا وہ شاہکار
آدمی کو جس نے بخشی ہے متاع شاعری
ہے ترنم بھی ودیعت اک اسی اللہ کی
سننے والوں کو سماعت کا مزہ بھی چاہئے
جب غزل اچھی ہو تو اچھا گلا بھی چاہئے
طائران تیرہ شب جب بولتے ہیں تحت میں
پھیل جاتی ہے نحوست کوہسار و دشت میں
بھونکتے ہیں رات کو جب بھی سگان کوئے یار
پھر نظر آتا نہیں ہے عاشقوں کو سوئے یار
مست ہو کر جب گدھے کرتے ہیں ڈھینچوں رات کو
یاد آ جاتی ہے نانی بھوت اور جنات کو
جانور بے عقل انساں مخزن عقل سلیم
آدمی اور جانور میں ہے یہ تفریق عظیم
جانور ہنستا نہیں ہے اور ہنسا سکتا نہیں
ابن آدم کی طرح وہ گنگنا سکتا نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.