دیکھتے جاؤ
کسی کی ڈھل گئی کیسی جوانی دیکھتے جاؤ
جو تھیں بیگم وہ ہیں بچوں کی نانی دیکھتے جاؤ
ٹنگی ہے جو مرے ہینگر نما کندھوں پہ میلی سی
مری شادی کی ہے یہ شیروانی دیکھتے جاؤ
دکھا کے دسویں نو مولود کو مجھ سے وہ یہ بولیں
محبت کی ہے یہ تازہ نشانی دیکھتے جاؤ
کیا بیگم نے نافذ گھر میں دستور زباں بندی
مرے گھر آؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
میں پچپن کا ہوں وہ پندرہ برس سے تیس کے ہی ہیں
جوانی ان کی میری ناتوانی دیکھتے جاؤ
کھڑے ہیں سامنے آئینے کے اور مسکراتے ہیں
جوانی ہو گئی کیسی دوانی دیکھتے جاؤ
بجھا سکتا نہ تھا جو تشنگی صحرا کی وہ بادل
حیا سے ہو گیا ہے پانی پانی دیکھتے جاؤ
بہت مجبور ہوتا ہے تو انساں خون پیتا ہے
گراں ہے کس قدر پینے کا پانی دیکھتے جاؤ
ہمارا خون اک نہ اک دن لا کر رہے گا رنگ
تمہیں مہنگی پڑے گی زندگانی دیکھتے جاؤ
لہو پر بے گناہوں کے رکھی ہوں جس کی بنیادیں
نہیں چلنے کی ایسی حکمرانی دیکھتے جاؤ
حیا اور شرم اٹھتی جا رہی ہے اس زمانے سے
نہ جانے کب مرے آنکھوں کا پانی دیکھتے جاؤ
جوانی ؔخواہ مخواہ کے دل کی کچھ تو گل کھلائے گی
حسینوں سے چلی ہے چھیڑ خانی دیکھتے جاؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.