واپسی
ایک دن جب تنگ مجھ پر ہو گئی ارض دکن
تب مہاجر بن کے نکلا باندھ کر سر سے کفن
کتنے ہی برسوں عذاب اجنبیت بھی سہا
ذہن و دل پر جھیلتا ہی رہ گیا رنج و محن
مفلسی میں بھی توکل پر گزارہ یوں کیا
پیرہن صبر و قناعت کا رہا ہے زیب تن
خاک چھانی در بہ در کی ٹھوکریں کھائیں بہت
پر مجھے مصروف رکھتی تھی سدا فکر سخن
فکر دنیا سے بھی اکثر مل ہی جاتی تھی نجات
فکر عقبیٰ میں جو رہتا میں عبادت میں مگن
ہاتھ میں دھاگا تھا چھوٹا اور سوئی تھی بڑی
میں رفو بھی کر نہیں سکتا تھا اپنا پیرہن
دیکھ کر مشق سخن میری سخن فہموں نے جب
کر لیا مجھ بے وطن کو بھی شریک انجمن
پھر تو جیسے رحمتوں کے باب مجھ پر کھل گئے
پھر مجھے ملتی گئی ہر شعر پر داد سخن
حیثیت سے بھی زیادہ عزت و شہرت ملی
رزق بھی بخشا خدا نے بہ طفیل علم و فن
اب سبھوں کو خوش و خرم اور ہنستا دیکھنے
وقف میں نے کر دیا ہے اپنا تن من اور دھن
آخرت بھی بس اسی طرح سنور جائے مری
اس لگن میں تا دم آخر رہوں گا میں مگن
انکساری سے زمیں کو دیکھ کر چلتا ہوں میں
میں نے بدلا ہے نہ بدلوں گا کبھی اپنا چلن
شاعری کی ہر کجی ڈنڈے سے سیدھی ہو گئی
ذہن کو میرے معطر کر گیا کیوڑے کا بن
گھوکرو کے چند کانٹے ذہن میں جب چبھ گئے
فکر کے سب آبلے پھوٹے تو راس آئی چبھن
تاکہ میری شاعری کی بھی زمیں زرخیز ہو
دھنمڑی سے بھی کروں گا اکتساب فکر و فن
کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ آخر کیا کروں
اس بڑھاپے میں بھی مجھ پر ہیں فدا کچھ گل بدن
اے خدا کر لے قبول اب ؔخواہ مخواہ کی یہ دعا
قائم و دائم رہے زندہ دلوں کی انجمن
گود میں اپنے سلانے کے لئے ہی ؔخواہ مخواہ
کھینچ لائی ہے میری مٹی مجھے اپنے وطن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.