یوں ہی نہیں ہم بولتے جاتے یہ اپنی مجبوری ہے
یوں ہی نہیں ہم بولتے جاتے یہ اپنی مجبوری ہے
جونہی کچھ کہہ چکتے ہیں لگتا ہے بات ادھوری ہے
سب اپنی افواہ بنے ہیں اصل میں کیا تھے بھول گئے
جینے کی جو صورت ہے سو یہ بھی آج ضروری ہے
دنیا میری زندگی کے دن کم کرتی جاتی ہے کیوں
خون پسینہ ایک کیا ہے یہ میری مزدوری ہے
اپنے بعد ہی دنیا میں ٹھہراؤ جو آئے تو آئے
جب تک ہم زندہ ہیں تب تک ہر اک دور عبوری ہے
ڈھونڈ رہے ہیں کس کو لوگ شکاری جیسی نظروں سے
صف در صف موجود ہوں میں تو ہر اک صف تو پوری ہے
سب اک دوسرے کو نظروں سے بس یہ دلاسہ دیتے ہیں
ہیں تو ہم سب پاس ہی بس اندر کی یہ اک دوری ہے
اتنی ساری آوازوں میں شاید سننے والے کو
بس اتنا ہی یاد رہے گا میری بات ضروری ہے
کوئی بہانا مل جائے تو ہاتھ نہیں ہم آنے کے
دیر یہ ہے چل دینے میں تیاری تو پوری ہے
تلخؔ ہمارے ہوش کے عالم کا ہے رنگ سخن کچھ اور
جس پر وجد میں ہے اک دنیا وہ تو غیر شعوری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.