اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر وہ کوچہ وہ مکاں یاد رہے گا
وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا
ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا
ہاں بزم شبانہ میں ہمہ شوق جو اس دن
ہم تھے تری جانب نگراں یاد رہے گا
کچھ میرؔ کے ابیات تھے کچھ فیضؔ کے مصرعے
اک درد کا تھا جن میں بیاں یاد رہے گا
آنکھوں میں سلگتی ہوئی وحشت کے جلو میں
وہ حیرت و حسرت کا جہاں یاد رہے گا
جاں بخش سی اس برگ گل تر کی تراوت
وہ لمس عزیز دو جہاں یاد رہے گا
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.