زلفیں چھوڑیں ہیں کہ جوڑا اس نے چھوڑا سانپ کا
دیکھیے کس کس کو ڈستا ہے یہ جوڑا سانپ کا
گورے گالوں پر ترے زلفیں یہ لہراتی نہیں
یاسمیں زار صباحت میں ہے جوڑا سانپ کا
عشق ان زلفوں کا مجھ سے ترک ہونے کا نہیں
ہے مرا ہم زاد اے ناصح یہ جوڑا سانپ کا
دونوں زلفیں یار کی الٹی ہیں بالوں پر مرے
وجد کرتا ہے صدائے نے یہ جوڑا سانپ کا
منڈ گئیں زلفیں ہیں شاعر کس سے اب دیں گے مثال
ہو گیا تشبیہ کی خاطر بھی توڑا سانپ کا
عمر بھر دل کو خیال گیسوئے پیچاں رہا
دھیان اس نادان نے ہرگز نہ چھوڑا سانپ کا
نقرئی موباف چوٹی میں رہا ان کی سدا
کینچلی نے عمر بھر پیچھا نہ چھوڑا سانپ کا
پڑ گئی ایذا دہندی کی تری زلفوں کو خو
کاٹتا ہے اڑ کے عاشق کو یہ جوڑا سانپ کا
کچھ سمجھ کر رہا ہوں یار کی زلفوں کی داشت
پالتا ہوں اپنے کٹوانے کو جوڑا سانپ کا
شام سے ان گیسوؤں کی یاد میں جو سو رہا
خواب میں دیکھا کیا تا صبح جوڑا سانپ کا
عشق میں گیسو و ابرو کے اگر دینی ہے جان
نیش عقرب کھا کے پی لے زہر تھوڑا سانپ کا
واسطے موذی کے آخر میں بھی موذی بن گیا
سر کسی حالت میں بے کچلے نہ چھوڑا سانپ کا
عشق گیسو میں نہ قطرہ بھی تلف ہونے دیا
زہر سارا حلق میں میں نے نچوڑا سانپ کا
خط پہ آتے ہیں بہت لہرا کے گیسو یار کے
سبزہ نوخیز پر غش ہے یہ جوڑا سانپ کا
حلقۂ گیسوئے شب کو ذرۂ افشاں چنی
رات کو چن چن کے اک اک دانت توڑا سانپ کا
ہر قدم پر مار کر سر کر رہا ہے ناگ پیچ
اب چلن سیکھا ہے اس موذی نے تھوڑا سانپ کا
دشمن جانی کو اپنے دی نہ ایذا رندؔ نے
دانت ہی توڑا نہ چھالا اس نے پھوڑا سانپ کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.