اجنبی چمن میں
نہ بنا سکا نشیمن کسی اجنبی چمن میں
مرا گھر جلا ہے جب سے مرے اپنے ہی وطن میں
مرے ذوق خوش لباسی کو فرشتے بھی تو دیکھیں
میں مروں تو دفن کرنا ٹیری لین کے کفن میں
یہ ہے بے ثبات دنیا اسی دم کے مرغ کی سی
جو صبح پکا کچن میں مگر آیا نہ ٹفن میں
مزہ گل کے توڑنے کا تو ملا بہت اے گلچیں
ملی لذت خلش بھی کسی خار کی چبھن میں
یہی آرزو ہے میری نظم و نثر میں یکساں
کہ نہیں تضاد کوئی میرے شعر اور سخن میں
کبھی سابقہ پڑے نہ مرا ساس اور خسر سے
ملے بیوی گائے جیسی جو بندھی رہے صحن میں
میں کبھی نہ بیاہ کرتا جو مجھے یہ علم ہوتا
کہ حجم بڑھے گا ان کا تو گھٹوں گا میں وزن میں
چڑھا ان پہ گوشت کیسے مری نکلی ہڈیاں کیوں
یہ تو راز کی ہیں باتیں کہوں کیسے انجمن میں
یہی فرق رہ گیا ہے اے رقیب تجھ میں مجھ میں
میں بسا ہوں جا کے بمبئی تو رہا نہیں دکن میں
وہاں بیاہ میں رچایا تو رہا یہاں اکیلا
میں قفس میں بھی ہوں آزاد تو اسیر ہے چمن میں
یہ ہمارا ہی وطن ہے مگر آج ہم ہیں مہماں
ہے عجب ستم ظریفی کہ ہیں بے وطن وطن میں
کوئی ؔخواہ مخواہ پوچھے ترے قرب کی لطافت
کہ ترا خیال آیا ہوئی گدگدی بدن میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.