یہ زمان و مکاں کا ستم بھی نیا
تیرا غم بھی نیا، میرا غم بھی نیا
شوخیٔ حسن شہروں میں یوں الاماں
ساتھ موسم کے بدلیں صنم بھی نیا
مصلحت وقت کی بھیج دیتی ہے کیوں
ہر مسرت کے ہمراہ رم بھی نیا
کون لفظوں کو دیتا ہے معنی نئے
اور مرے شعر کو پیچ و خم بھی نیا
بد گمانی نے تبدیل محور کئے
کعبہ اس کا تو میرا صنم بھی نیا
آفریں آفریں دشمن جاں مرے
تیری ایجاد ہے یہ ستم بھی نیا
داور حشر عاجز ہوں میں، تو نہیں
لوح دے اب نئی اور قلم بھی نیا
ملک در ملک بھٹکے، سکوں کب ملا
چاہئے دل کو شہر عدم بھی نیا
اصطلاح جہاد آج بدلی ہے یوں
کربلا ہے نئی اور علم بھی نیا
لمحے لمحے کی تحقیق و ایجاد سے
مل گیا نسل نو کو شکم بھی نیا
ہر طرف کوئی جنت ہے اب دہر میں
اور ہے باغبان ارم بھی نیا
میٹھی باتیں، کبھی تلخ لہجے کے تیر
دل پہ ہر دن ہے ان کا کرم بھی نیا
روح جمشیدؔ نادم ہے اس عہد میں
اب ہے ہر ہاتھ میں جام جم بھی نیا
حشر لمحے میں، پل میں سکوت ازل
آہ! یہ وقت کا زیر و بم بھی نیا
شخصیت ایک ہے پھر بھی پہلو ہزار
اس کی باتوں میں ہوتا ہے خم بھی نیا
لاج خالدؔ کی رکھ لے خدایا ذرا!
تجھ سے باندھے یہ ہر دن بھرم بھی نیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.